جشن ِآزادی کے حوالے سے تقریبات

قائداعظم اکادی میں ’’جشن آزادی لیکچر‘‘
طاہر مسعود، فراست رضوی، خواجہ رضی حیدر، جلیس سلاسل کی گفتگو
جشن آزادی کے حوالے سے علمی، ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔ قائداعظم اکادی کے ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر علمی و ادبی حلقے کی معتبر و فعال شخصیت ہیں، وہ وقتاً فوقتاً اکادی میں اہم فکری نشستیں سجاتے رہتے ہیں۔ قیام پاکستان کی ضرورت اور قائداعظم کے افکار کے تناظر میں وہ اپنے عہد کے مسائل کے حل کے لیے اربابِ حل و عقد کو دعوتِ فکر دیتے رہتے ہیں۔
مزارِ قائد کے زیر سایہ قائداعظم اکادی کے باوقار کانفرنس ہال میں جشنِ آزادی لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔ موضوع تھا ’’تحریکِ پاکستان میں اردو کا حصہ‘‘۔ گفتگو کے لیے شہر کے معروف دانشور، ادیب، شاعر موجود تھے۔ معروف نقاد، دانشور سید فراست رضوی نے کہا کہ اردو کا لفظ سب سے پہلے مصحفیؔ نے اپنے شعر میں استعمال کیا۔ اردو بڑی ملنسار زبان ہے، یہ کسی بھی ملک کی سرکاری زبان نہیں مگر دنیا بھر میں اردو بستیاں قائم ہورہی ہیں۔ قائداعظم جانتے تھے کہ ہندو کلچر اتنا طاقتور ہے کہ وہ دوسری ثقافت کو اس طرح اپنے اندر ہضم کرلیتا ہے کہ اس کی پہچان ختم ہوجاتی ہے، اس لیے قائداعظم نے مسلمانوں کے لیے ’کمیونٹی‘ کا نہیں ’قوم‘ کا لفظ استعمال کیا۔ دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں نظریہ وطن نام کی کوئی چیز نہیں، قائداعظم نے آئیڈیالوجی کا لفظ استعمال کیا، اور یوں ایک نظریے کے تحت پاکستان ووٹ کی طاقت، قائداعظمؒ کی جدوجہد اور اجتماعی رائے عامہ سے وجود میں آیا، اور اس میں اردو زبان نے کلیدی کردار ادا کیا۔
معروف دانشور طاہر مسعود نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں، ایک اسلام اور دوسری اردو۔ آج اردو ہماری قومی زبان تو ہے سرکاری زبان نہیں، جس کی وجہ سے ہم اپنی منزل پہ نہیں پہنچ سکے، اردو کو سیاسی مسئلہ بنایا گیا، جبکہ اردو کی ترویج میں ہندوئوں کا بھی بڑا حصہ ہے، اُس زمانے کا اردو کا سب سے بڑا اخبار ’’کوہِ نور‘‘ ایک ہندو کا اخبار تھا۔ 1860ء میں انگریزوں نے ہندوئوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ ہندی عدالتی زبان ہونی چاہیے، چنانچہ گاندھی جی نے بابائے اردو سے کہا کہ ہم اردو کو اس لیے قبول نہیں کرسکتے کہ یہ قرآنی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد بھی زبان کا مسئلہ بنا، اور جن وجوہات کی بنا پر پاکستان بنا انہی وجوہات کی بنا پر دولخت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ سید سلیمان ندویؒ نے کہا تھا ’’اردو زبان نہیں، ضرورت ہے، جس طرح پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے اسی طرح اردو بھی اپنا راستہ بنالیتی ہے‘‘ آئندہ جو بھی اتحاد ہوگا وہ اردو کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ آج بھی سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود اردو کے سرکاری نفاذ میں بیوروکریسی بڑی رکاوٹ ہے۔ اب نئے پاکستان میں بھی اردو ذرائع ابلاغ مسائل کا شکار ہیں، اردو اخبارات و رسائل کی اشاعت میں بہت کمی ہورہی ہے، یہی حال کتابوں کا ہے۔ ہمیں اسے بچانا ہوگا۔ آج میڈیا چینل کے اینکر کو کروڑ روپے ملتے ہیں مگر کالم نگار کو لاکھ بھی نہیں ملتے۔ ہمیں اردو کے ساتھ اس کے رسم الخط کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ اردو زبان کا کلچر مسلم کلچر ہے۔
آصف انصاری نے کہا کہ انہوں نے لکھنؤ جیسے تہذیبی شہر میں کہیں بھی اردو رسم الخط میں کسی دکان کا بورڈ تک نہیں دیکھا، اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اردو سکھانے کے لیے چند کوچنگ سینٹر کوشاں ہیں۔ روزنامہ پاکستان کراچی کے نصیر احمد سلیمی نے کہا کہ ہمیں اردو کے نفاذ کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوگا۔ معروف صحافی جلیس سلاسل نے کہا کہ تحریکِ پاکستان کی کامیابی میں اسلام کے بعد اردو کا ہی بڑا حصہ ہے۔ ہندوستان کے علاوہ جہاں گجراتی، پشتو، پنجابی، بنگالی، سندھی زبان بولی جاتی تھی، وہاں ایک دوسرے سے رابطے کے لیے اردو زبان ہی استعمال ہوتی۔ قائداعظم نے اردو کو اسی لیے قومی زبان قرار دیا کہ اس کا رسم الخط مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن پاک سے مماثل ہے۔
میزبان خواجہ رضی حیدر نے گفتگو کے آغاز میں کہا کہ بعض مورخین کہتے ہیں کہ یہ اردو ہی تھی جس کے تحفظ کے لیے مسلمان کمربستہ ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ بنی، تحریک پاکستان میں اردو کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، آج ہمیں اپنے مسلم پریس خاص کر اردو پریس کو فعال کرنا ہوگا تاکہ معترضین کو بھرپور جواب دیا جاسکے۔ قائداعظم نے ڈھاکا یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی، اب اس کا سرکاری نفاذ ہونا چاہیے۔
شرکاء میں معروف صحافی، ادیب، شاعر حنیف عابد، کاشف علی غائر، راقم عبدالصمد تاجی، شبیر احمد انصاری، ذکی احمد ذکی، صدیق راز ایڈووکیٹ، عبدالرحمن طاہرؔ، حلیم انصاری و دیگر علم دوست شخصیات شامل تھیں۔ آخر میں فراست رضوی نے اپنی خوبصورت نظم ’’رنجِ فراموشی‘‘ پیش کی۔