اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی نیلی روشنی آنکھوں کے لیے تباہ کن قرار

سائنس دانوں نے اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی نیلی روشنی کو آنکھوں کے لیے تباہ کن قرار دے دیا،کہ گزشتہ سال ایک برطانوی خاتون کی خبر بہت مشہور ہوئی تھی جو مسلسل کئی راتوں کو دیر تک اسمارٹ فون کی اسکرین پر نظریں جمائے رہیں، جس کے بعد وہ ایک ماہ تک ایک آنکھ کی بینائی سے محروم رہیں۔ اب اسی تناظر میں یہ خبر ہے کہ خصوصاً رات کے وقت اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ سے خارج ہونے والی نیلی روشنی (بلیولائٹ) مسلسل آنکھوں پر پڑتی رہے تو اس سے آنکھوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، وجہ یہ ہے کہ نیلی روشنی یا تو سورج کی روشنی میں ہوتی ہے یا پھر ٹیبلٹ یا اسمارٹ فونز سے خارج ہوتی ہے۔ بلند توانائی والی یہ روشنی ایک جانب تو جسم کی اندرونی گھڑی کو متاثر کرتی ہے اور دوسری جانب آنکھوں میں تناؤ اور سبزموتیا کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف ٹولیڈو نے مفصل تحقیق کرنے کے بعد کہا ہے کہ اسمارٹ آلات سے خارج ہونے والی بلیو لائٹ 445 نینو میٹر شارٹ ویو موج ہوتی ہے، اور یہ روشنی آنکھوں کے خلیات کو خوفناک انداز میں متاثر کرتی ہے۔

انڈے اور خطرات

دیگر غذائوں کے مقابلے میں انڈوں سے لاحق خطرات سے عام لوگ زیادہ واقف نہیں۔ صارفین چکن اور مچھلی کے گوشت کے حوالے سے صفائی وغیرہ کا خیال رکھتے ہیں مگر انڈوں کو پکانے یا توڑنے کے بعد عام طور پر ہاتھ دھونے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ انڈوں کو عام طور پر محفوظ سمجھا جاتا ہے، تاہم کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسٹور کیسے کریں؟: بازار میں خریداری کرتے ہوئے انڈوں کا تھیلا دیگر اشیا سے الگ رکھا جائے اور فریج میں بھی ایسا ہی کیا جائے۔ انڈے دھونے کے بعد فریج میں رکھیں اور دو ہفتے کے اندر استعمال کرلیں۔ انڈوں کو ہمیشہ فریج کے شیلف میں رکھیں اور دروازے پر مت رکھیں جہاں اکثر لوگ رکھتے ہیں۔ جب فریج میں انڈے رکھیں تو اس کا درجہ حرارت 40 فارن ہائیٹ سے کم نہ کریں۔گندے انڈے کی شناخت کے لیے ایک انڈہ کسی برتن میں رکھیں اور اسے پانی سے بھردیں۔ اگر انڈہ پانی میں تیرنے لگے تو بہتر ہے کہ اسے استعمال نہ کیا جائے، جبکہ تہہ میں رہ جانے والا انڈہ استعمال کے لیے محفوظ ہوتا ہے۔
انڈے کیسے پکائیں؟: انڈوں کو اُس وقت تک پکانا چاہیے جب تک زردی اور سفیدی سخت نہ ہوجائیں، جبکہ انڈوں پر مشتمل پکوانوں کو 160 ڈگری فارن ہائیٹ پر پکانے کی ضرورت ہے تاکہ سالمونیلا جراثیم ختم ہوجائیں۔ یہ جراثیم ہاضمے کے متعدد امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ انڈوں سے بننے والی غذائیں پکنے کے فوری بعد کھالیں۔ کمرے کے درجہ حرارت میں رکھے جانے پر ان میں بیکٹیریا کی نشوونما ہونے لگتی ہے، لہٰذا غذا کو دو گھنٹے سے پہلے کھالیں، یا کمرے میں نہ رکھیں۔ اگر بچ جائے تو فریج میں رکھ دیں اور اسے بھی تین دن کے اندر کھالیں۔

دو سال میں فیس بک کا ٹریفک 50 فیصد کم ہوگیا

دنیا بھر میں مقبول سوشل میڈیا ویب سائٹ ’’فیس بک‘‘ کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ اب ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ دو برس میں اس پر آنے والے وزیٹرز کی تعداد یعنی ’’ٹریفک‘‘ میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔ دو سال پہلے تک فیس بک پر وزٹس کی ماہانہ تعداد آٹھ ارب پچاس کروڑ تھی جو اِس سال یعنی 2018ء کے وسط تک کم ہوکر چارارب ستّر کروڑ ماہانہ رہ گئی ہے۔ اس بات کا انکشاف ویب سائٹ ٹریفک پر نظر رکھنے اور تجزیہ کرنے والے آزاد پلیٹ فارم سمیلر ویب کی ذیلی ویب سائٹ ’’مارکیٹ انٹیلی جنس ڈاٹ آئی او‘‘ پر ایک تجزیہ نگار نے اپنے تازہ جائزے ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ میں کیا ہے۔ جائزے کے مطابق ایک طرف فیس بک پر آنے والے صارفین کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب یوٹیوب پر آنے والے افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

کتے اور بلی کے لعاب میں موجود ہلاکت خیز بیکٹیریا

کتے اور بلی کے لعاب میں موجود ’کیپنو سائیٹو فیگا‘ نایاب لیکن ہلاکت خیز بیکٹیریا ہے جو گزشتہ ماہ امریکہ میں دو افراد کی جان لے چکا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق گزشتہ ماہ 58 سالہ امریکی شخص شیرون لارسن اپنے پالتو کتے کے کاٹنے کی وجہ سے انتقال کرگئے تھے۔ اسی طرح 48 سالہ خاتون کو پالتو بلی نے ہاتھ پر کاٹ لیا تھا اور چند دنوں بعد وہ بھی چل بسیں۔ دونوں افراد کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ موت کی وجہ غیر معمولی اور منفرد ہے۔ دونوں کے خون میں Capnocytophaga نامی بیکٹیریا موجود تھا جو اب دنیا میں نایاب ہے اور عمومی طور پر کتے اور بلی کے لعاب میں پایا جاتا ہے۔ قبل ازیں خیال کیا جاتا تھا کہ کتے اور بلی میں پایا جانے والا یہ بیکٹیریا انسان کو بیمار اور لاغر تو کرسکتا ہے لیکن ہلاکت خیز نہیں، تاہم امریکہ میں دو افراد کی موت نے سابق نظریات کو غلط ثابت کردیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ Capnocytophaga کمزور قوتِ مدافعت والے افراد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا، لیکن دو صحت مند افراد کی موت پر ماہرین طب کو اس حوالے سے مزید تحقیق کرنا ہوگی۔