کراچی اور ڈھاکا سب سے زیادہ ناقابلِ رہائش شہروں میں شامل

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

دنیا میں سب سے زیادہ قابلِ رہائش شہروں کی فہرست میں جہاں یورپی شہر ویانا کا نام ہے، وہیں سب سے زیادہ ناقابلِ رہائش شہروں میں بنگلہ دیش کا شہر ڈھاکا اور پاکستان کا شہر کراچی شامل ہیں۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا نے دنیا کے سب سے زیادہ قابلِ رہائش شہروں کی فہرست میں آسٹریلیا کے شہر میلبورن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ پہلی بار یورپ کے کسی شہر نے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے سالانہ عالمی سروے میں یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ اس سروے میں مختلف اور وسیع عوامل کے تحت دنیا کے 140 شہروں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان عوامل میں سیاسی اور سماجی استحکام، جرائم، تعلیم اور طبی سہولیات کی فراہمی جیسے عوامل شامل ہیں۔ اس سروے میں مانچسٹر شہر میں سب سے زیادہ ترقی دیکھی گئی ہے اور وہ 16 درجے کی چھلانگ لگا کر گزشتہ سال کے مقابلے میں اب 35 ویں پوزیشن پر ہے۔ خیال رہے کہ دو دہائی قبل یہ سروے شروع ہوا تھا جس کے بعد سے یہ ہر سال کیا جانے لگا۔ مانچسٹر کی درجہ بندی میں ترقی کا سہرا وہاں کی سیکورٹی میں بہتری کے سر ہے۔گزشتہ سال جب مانچسٹر ارینا میں حملے کی وجہ سے شہر کی درجہ بندی کم کردی گئی تھی تو اس سروے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ آسٹریلیا کے دوسرے دو شہر سڈنی اور ایڈیلیڈ بھی دس بہترین قابلِ رہائش شہروں میں شامل ہیں۔ کینیڈا کے تین شہر بھی بہترین دس شہروں میں شامل ہیں، جبکہ جاپان کے دو شہر اوساکا اور ٹوکیو بھی دس بہترین قابلِ رہائش شہروں میں شامل ہیں۔ اس سروے کا دوسرا رخ سب سے ناقابلِ رہائش شہر ہیں جن میں شام کا دارالحکومت دمشق سرفہرست کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ قابلِ رہائش کی فہرست میں آخری نام ہے۔

ترکی امریکہ کی الیکٹرانک مصنوعات کا بائیکاٹ کرے گا: طیب ایردوان

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے امریکہ کی الیکٹرانک مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ انھوں نے یہ فیصلہ امریکہ کی جانب سے ترکی کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے نفاذ اور اس کی اسٹیل اور ایلومینیم کی مصنوعات پر ٹیرف میں اضافے کے ردعمل میں کیا ہے۔ صدر ایردوان نے ایک نشری تقریر میں کہا کہ ترکی اپنی معیشت سے متعلق ضروری اقدامات کررہا ہے۔امریکہ سے تنازعے میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایک مضبوط سیاسی مؤقف اختیار کیا جائے۔ انھوں نے کہا: ’’اگر امریکہ کا آئی فون ہے تو دوسری جانب سام سنگ بھی ہے‘‘۔ وہ امریکی کمپنی ایپل کے ساختہ آئی فون اور جنوبی کوریا کے برانڈ اسمارٹ فون کا حوالہ دے رہے تھے۔ ترک صدر نے کہا:’’ہمارے پاس ہمارا اپنا وینس اور ویسٹل ہے‘‘۔ انھوں نے تقریر میں ترکی کے اپنے ساختہ الیکٹرانک برانڈز کا بھی ذکر کیا۔ ترکی اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات ایک عیسائی پادری اینڈریو برونسن کو دہشت گردی کے الزامات میں زیر حراست رکھنے پر شدید بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ امریکہ نے اس پر ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کردی ہیں۔ صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ ’’ترکی کو ایک ’’معاشی حملے‘‘ اور ایک بڑے اور گہرے آپریشن کا سامنا ہے، لیکن وہ اس کے باوجود امریکہ کو کوئی رعایتیں دینے کو تیار نہیں ہے‘‘۔ انھوں نے امریکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’انھوں نے معیشت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اور کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟‘‘

چین: مسلمانوں کی گرفتاری

چین نے سنکیانگ صوبے میں اویغور مسلمان کمیونٹی کو حراست میں لینے کی خبروں کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اویغور کمیونٹی کو مساوی شہری حقوق حاصل ہیں۔
حکام نے تسلیم کیا ہے کہ اویغور مسلمانوں کو تمام حقوق حاصل ہیں لیکن مذہبی انتہاپسندی کے شکار افراد کی آبادکاری اور ان کی دوبارہ تعلیم و تربیت کے ذریعے مدد کی جائے گی۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں خطے کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ صورت حال عسکری نظربندی کے کیمپوں سے مماثلت رکھتی ہے۔ گزشتہ برس چین کے سنکیانگ صوبے سے متعلق رپورٹس کے مطابق وہاں اقلیت مسلم کمیونٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ قرآن اور نماز میں استعمال ہونے والی دیگر اشیا کو جمع کرائے۔ تاہم اُس وقت بھی چینی حکومت نے کہا تھا کہ یہ محض افواہیں ہیں اور سنکیانگ میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اویغور مسلمانوں کو بھی عام شہریوں کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
اس سے قبل اپریل کے آغاز میں سنکیانگ میں حکومت نے اسلامی شدت پسندوں کے خلاف مہم کے تحت اویغور مسلمانوں پر نئی پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان پابندیوں میں غیر معمولی لمبی داڑھی، عوامی جگہوں پر نقاب پہننے اور سرکاری ٹی وی چینلز دیکھنے پر ممانعت شامل تھی۔ چین نے گزشتہ دو دن کے دوران اقوام متحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق کمیٹی کے اجلاسوں میں 50 افراد پر مشتمل وفد بھجوایا۔ ادھر چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے اس خطے میں سخت پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس علاقے کو ’چین کا لیبیا‘ یا ’چین کا شام‘ بنانے سے بچا رہے ہیں۔ اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’سنکیانگ میں سیکورٹی اس لیے ہے تاکہ حادثات سے بچا جائے اور لاتعداد افراد کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جائے‘‘۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور کمیونٹی آباد ہے جس کا شمار ملک کی مسلمان اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ صوبے میں ان کی آبادی 45 فیصد ہے۔ سرکاری طور پر سنکیانگ کا شمار تبت کی طرح خودمختار علاقے کے طور پر ہوتا ہے۔گزشتہ چند مہینوں سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ سنکیانگ میں مسلمان اویغور کمیونٹی کو حراست میں رکھا جارہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنٹسی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں نے اقوام متحدہ میں ایک رپورٹ جمع کروائی ہے جس کے مطابق حراست میں قید افراد سے زبردستی چین کے صدر شی جن پنگ سے وفاداری کا حلف لیا جارہا ہے۔(بی بی سی)

خود کو سپرمین سمجھنا چھوڑ دیں

ایک بار ایک بحث کے دوران میں نے عرض کیا کہ میں انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا۔ سامنے بیٹھے ہوئے اس ملک کے ایک بہت بڑے فلسفی نے کہا: کیا کہہ رہے ہو، یہ تو ایک آفاقی سچائی ہے، تم کس چیز کو مانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں حقوق العباد کا قائل ہوں۔ یہ نزاع لفظی نہیں۔ وہ فلسفی فوراً سمجھ گئے۔ حقوق العباد کے تصور میں خدا کا تصور درمیان میں آتا ہے۔ انسانی حقوق کے تصور کی الگ تاریخ ہے، جو خدا کومائنس کرنے کے بعد بنی ہے۔ اس طرح جب انسانِ کامل کے تصور کو آج کے سپرمین کے تصور سے ملا کر سمجھنے کی کوشش کی گئی تو ہمارے بزرگوں نے فوراً پکڑ کی اور کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دونوں تصورات کو نہیں سمجھتے ہو۔ اقبال جب مردِ مومن کی بات کرتا ہے تو اس کا نطشے کے سپرمین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ خود کو سپرمین سمجھنا چھوڑ دیں، یہ بھی بھول جائیں کہ خلقِ خدا ان کے حکم پر مرتی ہے۔ اس کو بھی نظرانداز کردیں کہ جو آپ کے ساتھ نہیں ہے آپ سے اختلاف کرتا ہے، یا اس نے آپ کو ووٹ نہیں دیا تو وہ غلطی پر ہے۔ اس ملک کو چلانا ہے تو لیڈرشپ کو ان تمام تصورات سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ یہ میرے بس میں نہیں کہ میں اپنے لیڈروں کو اس معاملے سے نکال سکوں۔ شاید کسی انسان کے بس میں نہیں۔ مگر انسانوں کے اُس گروہ کے بس میں ہے جسے ملت کہتے ہیں، یا قوم کہتے ہیں کہ وہ اپنے قائدین پر نظر رکھے کہ ان میں کوئی تگڑم خاں تو نہیں بن رہا! مجھے یہاں اس جہاندیدہ انگریز برناڈشا کا ایک قول یاد آتا ہے جو اس نے دنیا کے بگڑے ہوئے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔کہنے لگا کہ حالات کا سدھرنا مشکل ہے، صرف ایک طریقہ ہے کہ محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) تشریف لائیں اور انہیں معاملات سلجھانے کے لیے کلی اختیارات دے دیے جائیں۔ خلاصہ اپنی گفتگو کا دوبارہ عرض کیے دیتا ہوں کہ ہمارے لیڈر صرف ایک بات پر عمل کریں کہ خود کو سپرمین سمجھنا چھوڑ دیں۔ اکڑفوں ویسے بھی اچھی نہیں ہوتی۔ اللہ توفیق دے تو اسوۂ رسولؐ سے رہنمائی حاصل کریں۔ پاکستان کے سلگتے مسائل کا اِس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔
(سجاد میر۔ روزنامہ 92، 9اگست 2018ء)

پاک بحریہ… روس، چین اور بھارت

پاک بحریہ 71برس سے بہت نظرانداز ہوتی رہی، اگرچہ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ جو بھی ملک سمندر پر حکمرانی کرے گا وہی دنیا پر حکمرانی یا اہمیت حاصل کرلے گا۔ چنانچہ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس کی مثال سامنے ہے۔ اب چین جس تیزی سے نیلگوں بحریہ کے حصول میں جتا ہوا ہے وہ جلد یہ مقام حاصل کرلے گا کہ وہ اپنے بحری راستوں اور اپنے تجارتی جہازوں کو دنیا بھر میں محفوظ بنا لے، چاہے وہ زمانۂ امن ہو یا زمانۂ جنگ۔ پاکستان کی بحریہ پہلے سے ہی اپنے وسائل کے اعتبار سے ایک مضبوط اور منظم بحریہ ہے، اس نے زمانۂ امن میں خلیج عدن سے کراچی، اور اس سے ذرا آگے نیلگوں بحریہ کی حیثیت حاصل کررکھی تھی۔ چنانچہ پاکستان 13۔14 دسمبر 2016ء کو گوادر بندرگاہ پر ایک خصوصی ٹاسک فورس 88 کا قیام عمل میں لایا، جو ہر طرح کے جدید ہتھیاروں سے مسلح اور ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مستعد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے گشتی کشتیوں کی ایک کھیپ تیار کرلی، 9 اگست 2018ء کو ایک اور کشتی سمندر میں لانچ ہوئی، اس سے پہلے بھی کئی کشتیوں کو سمندر میں اتارنے کی تقریب ہم خود دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان یہ پیٹرولنگ کشتیاں چین کی مدد سے بنا رہا ہے، سامانِ حرب یا پیٹرول یا شفاخانہ کی سہولت سے آراستہ ایک جہاز مددگار ملک ترکی کی مدد سے سمندر میں اتار چکا ہے، وہ چین و ترکی کے علاوہ بلغاریہ اور ہالینڈ کی مدد سے کئی کشتیاں حاصل کررہا ہے۔ اسی طرح پاکستان چین کی مدد سے آٹھ آبدوزیں بھی تیار کررہا ہے، چار آبدوزیں چین میں اور چار پاکستان میں تیار ہورہی ہیں، تاہم یہ کافی نہیں ہیں، ہمیں مزید جدید ہتھیاروں اور جہازوں کی ضرورت ہوگی۔ ہمارا جہاز اتصلات روس کے خیرسگالی کے دورے پر گیا جس سے پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کا اظہار ہوا۔ بھارت کا طیارہ بردار جہاز روسی ساختہ ہے اور اُس کو چلانے میں احتیاط سے کام نہ لینے کی وجہ سے وہ مرمت کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ ہمیں طیارہ بردار جہاز کی یقینا ضرورت ہوگی مگر ہم وہ کس سے حاصل کریں گے یہ ابھی معلوم نہیں۔
(نصرت مرزا۔جنگ،13اگست2018ء)

ایک خانہ خراب شہر کی یاد

آپ کی خدمت میں وہ پیغام پیش کرتا ہوں، مجھ جیسے عمر رسیدہ لوگوں کے لیے یہ ایک سنہرا خواب ہے:
’’ایک خانہ خراب شہر کی یاد میں، جب یہ شہر قاری ظاہر قاسمی کی تلاوت پر جاگتا تھا اور بندو خان کی سارنگی سن کر سوتا تھا۔ جب رشید ترابی، احتشام الحق تھانوی اور شفیع اوکاڑوی خطابت کے جوہر دکھاتے تھے اور مفتی محمد شفیع اور بابا ذہین شاہ تاجی علم کے گوہر رولتے تھے۔ جب شاہد احمد دہلوی موسیقی کے سبق یاد کرواتے تھے اور استاد جھنڈے خان کے قصے سناتے تھے۔ جب مولوی عبدالحق مشفق خواجہ کو تحقیق کے گر سکھاتے تھے، اور جمیل جالبی اور ابوالخیر کشفی تنقید کے نئے نئے دبستانوں سے روشناس کرواتے تھے۔ جب کرار حسین، سید سبط حسن اور حسن عسکری علم کے دریا بہاتے تھے، اور سلیم احمد اور قمر جمیل نئی شمعیں جلاتے تھے۔ جب سیماب اکبرآبادی وحی منظوم لکھتے تھے، اور آرزو لکھنوی سریلی بانسری بجاتے تھے۔ جب جوش ملیح آبادی یادوں کی برات سناتے تھے، اور قصر جلالوی شاگردوں کی منڈلیاں سجاتے تھے۔ جب ابن صفی عمران اور فریدی کی داستان سناتے تھے، اور شکیل عادل زادہ استاد بٹھل اور بابر زماں خان کے قصے رولتے تھے۔ جب ملاّ واحدی دِلّی کی بھولی بسری کہانیاں سناتے تھے اور بہزاد لکھنوی، لکھنؤ کے حکیم بڈھن سے ملواتے تھے۔ جب ابراہیم جلیس، ابن انشا اور مشتاق احمد یوسفی گدگداتے تھے اور ظریف جبل پوری، سید محمد جعفری اور دلاور فگار پھلجھڑیاں چلاتے تھے۔ جب خواجہ معین الدین اور احمد علی اسٹیج پر مسکراہٹ بکھیرتے تھے، اور حسینہ معین اور کمال احمد رضوی چھوٹی اسکرین پر۔ جب حکیم مولانا مولوی مرزا ماہر بیگ ماہر جا بجا ’ہر مسافر پر ہے لازم صبر کرنا چاہیے‘ کا مصرع لکھتے پھرتے تھے اور سلطنتِ مغلیہ کے چشم و چراغ اور وارثِ اصلی استاد محبوب نرالے عالم شہر کی سڑکوں پر چنا جور گرم کی صدائیں لگاتے تھے۔ جب فضل احمد کشمیر والا نہرو کی یتیم بیٹی کو سمجھانے کے لیے خطوط لکھتے تھے اور علامہ مشرقی کے فرزند شہر کی دیواریں سیاہ کرکے شفاف تحریک چلاتے تھے۔ جب ماہرالقادری اور ادیب رائے پوری آمنہ کے لال کی مداح سرائی کرتے تھے، اور آل رضا اور نسیم امروہوی محمدؐ کے نواسے کے مرثیے سناتے تھے۔ جب وحید ظفر قاسمی اور خورشید احمد نعتوں کی نوا سنجی کرتے تھے اور کجن بیگم سوز و سلام، اور سچے بھائی نوحے پڑھتے تھے۔ جب غلام فرید صابری عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر ’بھردو جھولی مری یا محمدؐ‘ کا نذرانہ پیش کرتے تھے اور اُن کے بعد اُن کا بیٹا امجد، علیؓ کے ساتھ زہراؓ کی شادی کی روایت سناتا تھا۔ جب شوکت صدیقی خدا کی بستی آباد کرتے تھے اور قرۃ العین حیدر ہائوسنگ سوسائٹی کی بنیادیں رکھتی تھیں۔ جب ہاجرہ مسرور اور فردوس حیدر کہانیاں سناتی تھیں اور زہرا نگاہ اور پروین شاکر اپنی غزلوں سے شاعری کو مالامال کرتی تھیں۔ جب سراج الدین ظفر اور عزیز حامد مدنی غزل کو نیا لہجہ عطا کرتے تھے، اور رسا چغتائی اور جون ایلیا غزل کے پرانے مضامین کو تازگی عطا کرتے تھے۔ جب محسن بھوپالی نظمانے اور حمایت علی شاعر ثلاثی ایجاد کرتے تھے اور احمد ہمیش، قمر جمیل اور افتخار جالب نثری نظم کی تحریک چلاتے تھے۔ جب تابش دہلوی اور محشر بدایونی دن کو رات بناتے تھے اور عبیداللہ علیم اور جمال احسانی راتوں کو دن میں بدلتے تھے۔ جب رئیس امروہوی روز ایک تازہ قطعہ لکھ کر عوام اور اربابِ حکومت کو آئینہ دکھاتے تھے اور شوکت تھانوی اور مجید لاہوری طنز و مزاح کے تیر برساتے تھے۔ جب جمیل الدین عالی جیوے جیوے پاکستان اور دوہے سناتے تھے اور صہبا اختر ’میں بھی پاکستان ہوں، تُو بھی پاکستان ہے‘ اور نظموں سے مشاعروں کو گرماتے تھے۔ ‘‘
(ڈاکٹر قدیر خان۔ جنگ، 13اگست2018ء)