پیشکش: ابوسعدی
۔1933ء میں لیاقت علی خان لندن گئے اور قائداعظم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی قیادت سنبھال لیں۔ 1934ء میں قائداعظم ہندوستان واپس آئے اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی کا کام شروع کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی۔ جب وہ مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اُس وقت پورے ہندوستان میں مسلم لیگ کے ارکان کی کُل تعداد تیرہ سو تیس تھی۔ ابتدا میں مسلمانوں نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ پشاور میں مجھے مسلم لیگ کے ایک کارکن نے بتایا کہ جب 1936ء میں جناح پشاور پہنچے تو اسٹیشن پر اُن کے استقبال کے لیے آنے والوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہیں تھی۔ اسی طرح پنڈی میں میاں حیات بخش نے ایک جلسے کا اہتمام کیا جس سے جناح خطاب کرنے والے تھے۔ انہوں نے ایک سو افراد کو مدعو کیا لیکن صرف 36 افراد نے شرکت کی۔ اس کے باوجود قائد نے مستقل مزاجی سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کا کام جاری رکھا اور ایک وقت وہ آیا جب ان کے جلسوں میں لاکھوں کا مجمع ہونے لگا۔ جلسہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی۔ جب قائداعظم کسی جلسے سے خطاب کرتے تو لوگ دور دراز علاقوں سے پیدل چل کر آتے اور گھنٹوں اُن کی آمدکا انتظار کرتے۔
قائد نے جن مشکلات کا سامنا کیا، جن نامساعد حالات سے گزرے اور جن مخالف قوتوں کا مقابلہ کیا، ہماری نئی نسل ان کا اندازہ آسانی سے نہیں لگا سکتی۔ ایک طرف حکومتِ برطانیہ کی خواہش تھی کہ وہ اقتدار متحدہ ہندوستان کو منتقل کرے، دوسری طرف گاندھی جی اور ان کی ہندوکانگریس کا یہ عزم تھا کہ بھارت ماتا کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے۔ کانگریس کے پاس گاندھی جی کی سی سحرانگیز شخصیت کے علاوہ درجنوں قدآور شخصیتیں تھیں جن میں پنڈت جواہرلال نہرو، سردار پٹیل، راج گوپال اچاریہ، بھولا بھائی ڈیسائی، اچاریہ کرپلانی وغیرہ شامل تھے۔ کانگریس ہندوستان کی سب سے بڑی اور منظم جماعت تھی، اس کے پاس ہندو بنیوں کی بے پناہ دولت تھی، پچاس سال کا تجربہ تھا، ہزاروں تجربہ کار کارکن تھے جنہوں نے آزادی کی تحریکوں میں حصہ لیا تھا، جیل گئے تھے اور تکلیفیں اٹھائی تھیں، اور بہت طاقتور پریس تھا۔ کانگریس کے علاوہ ہندوئوں کی دوسری جماعتیں مہا سبھا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور سکھوں کی جماعت اکالی دل بھی پاکستان کی مخالفت میں سرگرم عمل تھی۔
لیکن قائداعظم نے بڑی مستقل مزاجی سے اپنا کام جاری رکھا، ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دورہ کیا اور مسلمانوں کو بتایا کہ آئندہ رونما ہونے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کا متحد اور منظم ہونا بہت ضروری ہے۔ قائداعظم نے برصغیر کی سیاست، گاندھی، کانگریس اور انگریزوں کے مسلمانوں کے خلاف گٹھ جوڑ اور آئندہ رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ پیش کیا اور انہیں بتایا ؎
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندی مسلمانو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
[’’بن کے رہا پاکستان‘‘ از سید صلاح الدین اسلم]
ایمان دار بادشاہ اور کرپٹ عوامی لوٹوں کی حکایت
روایت ہے کہ ایک ملک میں کرپشن سے قوم اس حد تک تنگ آ گئی کہ ادھر انقلاب آ گیا۔ بڑے بڑے کرپٹ افراد کی گردنیں اتار دی گئیں اور ایک نہایت ہی ایماندار اور الو العزم شخص کو بادشاہ بنا کر تخت پر بٹھا دیا گیا۔نئے بادشاہ نے فوری طور پر اصلاحات شروع کر دیں۔ اس کے امیر وزیر بھی مشورے دینے میں پیش پیش تھے۔ کچھ درباریوں کا خیال تھا کہ بادشاہ کو ایماندار پا کر سب خود بخود ہی ٹھیک ہو جائیں گے اور کرپشن سے توبہ کریں گے۔ کچھ کا خیال تھا کہ پردیسی بھی اس کرپشن فری اور میرٹ پرور ماحول کو دیکھ کر اپنی مال دولت لے کر ادھر آ جائیں گے۔ ہر طرف فرط و انبساط کا سماں تھا اور ہر شخص اس سرور میں تھا کہ بس اب ہمارا ملک نمبر ون بننے والا ہے۔اچانک بادشاہ کی نظر دور کونے میں بیٹھے ایک بزرگ پر پڑی جو اداس سی شکل نکالے سب کو مایوس نگاہوں سے تک رہا تھا۔ بادشاہ نے فوراً ان بابا جی سے پوچھا کہ اے بزرگ، کیا آپ کو یقین نہیں ہے کہ ایک ایماندار بادشاہ کے تخت پر بیٹھتے ہی سب کرپٹ لوگ بھی خدا خوفی کرنے لگیں گے اور کرپشن کو خیر باد کہیں گے؟بزرگ نے جان کی امان پائی اور عرض کیا ’’بادشاہ سلامت، مجھے آپ پر تو اعتبار ہے مگر میں جن عوام میں اپنی عمر گزار چکا ہوں، ان پر بھی اعتبار ہے۔ وہ ویسے ہی رہیں گے جیسے ہیں‘‘۔بادشاہ کو یقین نہ آیا۔ بزرگ نے کہا کہ ایسا کریں کہ حکم جاری کریں کہ شاہی محل کا تالاب خالی کیا جائے اور آج رات ہر شہری ایک ایک لوٹا دودھ کا اس میں ڈال جائے تاکہ صبح اس کی کھیر بنا کر انقلاب کی خوشی میں شہر بھر کا منہ میٹھا کیا جائے۔بادشاہ کو اس کی حکمت تو سمجھ تو نہیں آئی بہرحال بزرگ کا دل رکھنے کو شاہی فرمان جاری کر دیا گیا۔ رات ڈھلتے ہی قصر شاہی کے سامنے عوام کی طویل قطاریں لگ گئیں جو محل کے پائیں باغ میں داخل ہوتے اور اپنا اپنا لوٹا تالاب میں انڈیل کر دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے۔ گھپ اندھیرے کے باوجود عوام کا ایسا جوش و خروش دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا مگر وہ بزرگ بدستور اداس بیٹھے رہے۔صبح سویرے بادشاہ اپنے نائیوں اور ان بزرگ کو لے کر تالاب کی سمت چلا تاکہ وہیں دیگیں چڑھا کر کھیر پکائی جائے۔ تالاب پر پہنچ کر بادشاہ نے لہروں میں اپنا عکس دیکھا اور حیران ہو کر بولا ’’یہ دودھ اتنا صاف شفاف کیوں ہے؟ ‘‘اداس صورت بزرگ نے جواب دیا ’’بادشاہ سلامت، آپ نے تالاب بھرنے کو جتنے لوٹے طلب کیے تھے وہ سب آپ کو پرجا نے دے دیے۔ مگر ہر ایک نے یہی سوچا کہ باقی سب دودھ ڈال رہے ہیں تو ایک میرے پانی ڈالنے سے کسی کو کیا پتہ چلے گا؟ یوں ہر ایک نے ایمانداری کو دوسروں پر چھوڑتے ہوئے خود تھوڑی سی کرپشن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک شخص نے بھی دودھ کا لوٹا نہیں ڈالا۔ آپ پہلے لوگوں کو ایماندار کرنے کی طرف توجہ دیں، ورنہ آپ کو جو لوٹے نصیب ہوں گے ان میں دودھ نہیں پانی ہی ملے گا‘‘۔بادشاہ ان اداس صورت بزرگ کی حکمت سے بہت متاثر ہوا۔ فوراً نائیوں کو حکم دیا کہ ان بزرگ کو تالاب میں دھکا دے دو ورنہ یہ قوم کا مورال ڈاو?ن کر دیں گے، اور ڈھنڈورچیوں سے اعلان کروا دیا کہ دودھ جلنے کی وجہ سے کھیر نہیں پکی ہے اس لئے پڑوسی سلطنت کے حلوائی سے مٹھائی ادھار منگوا کر اسے ہی عوام میں تقسیم کیا جائے گا تاکہ انقلاب کا جشن منایا جا سکے۔
نتیجہ: ڈھاک کے تین پات، یعنی لوٹے کرپٹ ہوں تو ایماندار بادشاہ کا بس نہیں چل سکتا۔
تاریخ ساز لوگ
صدر سوئیکارنو (انڈونیشیا) نے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے کہا: ’’یہ تم کس چکر میں پھنس گئے ہو۔ اسٹیل ملِ، بھاری صنعتوں کے کارخانے! کارخانے لگانا صنعت کار کا کام ہے۔ نہروں کی کھدائی، بند بنانا انجینئر کا کام ہے۔ یہ کام ایک عام آدمی کرسکتا ہے۔ میرا اور تمہارا کام تعمیر ہے۔ فرد، معاشرے، قوم اور مستقبل کی تعمیر۔ ہمیں اُس آدمی کو جو کل تک بدیسی آقا کا بے زبان غلام تھا، ایک خوددار اور غیرت مند انسان بنانا ہے۔ ہم کارخانہ دار نہیں، تاریخ ساز لوگ ہیں۔‘‘
(’’لوحِ ایام‘‘ سے اقتباس…ازمختار مسعود)