جام غلام قادر سے جام کمال تک

بلوچستان میں وزارتِ اعلیٰ کا ہما جام کمال کے سر پر جاکر بیٹھ گیا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی مسلم لیگ ن اور ق کا نیا روپ ہے، صرف نام بدلا گیا باقی جو کچھ مسلم لیگ کی سوچ ہے اُس کی اِس پارٹی میں مکمل نمائندگی نظر آئے گی۔ جو موجودہ سیاسی نقشہ بنا ہے وہ چند ماہ پیشتر نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ بی اے پی کے تمام لیڈر ایک ہی راگ الاپ رہے تھے کہ اب فیصلے بلوچستان میں ہوں گے۔ لیکن پہلے ہی جھٹکے میں اندازہ ہوگیا کہ فیصلے وہیں ہوں گے جہاں پہلے ہوتے تھے۔ ایک پارٹی جو صرف بلوچستان کے مخصوص حصے میں مینڈیٹ حاصل کررہی ہے وہ بہت محدود مینڈیٹ ہے، اس کے بل بوتے پر اتنا بڑا دعویٰ ایک غیر سیاسی روش تھی۔ شاید سرفراز بگٹی اس کی وجۂ تخلیق تھے۔ اُن سے اہلِ بلوچستان کی جان چھوٹ گئی۔ اگر اُن کی پشت پر سابق کور کمانڈر جنرل جنجوعہ کا دستِ شفقت نہ ہوتا تو وہ 2013ء میں ہی آئوٹ ہوجاتے۔ لیکن اُن کی پشت پناہی سرفراز بگٹی کی شوخی میں اضافہ کرتی رہی۔ وہ صوبائی وزیر داخلہ تھے اور نگران حکومت میں وزیراعلیٰ پر حاوی تھے۔ اب دستِ شفقت سے محروم ہونے کے بعد اپنے حقیقی مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ نواب کا پوتا اپنی حقیقی نشست پر پہنچ گیا اور دادا نواب بگٹی کا سیاسی جانشین بن گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سازشوں اور پسِ پردہ کھیل کے ذریعے قبائلی نظام کو توڑنے کی سازشوں سے باز رہے تو بہتر ہے۔ جمہوری نظام کا تسلسل اس قبائلی اور جاگیرداری نظام کے تابوت میں کیل خود ٹھونک دے گا۔ سازشوں کے ذریعے یہ کھیل نہیں کھیلنا چاہیے۔ اب بھی جمہوری عمل نے ہی وار لارڈز کے اَن داتائوں کے اس فرسودہ نظام میں ارتعاش پیدا کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے نمائندوں نے اس انتخاب میں نوابوں، خانوں اور سرداروں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ عوامی شعور پیدا ہوا ہے، بڑے بڑے بگ باس گرے ہیں، آئندہ اور گریں گے۔ اگر فوجی جنرل صاحبان وقفے وقفے سے جمہوری نظام کو تلپٹ نہ کرتے تو پاکستان ایک بہترین جمہوری ملک کے روپ میں نظر آتا۔ ان اقتدار پرست جرنیلوں نے پینتیس سال عظیم مملکت کے ضائع کیے اور مالی اور سیاسی کرپشن کی داغ بیل ڈالی اور جمہوریت کو قتل کیا۔ ان فوجی حکمرانوں کی وجہ سے ایک عظیم سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ کاش سپریم کورٹ اس مقدمہ کو لیتی کہ کس طرح یہ عظیم ملک ان سازشوں کا شکار ہوا اور کون ذمہ دار تھا؟ مگر اس حقیقی جرم پر سب خاموش رہے۔ کم از کم پاکستان کی پارلیمنٹ کو اس پر بحث کرنی چاہیے تھی۔ مگر 1970ء کے انتخابات کا ہیرو تاریخ کے بھیانک جرم کا ارتکاب کربیٹھا اور سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گیا۔ بھٹو ایک سیاسی لیڈر تھے اور یہ حرکت انہوں نے کی۔ فوج شکست خوردہ تھی اس لیے اس حماقت کو برداشت کرلیا۔ بھٹو کا یہ اقدام تاریخ کا ایک بھونڈا مذاق تھا۔ خود سیاست دانوں نے سیاست کی مٹی پلید کی ہے، اس جرم میں سیاسی پارٹیاں شریک رہی ہیں اور ہوسِ اقتدار نے ان سیاسی پارٹیوں کو جرنیلوں کے قدموں میں سجدہ ریز کیا ہے۔
بلوچستان میں پشتون خوا اور نیشنل پارٹی نے اپنے پورے دورِ اقتدار میں ایک ہی راگ الاپا کہ ہم دونوں ایک ہی پچ پر ہیں۔ کیا یہ تاریخ میں شرمندہ نہیں رہیں گے! اور اس پچ کا انجام بھی انہوں نے بڑی جلدی دیکھ لیا، بلوچستان کے سیاسی میدان سے ان کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا ہے۔ جس پارٹی نے بھی شکست کھائی ہے وہ شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ شکست تسلیم کرلینی چاہیے، اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے اور نئی صف بندی کی طرف جانا چاہیے۔ شکست کا راگ زیادہ دیر تک نہیں الاپنا چاہیے۔ اب جو نتیجہ بلوچستان میں نظر آیا ہے وہ متوقع تھا، اس میں حیرانی کی کون سی بات یا پہلو ہے! لیکن بی اے پی (باپ) کو جھٹکے زبردست لگے ہیں، ایک تو اس کا گاڈ فادر(سعیدہاشمی) ہار گیا اور دوسرا گاڈ فادر (جنرل سیکریٹری) منظور کاکڑ میدان میں رہ گیا۔ منظور کاکڑ کے ووٹ بہت کم تھے۔ اسی طرح ژوب سے جعفر خان مندوخیل ہار گئے، انہیں اپنی شکست کا یقین ہی نہیں آرہا ہے۔ پہلے کہا کہ مجھے اس لیے شکست سے دوچار کیا گیا کہ میں ’باپ‘ میں کیوں شامل نہیں ہوا۔ پھر بعد میں اس بیان کو بدل دیا اور کہا کہ نظریۂ پاکستان سے محبت کی وجہ سے شکست دی گئی۔ کیا جعفر خان مندوخیل ہی نے پاکستان سے محبت کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے؟ اور جس نے شکست دی کیا وہ محب وطن نہیں ہے اور اسے نظریۂ پاکستان سے محبت نہیں ہے؟ اس بیان سے تسلی نہیں ہوئی تو ایک اور بیان داغ دیا کہ میں نے پنجاب میں پشتونوں کی حمایت کی اس لیے مجھے ہرا دیا گیا۔ اب معلوم نہیں اگلا بیان کس طرح کا آئے گا اور کب آئے گا۔ جعفر خان مندوخیل جنرل پرویزمشرف کی تخلیق کردہ پارٹی میں تھے۔ بڑے مارجن سے ہارے ہیں۔ ایک آزاد امیدوار نے ان کا اس طرح دھڑن تختہ کیا ہے کہ حواس باختہ ہوگئے ہیں۔
بلوچستان کی سیاسی انگڑائی نے دلچسپ مناظر عوام کے سامنے لاکر رکھ دیئے ہیں۔ سیاست کے زلزلے نے ایک ہیجان پیدا کردیا ہے اور ذہن میں بے شمار سوالات کا ہجوم امنڈ آیا ہے۔ ایک سرا پکڑتا ہوں تو دوسرا خیال آجاتا ہے، اس لیے بات سے بات نکلتی چلی جارہی ہے۔ بات چلی تھی جام کمال کے اس اعلیٰ منصب پر آنے سے، اور نکل گئی کسی اور طرف۔ اب دوبارہ لوٹتے ہیں تاکہ کالم اپنی اصل کی طرف ہی رہے۔ اس سیاسی کشمکش میں اختر مینگل نے اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالا ہے۔ جام کمال کو بھی منزل اسلام آباد ہی سے ملی اور سردار اختر مینگل کو بھی اسلام آباد ہی سے امیدیں وابستہ ہیں۔ اب اس سفر میں جمعیت علمائے اسلام ان کی ہم سفر ہے اور اس خیال سے محوِ سفر ہے کہ سردار اخترمینگل کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز کریں تو ان کو وزارتیں مل سکتی ہیں۔ ’باپ‘ کی پریس کانفرنس سے علم ہوا ہے کہ سردار اخترمینگل نے عمران خان کی پارٹی کے سامنے یہ فارمولا رکھا ہے کہ ڈھائی سال بی این پی کو اور باقی ڈھائی سال ’باپ‘ کو دیئے جائیں۔ اس منصوبے کو ’باپ‘ نے قبول نہیں کیا اور پارٹی نے وزیراعلیٰ کے لیے جام کمال کو، اور اسپیکر کے لیے عبدالقدوس بزنجو کو نامزد کردیا۔ یوں سردار اخترمینگل اور غفور حیدری کا فارمولا دھرا کا دھرا رہ گیا۔ سردار رند کی بھی خواہش تھی کہ جام صاحب وزیراعلیٰ نہ بنیں، مگر چونکہ اکثریت ’باپ‘ کو حاصل ہے اور جمہوری نظام میں اکثریتی پارٹی کا حق ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اس کا بنے۔ اب دوسرا کون سا آپشن ہے جو بی این پی کے ذہن میں ہے؟ ان کے لیے سب سے بہتر یہ تھا کہ بلوچستان میں جام کمال کا ساتھ دیتے اور حکومت میں شامل ہوجاتے اور پانچ سال اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کرتے۔ اگر وہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ سیاسی قسمت وابستہ کریں گے تو منزل دور نظر آئے گی۔ اب تو اقتدار جام کمال کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ جام کمال اور ان کی پارٹی کو ایک بات ذہن میں ہمیشہ تازہ رکھنا چاہیے کہ فیصلے اسلام آباد میں ہی ہوں گے۔ ’باپ‘ کا حقیقی باپ تو اسلام آباد ہی میں بیٹھا ہوا ہے۔ ’باپ‘ کے گاڈ فادر سعید ہاشمی کو ہارنا نہیں چاہیے تھا۔ ان کا سیاست کا طویل تجربہ ہے۔ اب وہ سینیٹ میں نظر آسکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ کسی کی نظر نہ لگے۔ اقتدار کا ہما جام کمال کے سر پر آکر بیٹھ گیا ہے تو اسے تسلیم کرلینا چاہیے۔ اب حزب اختلاف میں بیٹھنے کا مطلب صرف خشکا پر گزارنا کرنا ہوگا۔ سردار اختر مینگل کے لیے مزید پانچ سال اقتدار سے محروم رہنا پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے، اب عوام حزبِ اختلاف کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے، وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں، اور جو مسائل حل نہیں کرے گا اُسے نیشنل پارٹی کا انجام سامنے رکھنا ہوگا۔ نئے وزیراعلیٰ سے عوام کو جو توقعات وابستہ ہیں امید ہے کہ وہ ان پر پورا اتریں گے۔ ان کا خاندان ایک ریاست کا والی تھا، ان کے بارے میں عوام کی رائے مثبت ہے اور ان سے توقع ہے کہ وہ ایک کامیاب وزیراعلیٰ رہیں گے۔ ان کی ٹیم میں قابل لوگ ہیں اور وہ اسلام آباد سے محاذ آرائی نہیں کریں گے۔ انہیں 1972ء کا دور، اور اس کے انجام کو بھی نگاہوں میں رکھنا ہوگا۔ ان کے دادا جام غلام قادر 1973ء سے1975ء، اور دوسری بار 1983ء سے 1988ء تک وزیراعلیٰ رہے، اور اب اقتدار ان کے قریب آچکا ہے۔ جام خاندان کے وہ تیسرے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ ایک درخواست ڈاکٹر عبدالمالک سے کی تھی لیکن انہوں نے اسے نظرانداز کیا، اب یہ گزارش جام کمال سے بھی ہے کہ درباری صحافیوں سے دامن بچائیں جو ہر برسراقتدار پارٹی کو اپنا اسیر بنا لیتے اور شیشے میں اتار لیتے ہیں۔