شیخ محمد انور
آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور غلامی سب سے بڑی لعنت۔ 14 اگست ایک پیغام کا دن ہے۔ آج ہم من حیثیت القوم اپنی آزادی کا دن منا رہے ہیں، اسی تاریخی دن مسلمانانِ برصغیر نے اپنے بے مثل اتحاد و یک جہتی کے بل پر قائداعظم کی قیادت میں فرنگیوں، برہمنوں اور ہندوئوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ اس اعتبار سے یہ دن سیاسی و جماعتی اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے پورے اتحاد و یک جہتی سے منانے کی ضرورت ہے، اور ہم میں سے ہر فرد کو ایسا طرزِِعمل اپنانا چاہیے جو اس یادگار دن کی عظمت کے شایانِ شان ہو۔
پاکستان کا ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے قیام آج ہی کے دن عمل میں آیا تھا، اور برصغیر کے مسلمانوں نے اس انعامِ خداوندی پر اپنے رب سے یہ عہد کیا تھا کہ اس پاک سرزمین کو اللہ کے دین اسلام کا گہوارہ بنائیں گے۔ 14 اگست1947ء کو چونکہ مسلمانانِ برصغیر نے ایک بے مثال تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اپنے لیے پاکستان کی صورت میں آزادی اور اسلام کے سیاسی و معاشی عدل کا گہوارہ تخلیق کیا تھا، اس لیے آج کے دن ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے اور مستقبل میں نظریۂ پاکستان کے ساتھ ثابت قدم رہنے کا عہد کرنا چاہیے۔ ہمارے لیے خدا کے فضل سے مایوسی اور بے یقینی کی دلدل سے نکل کر خوداعتمادی اور خودشناسی کے نئے دور میں داخل ہونے کے مواقع پیدا ہوگئے ہیں اور عوام کو اس تبدیلیٔ حالات کا احساس بھی ہے، اسی لیے پچھلے چند برسوں سے ہمارے عوام اپنی آزادی کا دن غیر معمولی جوش و جذبے اور اتحاد و یک جہتی کے ساتھ منانے لگے ہیں۔ اس دن طورخم، گلگت، بلتستان سے لے کر کوہِ تافتان، چمن کے
بارڈر، کراچی کے ساحلِ سمندر اور واہگہ بارڈر تک ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔ پورے پاکستان میں یومِ آزادی بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے، اس روز ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ گلی کوچوں، بازاروں اور عمارات کو خوبصورت قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ اکثر مساجد میں ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لیے دُعائیں ہوتی ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں جلسے ہوتے ہیں جن میں پاکستان کے قیام پر روشنی ڈالی جاتی ہے، جبکہ بڑے شہروں میں فوجی پریڈ بھی ہوتی ہے۔ چند فیصد بگڑے ہوئے بچے ہنگامہ، ہائوہو مچانا جشنِ آزادی کی روح قرار دیتے ہیں۔ ملک میں ہر جگہ سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں اور اس دن ہر انسان اپنے گھر، دفاتر، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے، اور یوں یہ دن خوشیاں بکھیرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ آج کا یہ جشن 71 برس قبل 14 اگست 1947ء کے یادگار دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جب اسلامیانِِ ہند کو پاکستان کی صورت میں یہ نعمت عطا ہوئی تھی اور عین ستائیسویں رمضان کو ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی پہلی اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آئی تھی۔ 14 اگست 1947ء تحریکِ آزادی کا ایک سنگِ میل تھا جسے بدقسمتی سے ہم نشانِ منزل سمجھ بیٹھے، حالانکہ قائداعظم واضح الفاظ میں منزل کی نشاندہی کرچکے تھے کہ ہم ایسا ملک چاہتے ہیں جسے اسلام کی تجربہ گاہ بنا سکیں۔ اس روز بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی بدولت غلامی کی گھٹائیں اس خطے سے دور ہوئی تھیں۔ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور ایک الگ ملک کا تصور پیش کیا، لیکن اُن کے اس تصور کے خلاف ہندوئوں نے بہت سازشیں کیں، مذاق اُڑایا اور اسے دیوانے کا خواب کہا۔ ہندوئوں کا یہ خیال تھا کہ یہ صرف ایک شاعر ہے اور شاعروں کے خواب تو اُن کی زندگی کے ساتھ ہی دفن ہوجایا کرتے ہیں۔ مگر ہندوئوں کو اس بات کی بالکل خبر نہ
تھی کہ اس شاعر کے خواب کا مآخذ قرآن ہے جس کا ہرفیصلہ اٹل اور ناقابلِ تبدیل و تغیر ہے۔ برصغیر کے غیر مسلم اور فرنگی یہ بات نہیں جانتے تھے کہ اللہ ربُ العزت نے قائداعظم اور علامہ اقبال کو ایک خاص مقصد کے لیے چُنا ہے۔ علامہ اقبال صرف خالقِ پاکستان ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک سچے عاشقِ رسولؐ بھی تھے۔ اقبال کی شاعری صرف برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کا سبب ہی نہیں تھی، بلکہ اُن کی شاعری کو مشعلِ راہ بناکر بہت سے ملکوں میں آزادی کی تحریک چلی۔ پاکستان کا قیام کسی حادثے کے نتیجے میں وقوع پذیر نہیں ہوا تھا، بلکہ اس کے پیچھے پوری ایک صدی کی لازوال قربانیاں تھیں، جبکہ ہندوئوں نے ہماری ہزاروں مائوں، بہنوں کی عصمت دری کی، اُن کے اس ظلم و تشدد سے تنگ آکر بزرگوں نے اپنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو دریائوں اور کنوئوں میں پھینک دیا تھا اور ہندو بنیے نے ہمارے شیرخوار بچوں کو مائوں سے چھین کر سنگینوں میں پرو دیا تھا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں سکھوں کے گھروں میں بچے پیدا کررہی ہیں۔ پاکستان بنانے کے لیے جو قربانیاں ہمارے بزرگوں نے دی ہیں آج ہم اُن سے غافل ہوچکے ہیں۔ ایسی لازوال قربانیوں کی مثال دنیا کے کسی ملک سے نہیں ملتی۔ مگر دکھ کا مقام ہے کہ آج کا پاکستانی نوجوان آزادی کا مقصد بھول کر بے راہ روی کا شکار ہوچکا ہے۔
14 اگست1947ء کی تاریخ برصغیر پاک و ہند کے لیے ناقابلِ فراموش ہے۔ اس روز اسلامیانِ ہند نے ثابت کردیا کہ وہ کسی ایسی متحدہ قومیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں ان کا اسلامی تشخص دھندلا کر رہ جائے۔ برصغیر پاک و ہند میں رہنے والے مسلمانوں کا تجربہ باقی دنیا کے مسلمانوں کے تجربات سے قطعی مختلف ہے، اس لیے اسے سمجھنے میں باقی مسلمانوں کو دقت پیش آتی ہے۔ آزادی سے بڑی نعمت دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ ایک آزاد قوم ہونے کی حیثیت سے ہمارا سرفخر سے بلند ہونا چاہیے۔ آزادی کی قدروقیمت ہمیں اُن اقوام سے پوچھنی چاہیے جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک المناک نقشہ سامنے آتا ہے، کیونکہ پاکستان جن مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا آج وہ قوم کو پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔ آج ہم بائیس کروڑ ہونے کے باوجود دن بدن زندگی کے ہر میدان میں پستی کی طرف گامزن ہیں۔