نئی حکومت، کیا نظام بھی بدلے گا؟

کسی بھی سیاسی نظام میں اُس وقت تک بنیادی تبدیلی نہیں آسکتی جب تک اُس کے ڈھانچے کو تبدیل نہ کردیا جائے

عام انتخابات کے نتائج کے بعد تحریک انصاف قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے مرکز میں حکومت بنانے جارہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق) اور آزاد امیدوار مرکز میں اس کے ساتھ ہوں گے۔ انتخابات کے بعد جو قانونی اور آئینی تقاضے ہیں، انہیں پورا کرنے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا جس میں منتخب ارکانِ قومی اسمبلی حلف اٹھائیں گے، پھر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکا انتخاب ہوگا، وزیراعظم کا انتخاب اس کے بعد ہوگا۔ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے صف بندی کرلی ہے۔ اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں عمران خان کو وزیراعظم نامزد کیا گیا، اس اجلاس میں تحریک انصاف کے 100کے قریب نومنتخب ارکانِ قومی اسمبلی نے شرکت کی۔ پارلیمانی پارٹی کے پہلے اجلاس میں تحریک انصاف بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسے اُس روز کم از کم 172 ارکان تو اجلاس میں لانے چاہیے تھے۔ یہ صورتِ حال خطرے کی گھنٹی بھی ہوسکتی ہے اور اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ حکومت سازی کے لیے پہلا موقع تحریک انصاف کو لازمی دیا جائے گا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی حلیف جماعتوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی رنگ جمانا شروع کردیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے لیے شہبازشریف، اسپیکر شپ کے لیے خورشید شاہ، اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے ایم ایم اے کے امیدوار نامزد کیے گئے ہیں۔ اپوزیشن کو امید ہے کہ وہ اسپیکر کے انتخاب میں کوئی بڑا اَپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ سید خورشید شاہ اپنے ووٹ کے لیے بہت بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ اسپیکر شپ کے لیے مقابلہ بہت دلچسپ ہوسکتا ہے تاہم اپوزیشن کے لیے کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ لیکن اپوزیشن کمزور نہیں، یہ تمام جماعتیں مل کر اور جم کر رہیں تو قومی اسمبلی، سینیٹ، اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اپنی عددی برتری کے باعث اپنا صدارتی امیدوار جتوا بھی سکتی ہیں۔
تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد پہلا اور ایک بڑا تاثر یہ مل رہا ہے کہ عمران خان کی کامیابی پر لوگ بہت خوش ہیں، انہیں امید ہے کہ تحریک انصاف ضرور ایک مختلف حکومت ثابت ہوگی۔ لیکن یہ پہلے امتحان میں ناکام ہوئی کہ آزاد امیدوار، متحدہ قومی موومنٹ اور قاف لیگ جیسے بوجھ اس کی حکومت کا حصہ ہوں گے۔ اختر مینگل کے ساتھ بھی معاملات طے ہوگئے ہیں، اُن کے کچھ مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں جن میں بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اقدامات کرنے اور صوبائی حکومت کے لیے بی این پی سے مشاورت کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اختر مینگل کے بعد جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی سے بھی بات چیت جاری ہے۔ یہ تمام سیاسی فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی کامیابی کے نتیجے میں جس ’اسٹیٹس کو‘ کے ٹوٹنے کی بات کی جارہی تھی وہ اپنی جگہ قائم ہے، بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوطی سے نئی حکومت میں جم بھی گیا ہے۔ حکومت سازی کے ابتدائی مرحلے میں مخلوط حکومت کے سربراہ کے طور پر اب عمران خان تبدیلی اپنے ہاتھوں سے دفن کرکے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی قوتوں اور حکومتوں میں ایک نیا اضافہ ہی ثابت ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے حالیہ فیصلوں پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان تو تحریک انصاف کی اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں پہنچ گئے لیکن تبدیلی پیچھے رہ گئی ہے۔ اپوزیشن عمران خان کو یوٹرن کا طعنہ دیتی رہی ہے، یہ طعنہ اب شدت سے دیا جائے گا کہ حکومت قائم کرنے سے قبل انہوں نے ڈی چوک میں حلف لینے، چھوٹے گھر میں رہنے سمیت بہت سے اعلانات کیے۔ یہ سب اعلانات اور فیصلے اب واپس لیے جاچکے ہیں۔ یہ بھی کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیا جائے گا، اب یہ بھی ہونے جارہا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ مالی مشکلات کے حل کے لیے کچھ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے جو اس کے انتخابی منشور سے متصادم ہوں گے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ان مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے کہاں سے رقم حاصل کرے گی؟ اب اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے حیران کن اعلان کردیا ہے، کہتے ہیں کہ تحریک انصاف عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرے گی تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بہتر کیا جا سکے۔ دوسرا نعرہ یہ ہے کہ ٹیکس کلچر بہتر بنایا جائے گا اور آٹھ ہزار ارب ہر سال اکٹھا کیا جائے گا، ملک میں نئے انڈسٹریل یونٹس قائم کریں گے، ملک کے تمام خودمختار اور نیم مختار اداروں کی ازسرنو تشکیل کی جائے گی، عالمی معیار کے ٹیکنوکریٹ بھرتی کیے جائیں گے جو ان اداروں کو نقصان سے نکال کر منافع کی طرف لے کر جائیں۔ دیکھتے ہیں اس پر تحریک انصاف کی قیادت کب یوٹرن لیتی ہے۔
سیاسی تاریخ تو یہی ہے کہ حکمران طبقات نے بھی ہمیشہ اپنی سیاسی طاقت کے لیے انتخابی سطح پر ’’مقامی اشرافیہ‘‘ پر ہی انحصار کیا ہے۔ انتخابی حلقوں میں مقامی اشرافیہ، بڑے زمینداروں، بااثر طبقات اور حلقے کی برادریوں پر انحصار کرنا پڑا، اور اسی کے باعث سیاسی جماعتیں انتخابات جیتنے میں کامیا ب ہوتی رہیں۔ تحریک انصاف سیاسی حمایت کے لیے مقامی اشرافیہ، روایتی سیاست دانوں، زمینداروں، جاگیرداروں، وڈیروں، اور اسٹیٹس کو کے علَم برداروں کی مدد لے رہی ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی یہ جواز دے رہے ہیں کہ ’’ہم مانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شامل ہونے والے افراد ایمان دار نہیں ہیں اور اسٹیٹس کو کے حامل ہیں، لیکن اگر لیڈر ایمان دار ہو تو ایسے میں کرپشن نہیں ہوسکتی‘‘۔ سیاسی وژن، سیاسی فلسفہ اور تاریخ پر بھی گہری نظر رکھنے والی قیادت تحریک انصاف کو میسر ہے جو سماج کو اپنے وژن میں ڈھالنے میں کامیاب ہوجائے۔ سوئس اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ اورآمدنی سے زائد اثاثوں کے مالک اپنی جھولی میں رکھ کر تحریک انصاف کس طرح سماجی تبدیلی لاسکے گی؟ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ اور روایتی سیاست دانوں کو ساتھ ملانے کے باوجود اب پا کستان کا نظام بدل جائے گا؟ اس پر بحث سے قبل سیاسیات کے اس بنیادی اصول کو سمجھا جائے کہ کسی بھی سیاسی نظام میں اُس وقت تک بنیادی تبدیلی نہیں آسکتی جب تک اُس کے ڈھانچے کو تبدیل نہ کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ابھی تحریک انصاف کی حکومت کا باقاعدہ آغاز بھی نہیں ہوا، عمران خان کی ٹیم ابھی میدان میں نہیں اُتری، ایک پاکستانی کی حیثیت سے تو ہماری یہی خواہش ہونی چاہیے کہ پاکستان کو ایک اچھی حکومت ملے، معاشی معاملات میں بہتری آئے، لوگوں کو روزگار ملے، کرپشن کا خاتمہ ہو، سب کو انصاف ہوتا نظر آئے اور ہمارا سماج بہتری کی جانب آگے بڑھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان پرانے ڈٖھانچے پر کھڑے ہوکر کس طرح نیا پا کستان بناتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا احتجاج

پارٹی اجلاس کے بعد فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بتایاکہ مینڈیٹ چوری کرنے والوں کے خلاف احتجاج ہوگا، سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن آفس کے سامنے احتجاج کریں گی۔ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ احتجاج کتنے دن جاری رہے گا۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے متعدد ترجمانوں میں سے ایک ترجمان فواد چودھری نے کہا ہے کہ عدالتی اور انتظامی فیصلے ملکی مفاد سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں، انتقالِ اقتدار کے لیے نتائج کا حتمی ہونا اہم ہے، 30نشستوں کے حتمی نتائج جاری کیے جائیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے بعض حلقوں کے نتائج روکے جانے کے معاملے پر پی ٹی آئی نے چیف جسٹس سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیاکہ انتخابات کے نتائج کو روکنا سنجیدہ معاملہ ہے۔