برطانوی سامراج کے خلاف تحریکِ آزادی
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزوں سے آزادی کی اس تحریک میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل تھے جن میں نانا صاحب پیشوا اور جھانسی کی رانی لکشمی بائی سرفہرست ہیں، لیکن انگریزوں نے اپنی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ زیادہ تر مسلمانوں کو ہی بنایا، کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ اس سارے ’’فساد کی جڑ‘‘ یہی مسلمان ہیں، لہٰذا دنیا کا ہر ظلم و ستم ان مسلمانوں پہ ڈھایا گیا۔ چن چن کر مسلمانوں کو شہید کیا گیا، بعض ایسے بھی مسلمان تھے جنہیں توپوں کے دہانوں پر باندھ کر کھڑا کیا جاتا، توپ کا گولہ چلتا اور یوں ان کا جسم ان گنت ٹکڑوں میں بٹ جاتا، اور کوئی شخص کوشش کے باوجود چن چن کر ان ٹکڑوں کو جوڑ کر آزادی کے ان متوالوں کی لاشیں پوری نہ کرسکتا۔ چوکوں چوراہوں میں جگہ جگہ پھانسی گھاٹ بناکر مسلمانوں کو تختۂ دار پہ لٹکایا گیا۔ مسلمان علماء کو انڈمان (کالا پانی) بھیجا گیا۔ مسلمانوں کی جائدادوں کو ضبط کرلیا گیا، ان کی املاک قرق کرلی گئیں، اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کردیے گئے، بلکہ بعض اوقات تو درجہ چہارم کی ملازمتوں کے اشتہار پر لکھا ہوتا ’’مسلمان اسامیوں کے لیے نااہل ہیں‘‘۔
خودمختار اسلامی ریاست کا خواب
اگرچہ بظاہر اہلِ ہند انگریزوں سے شکست کھاگئے، مگر آزادی کی تڑپ ان میں ماند نہ پڑسکی۔ ابتدا میں مسلمانوں نے ہندوئوں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے نجات کی جدوجہد جاری رکھی، مگر جلد ہی مسلمانوں کو محسوس ہوگیا کہ انگریزوں کو یہاں سے نکالنے کے بعد ہندو خود ہی سارے برصغیر کا حکمران بننے اور مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے اپنے لیے ایک الگ اور خودمختار ریاست بنانے کا فیصلہ کیا، جس کا ایک واضح اور غیر مبہم خاکہ علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیا۔ علامہ اقبال نے فرمایا:
’’ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ ان کی ثقافت، سیاست، تمدن، معاشرت ہر لحاظ سے الگ ہیں۔ ان میں ہم آہنگی پیدا ہونا ناممکن ہے۔ اس لیے برعظیم پاک و ہند کے (تمام) مسائل کا حل یہی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک جداگانہ اور علیحدہ مملکت ہو۔ میری خواہش ہے کہ مسلم اکثریت کے علاقوں پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد اور بلوچستان کو ایک ریاست بناکر خودمختاری دے دی جائے، کیونکہ مجھے نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ میں اسی منظم اسلامی ریاست کا مطالبہ کررہا ہوں۔ اس تجویز کو سن کر ہندوئوں یا انگریز حکمرانوں کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ برعظیم میں مسلمانوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ یہ ضروری ہے کہ اس (خطے) میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے اور مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘۔
دو قومی نظریہ کی بنیاد… قراردادِ پاکستان
اس خطبے کے ٹھیک دس سال بعد 22، 23 مارچ کو مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس منٹو پارک (علامہ اقبال پارک) میں منعقد ہوا، اس اجلاس میں پورے برصغیر سے مسلمانوں نے جوق در جوق شرکت کی۔ حاضرین کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ پنڈال کو جھنڈیوں اور علامہ اقبال کے اشعار سے خوب سجایا گیا۔ بائیس مارچ کے اجلاس کے خطبۂ صدارت میں قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بار پھر دو قومی نظریے کو بڑے واشگاف الفاظ میں پیش کیا۔ آپ نے فرمایا:
’’مسلمان ایک جداگانہ قوم ہیں، چاہے قوم کی جو بھی تعریف کی جائے، اس کے تحت یہ ایک قوم ہیں۔ اس لیے ان کا اپنا ایک الگ وطن ہونا چاہیے، ان کا اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے۔ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ مذہبی فلسفوں، سماجی رسم و رواج اور علمی و ادبی ورثے سے تعلق رکھتے ہیں، نہ تو وہ آپس میں شادی کرسکتے ہیں، نہ ہی مل کر کھا سکتے ہیں۔ درحقیقت دونوں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تہذیبوں کے افکار و نظریات بھی ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ زندگی اور زندہ رہنے کے حوالے سے دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کی رزمیہ تاریخ بھی ایک دوسرے سے الگ ہے۔ دونوں کے ہیروز مختلف ہیں۔ بلکہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن، اور دوسری قوم کا ہیرو پہلی قوم کا دشمن ہے۔ دونوں میں سے ایک کی شکست دوسری کی فتح، اور دوسری قوم کی شکست پہلی قوم کی فتح ہے، لہٰذا ایسی دو قوموں کو ایک ہی سلطنت میں اکٹھے رکھنا، اس کیفیت میں کہ ایک تو عددی اقلیت میں ہو اور دوسری واضح اکثریت میں، اس کا نتیجہ لامحالہ بے سکونی، ابتری اور تباہی کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا، خواہ اس کے لیے کسی بھی وضع کی حکومت بنائی جائے‘‘۔
قراردادِ پاکستان کی منظوری
دوسرے روز 23 مارچ کا اجلاس بھی قائداعظم کی ہی صدارت میں ہوا۔ اس اجلاس میں مشہورِ زمانہ قرارداد، قراردادِ لاہور یا دوسرے لفظوں میں ’’قراردادِ پاکستان‘‘ پیش کی گئی۔ اس قرارداد کا مسودہ بائیس مارچ کی رات ہی کو سبجیکٹس کمیٹی نے تیار کرلیا تھا اور مسودے کو اچھی طرح جانچ پرکھ لیا تھا۔ اس قرارداد کی تیاری میں سرسکندر حیات خاں، ملک برکت علی، نواب زادہ لیاقت علی خان، چودھری خلیق الزماں اور مولانا ظفر علی خان نے بھرپور حصہ لیا۔ قرارداد کا متن انگریزی میں تیار کیا گیا تھا جبکہ اس کا اردو ترجمہ عوام الناس کی سہولت کے لیے مولانا ظفر علی خان نے کیا۔ قرارداد شیربنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی۔ اس قرارداد کا متن درج ذیل ہے:
٭ ’’کونسل اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے جو لائحہ عمل 27 اگست، 17 اور 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939ء کو قراردادیں منظور کرکے آئینی امور کے بارے میں پیش کیا ہے، مسلم لیگ کا یہ اجلاس اسے منظور اور پیش کرتے ہوئے ان کی تصدیق و تائید کرتے ہوئے نہایت پُرزور الفاظ میں واضح کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کہ جس کے تحت فیڈریشن کی اسکیم پیش کی گئی ہے، موجودہ صورتِ حال میں ناقابلِ عمل ہونے کے باعث مسلمانانِ ہند کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔
٭ اجلاس میں مزید یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ اعلان، جو 18 اکتوبر 1939ء کو ملک معظم کی جانب سے وائسرائے ہند نے کیا تھا، وہ تسلی بخش اور معقول ہے، جیسا کہ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ پالیسی اور وہ پلان کہ جس پہ گورنمنٹ آف انڈیا 1939ء میں مدار کرتی ہے، اس کا ازسرِنو ہندوستان کی مختلف جماعتوں اور فرقوں سے مشورے کے بعد جائزہ لیا جائے گا۔ اسلامی ہندوستان اس امر میں اُس وقت تک مطمئن نہیں ہوگا کہ جب تک پوری آئینی اسکیم کو ازسرنو ترتیب نہ دیا جائے، اور یہ بھی کہ کوئی نظرثانی شدہ دستوری خاکہ اُس وقت تک ناقابلِ قبول ہوگا جب تک اس کے لیے مسلمانوں کی رضامندی اور منظوری حاصل نہیں کی گئی ہو‘‘۔
٭ ’’قرار پاتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اِس اجلاس کی رائے یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان صرف اُس دستوری ڈھانچے کو اِس ملک میں قابلِ عمل سمجھیں گے جسے مرتب کرتے ہوئے ذیل کے اصولوں اور امور کو پیش نظر رکھا گیا ہوگا۔ جغرافیائی طور پر متصلہ وحدتوں کے صوبے اس طرح وضع کیے جائیں کہ جو ضروری علاقائی ردوبدل کے ساتھ کہ جن میں مسلمان بہ لحاظِ تعداد زیادہ ہوں، جیسے کہ شمال مغربی اور مغربی زون ہیں، جن کو باہم ملا کر ہندوستان کے اندر خودمختار آزاد مملکتیں بنادی جائیں، جن میں یہ بنائے گئے یونٹ آزاد اور خودمختار ہوں‘‘۔
کانگریس اور ہندوئوں کی صفوں میں ماتم
کانگریس اور ہندوئوں کو اس قرارداد کے پاس ہونے سے شدید دھچکا لگا اور انہوں نے بڑے پُرزور انداز میں اس قرارداد کی مخالفت شروع کردی۔ گاندھی اور راج گوپال اچاریہ نے کہا: ’’مسلمانوں کی قراردادِ لاہور ہندوستان کی زندہ جان کو چیر پھاڑ دینے کے برابر ہے۔ یعنی مسلمان ایک جسم کو دو حصوں میں کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ 15 اپریل 1940ء کو پہلی یوپی سکھ کانفرنس میں سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے کہا کہ اگر مسلم لیگ پاکستان بنانا چاہتی ہے تو اسے سکھوں کے خون کے سمندر سے گزرنا پڑے گا۔ 6 مئی 1940ء کو پنڈت جواہر لال نہرو نے پونا میں کہا کہ پاکستان اسکیم محض ایک دیوانے کی بڑ ہے۔
یہ اسکیم تو چوبیس گھنٹے تک بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور میں ایک ہندو پروفیسر کا مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون میں اُس کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے مصارف کبھی پورے نہیں کرسکے گا بلکہ وہ ہندوستان سے الگ ہوکر بھی ہندوستان کا دستِ نگر رہے گا۔ اس لیے مسلمانوں کی علیحدگی کا یہ نظریہ غیر دانش مندانہ اور ناقابلِ عمل ہوگا۔
ہندو پریس بھی اس قرارداد کی مخالفت میں پیچھے نہ رہا۔ اس نے اس قرارداد کو اپنی بھرپور تنقید کا ہدف بنایا اور اس کے خلاف کئی مضامین اور اداریے تحریر کیے۔ یہ اس قدر بوکھلا اٹھے کہ انہوں نے اس قرارداد کو خود ہی ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کہنا شروع کردیا، جسے مسلم لیگ نے قبول کرتے ہوئے خود بھی اس قرارداد کو قراردادِ پاکستان کا نام دے دیا۔
قراردادِ پاکستان اور مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی مخالفتیں بدستور جاری رہیں، جبکہ مسلمانانِ ہند قائداعظم کی رہنمائی میں رفتہ رفتہ اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہے۔ قرارداد کے منظور ہونے کے محض سات سال بعد مسلمانوں کی کوششیں، کاوشیں اور قربانیاں رنگ لے آئیں اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا، جو مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان کے چار صوبوں مغربی پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد (خیبرپختون خوا) اور بلوچستان پر مشتمل تھا۔
قائداعظم کی تقاریر سے اقتباسات
اسلام
٭ قائداعظم نے مسلم لیگ لاہور کے اجلاس 22 مارچ 1940ء کو فرمایا ’’اسلام کے ’’قومی تصور‘‘ اور ہندو دھرم کے سماجی طور طریقوں کے باہمی اختلاف کو محض وہم و گمان بنانا ہندوستان کی تاریخ کوجھٹلانا ہے، ایک ہزار سال سے ہندوئوں کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب ایک دوسرے سے دوچار ہیں اور دونوں قومیں میل جول رکھتی چلی آرہی ہیں مگر ان کے اختلافات اسی پرانی شدت سے موجود ہیں، ان کے متعلق یہ توقع رکھنا کہ محض اس وجہ سے انقلاب آجائے گا اور ہندو اور مسلمان ایک قوم بن جائیں گے کہ ان پر ایک جمہوری آئین کا دبائو ڈالا گیا، سراسر غلطی ہے۔ جب ہندوستان میں ڈیڑھ سو سال سے قائم شدہ برطانوی وحدانی حکومت اس کام میں کامیاب نہ ہوسکی تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت میں فیڈرل نظام کے جبری قیام سے وہ کامیابی حاصل ہوجائے‘‘۔
٭ قائداعظم نے 23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں فرمایا ’’اسلام اور ہندو محض مذاہب ہی نہیں بلکہ درحقیقت وہ دو مختلف معاشرتی نظام ہیں، چنانچہ اس خیال کو خواب و تصور ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے‘‘۔
(از: انسائیکلوپیڈیا قائداعظم)
اقبال اور قائداعظم
٭ قائداعظم نے 2 مارچ 1941ء کو یوم ِاقبال کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’اگر میں اس تقریب (یومِ اقبال) میں شامل نہ ہوتا تو میں اپنی ذات کے ساتھ بڑی ناانصافی کرتا۔ میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے اس جلسے میں شریک ہوکر اقبال کو عقیدت کے پھول پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ اقبال کی ادبی شہرت عالمگیر ہے۔ وہ مشرق کے بہت بڑے اور بلند پایہ شاعر اور مفکراعظم تھے۔ مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کی تاریخ تھے۔ اس زمانے میں اقبال نے میری قیادت میں بحیثیت ایک سپاہی کے کام کیا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔ جس بات کو صحیح خیال کرتے یقینا وہ صحیح ہوتی تھی اور وہ اس پر مضبوط چٹان کی طرح قائم رہتے تھے‘‘۔
(از: انسائیکلوپیڈیا قائداعظم)
پاکستان
٭ 8 مارچ 1944ء کو قائداعظم نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل‘‘۔
(از: انسائیکلوپیڈیا قائداعظم)
٭ قائداعظم محمد علی جناح نے یوم پاکستان 23مارچ 1945ء کو اپنے خطاب میں فرمایا: ’’ہماری نجات، ہماری سلامتی اور عزت و آبرو کے تمام تقاضے پاکستان سے وابستہ ہیں، اگر ہم یہ جنگ ہار گئے تو ختم ہوکر رہ جائیں گے اور اس برصغیر سے مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان تک مٹ جائے گا‘‘۔
احکام قرآن
قائداعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں کراچی میں فرمایا: ’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، جس کی تکمیل کا ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن مجید کے احکام ہی سیاست، معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں‘‘۔
(از: انسائیکلوپیڈیا قائداعظم)