کشمیر : پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درپیش چیلنج

امریکی اخبار کی چشم کشا رپورٹ
کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو درپیش ایک اہم چیلنج ہے۔ نئی حکومت اس چیلنج سے کس طرح نبردآزما ہوتی ہے، دنیا کی نظریں اب اس امر پر مرکوز ہوچکی ہیں۔ عمران خان بھارت کی طرف شاخ ِ زیتون اُچھال چکے ہیں اور نریندر مودی کی طرف سے اس کا رسمی جواب بھی مل چکا ہے۔ غربت اور افلاس زدہ عوام کا مستقبل سنوارنے کی سوچ ہر دو اطراف میں غالب تو ہے مگر حالات کی صلیب پر جھولتا ہوا کشمیر مستقبل کے ارادوں کو عمل تک پہنچانے میں رکاوٹ ہے۔کشمیر اگر 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کی طرح پُرامن ہوتا تو شاید فریقین کو زیادہ مشکل درپیش نہ ہوتی، مگر کشمیر تین عشروں سے آتش فشاں بن کر لاوا اُگل رہا ہے اور رواں دہائی تو مزاحمت اور دبائو کی آخری حدیں عبور کرگئی ہے۔
کشمیر کی اندرونی صورتِ حال کیا ہے؟ مزاحمت کی شدت اور مظالم کی رفتار کیا ہے؟ یہ باتیں گاہے بہ گاہے سامنے تو آتی ہیں مگر اس کو جانچنے اور ناپنے کا کوئی آزاد پیمانہ اور خوردبین نہیں ہوتی۔ آزاد دنیا کا کوئی سفارت کار، سفارتی مشن یا اخبار نویس وادی میں قدم رکھے تو بڑی حد تک اندرونی صورتِ حال عیاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ امریکہ کے معروف اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی چونکا دینے والی رپورٹ میں ایک بار پھر وادی کی اندرونی صورتِ حال کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ ”In Kashmir, Blood and Grief Intimate War”کے عنوان سے یکم اگست کو شائع ہونے والی یہ رپورٹ امریکی صحافی جیفری جیٹل مین نے تیار کی ہے، جس میں وادیٔ کشمیر کے شہروں، محلوں اور گلی کوچوں میں عوامی جذبات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ صحافی نے رپورٹ کی تیاری میں جانب داری کی حد تک بہت احتیاط سے کام لیا ہے۔ اُس نے قدم قدم پر اس بات کا خیال رکھا ہے کہ میزبان اور مہربان جس کی بدولت اُسے وادی تک رسائی ملی، کی جبیں شکن آلود نہ ہونے پائے۔ اور وہ میزبان و مہربان ظاہر ہے بھارت کی اتھارٹی ہے جس نے اخبار نویس کو وادی میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ یہی وجہ ہے کہ رپورٹ میں پیلٹ گن کے استعمال اور اس کے متاثرین کا کوئی ذکر نہیں۔ احتیاط کا دامن سختی سے تھامنے کے لیے ہی اخبار نویس نے اپنی رپورٹ کا آغاز دو کرداروں سے کیا ہے۔ ایک کردار بھارت کا باغی اور انقلابی ہے، اور دوسرا کردار وادی میں بھارتی سسٹم کی معاونت کرنے والا ایک سیاسی کارکن ہے جو اوّل الذکر کردار کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوا۔ پہلا کردار سترہ سالہ نوجوان سمیر احمد بھٹ المعروف ٹائیگر ہے جو ایک غریب گھرانے کا نوجوان تھا اور بھارتی فوج نے پتھر بازی کے جرم میں گرفتار کرکے اسے تشدد کا شکار کیا، اور ردعمل میں وہ بندوق تھام کر سامنے آیا اور بھارت کے نظام کو للکارنے لگ گیا۔یہ نوجوان کچھ عرصے تک سرگرم رہنے کے بعد تصادم میں جان سے گزر گیا۔ دوسرا کردار پچپن سالہ ایک سیاسی کارکن ہے جو محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی سے وابستہ تھا اور سمیر نے اُسے سیاسی وابستگی ختم کرنے کا کہا اور اس دوران توتکار میں گولی چلی اور یہ شخص قتل ہوگیا۔ کہانی بہت مہارت سے تیار کی گئی ہے کہ بندوق بردار نوجوان قتل ہو تو اس کی زد بھی کشمیر پر پڑتی ہے، اور عام کشمیری شکار ہو تو یہ بھی کشمیری سماج کا نقصان ہی قرار پاتا ہے۔ اس کے باوجود رپورٹ میں کشمیر کے زمینی حقائق کا کئی انداز اور حوالوں سے اعتراف کیا گیا ہے۔
مضمون نگار نے یہ حقیقت تسلیم کی ہے کہ کشمیر ایشیا کے خطرناک ترین فلیش پوائنٹس میں سے ایک ہے، جہاں دس لاکھ افواج آمنے سامنے ہیں، دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور دونوں میں مذہب کی لکیر حائل ہے، اور کشمیر دونوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔ مضمون نگار نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوج کو ٹیکنالوجی کی شکل میں اسرائیل کی تکنیکی معاونت حاصل ہے۔ مضمون نگار نے پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور سابق وائس چانسلر صدیق واحد کے حوالے سے بتایا کہ 1990ء کی دہائی سے پہلے کشمیر میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بھارت کے ساتھ لو، دو کی بنیاد پر بات ہوسکتی ہے اور معاملات طے ہوسکتے ہیں، مگر اب کوئی بھی بھارت کا حصہ بننے کو تیار نہیں، ہر کشمیری اِس وقت اپنے انداز سے مزاحمت کررہا ہے۔ دیہاتوں کی طرف نکل جائیں اور کسی سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ تو جواب ملے گا: خودمختاری۔ کچھ لوگ پاکستان کی بات بھی کرتے ہیں، مگر عوام میں بھارت کے لیے کلمہ ٔ خیر کہنے والا کوئی بھی نہیں۔ مضمون نگار نے ایک پولیس افسر کے حوالے سے کہا ہے کہ اب کشمیری حریت پسندوں کو پاکستان سے مدد نہیں ملتی۔ اس وقت وادی میں ڈھائی سو بندوق بردار ہیں، جبکہ دو عشرے قبل یہ تعداد ہزاروں میں تھی۔ ان ڈھائی سو عسکری نوجوانوں کی تربیت بھی واجبی سی ہے لیکن فوج انہیں ختم نہیں کرسکتی۔ ایک مارا جاتا ہے تو کئی اس کی جگہ لینے کو تیار ہوتے ہیں۔ مضمون نگار نے پولیس افسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ کشمیریوں کی بھارت سے بیگانگی کی انتہا یہ ہے کہ جب کوئی فرد مارا جاتا ہے تو لواحقین کوئی مقدمہ درج کرانے یا تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے بجائے خاموشی سے لاش اُٹھاکر چلے جاتے ہیں۔ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ یہ اجسادِ خاکی ہی ہمارا اثاثہ ہیں۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کی اکثریتی آبادی ہندوئوں میں قوم پرستی کے جذبات میں اضافے کے نتیجے میں کشمیری مسلمانوں میں بھارت سے نفرت بڑھی ہے۔ بھارت سے نفرت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور وہ بھارت سے آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کشمیر کی موجودہ زمینی صورتِ حال کے حوالے سے بہت سے چشم کشا حقائق بیان کیے گئے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے ہر قسم کے ظلم وستم کے باوجود آزادی اور حقِ خودارادیت کی راہ ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ بھارت نے ایسی ہی رپورٹس اور حقائق کو منظرعام پر آنے سے روکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کو ایک قید خانہ بنا رکھا ہے۔ نہ تو بیرونی سفارت کاروں اور تنظیموں، اور نہ ہی میڈیا کو مقبوضہ علاقے میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ جب بھی عالمی ذرائع ابلاغ کو مقبوضہ علاقے تک رسائی ملتی ہے، اسی طرح کی چونکا دینے والے رپورٹس سامنے آتی ہیں جن میں محتاط انداز سے ہی سہی، مگر بھارت کا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب آج کی طرح عالمی ذرائع ابلاغ کا کشمیر میں داخلہ بند تھا تو امریکی اخبارات ٹائم میگزین، نیوزویک، واشنگٹن پوسٹ، واشنگٹن ٹائمز اور برطانوی اخبارات گارجین، دی ٹائمز اور بی بی سی نے ایسی ہی معرکۃ الآرا رپورٹس میں وادی کی اندرونی تصویر دنیا کو دکھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پچیس سال بعد امریکی اخبار کی اسی انداز کی رپورٹ بتارہی ہے کہ وقت کا دھارا پاکستان،بھارت اور کشمیریوں کے لیے ٹھیر کر رہ گیا ہے۔