ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے سیکریٹری جنرل علی احمد کوہزاد جو25 جولائی کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی26 سے کامیاب ہوئے ہیں، کامیابی کے ساتھ اُن کی پاکستانی شہریت کا معاملہ متوازی طور پر اُٹھا ہے۔ نادرا نے علی احمد کوہزاد کا قومی شناختی کارڈ نمبر 5440029402305 منسوخ کردیا ہے۔ نادرا کے مطابق علی احمد کوہزاد غیر ملکی (افغان شہری) ہیں۔ نادرا نے ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں کہا ہے کہ علی احمد کوہزاد کے پاس سال1997ء سے قبل پاکستانی شہریت کا کوئی ریکارڈ یا دستاویزات موجود نہیں۔ انہوں نے عبدالحمید ولد حیدر علی نامی شخص کے گھرانے یعنی ریکارڈ سے جعلی تعلق جوڑنے کی کوشش کی ہے اور عبدالحمید کو بڑے بھائی کے طور پر خاندان کا سربراہ بنایا ہے۔ اور اس شخص کے ریکارڈ میں اپنے اندراج کی خاطر علی احمد کوہزاد نے جو حلف نامہ جمع کرایا ہے اس میں والدین کی وفات1977ء سے قبل بتائی ہے اور حلف نامے میں اپنی تاریخ پیدائش 16 فروری1979ء درج کی ہے، یعنی پیدائش والدین کی وفات کے دو سال بعد ہوئی ہے۔ نیز نادرا یہ بھی قرار دے چکا ہے کہ علی احمد کوہزاد نے جس شخص کو عبدالحمید ظاہر کرکے اس کا مینول شناختی کارڈ نمبر بیانِ حلفی پر دیا ہے وہ شخص عبدالحمید نہیں بلکہ عبدالمجید تھا، اور اس کا شناختی کارڈ بھی اس وجہ سے بلاک کیا جاچکا ہے کہ اس کا پاکستان میں کسی سے کوئی خونیں رشتہ ریکارڈ پر دستیاب نہیں۔ علی احمد کوہزاد نے انتخابات میں حصہ لینے کی خاطر بلوچستان ہائی کورٹ سے انتخابات سے قبل حکم امتناعی لیا تھا۔ 6 اگست کو بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ نادرا کے لا آفیسر نے عدالت کو بتایا کہ علی احمد کوہزاد کا برتھ سرٹیفکیٹ 29 جون 2004ء کو بنایا گیا ہے۔ اس سماعت کے دوران بینچ نے درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کردیا اور کہا کہ معاملہ وزارت داخلہ میں زیر التوا ہے اس لیے عدالت کوئی فیصلہ سناکر زیر التوا معاملے پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتی۔ اور یہ کہ شہریت کی بحالی سے متعلق معاملہ وزارت داخلہ جاکر غرض نپٹائیں۔
علی احمد کوہزاد 2005ء سے2009ء تک یونین کونسل شادینزئی ہزارہ ٹائون کے ناظم رہے، اور2013ء کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ کوئٹہ یا صوبے کے دیگر علاقوں میں آباد ہزارہ برادری انگریز دور میں آکر آباد ہوگئی تھی۔ یہ لوگ بلوچستان میں ریلوے لائن بچھانے میں بطور مزدور شامل تھے۔ یعنی انگریز دور میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں مزدور کی حیثیت سے شامل رہے۔ ہزارہ لوگوں پر مشتمل انگریز فوج کا ایک دستہ ’’ہزارہ پانیئر‘‘ کے نام سے بھی قائم تھا۔ اس عرصے میں ان کے لوگ کوئٹہ کی مشرقی پہاڑی کے دامن میں مری آباد کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ یوں ایک بڑی آبادی افغانستان سے نقل مکانی کرکے یہاں آباد ہوگئی۔ قدیم باشندے ہیں، اس لحاظ سے پاکستانی ہیں۔ ان کی فوج، پولیس، کھیل اور دوسرے شعبوں میں خدمات ہیں۔ یہ 1990ء کی دہائی سے دہشت گردی کا شکار ہیں۔ سینکڑوں مرد، عورتیں اور بچے دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان پر اب بھی عرصۂ حیات تنگ ہیں۔ محنتی اور جفاکش لوگ ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ افغان انقلاب کے بعد ہزارہ لوگ افغانستان سے ہجرت کرکے کوئٹہ میں سکونت پذیر ہوگئے ہیں۔ آمدورفت کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بڑی تعداد میں ان لوگوں نے پاکستانی دستاویزات حاصل کررکھی ہیں۔ اس بنیاد پر فوج، پولیس اور دیگر محکموں میں ملازمتیں حاصل کر رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں دوسرے ملکوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کرچکے ہیں۔
افغان انقلاب کے بعد پشتون افغان باشندے بھی بڑی تعداد میں بلوچستان کے پشتون اور دوسرے اضلاع میں مقیم ہوئے۔ پہلے ان کو مہاجر کیمپوں میں رکھا گیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ آبادیوں میں مدغم ہوگئے اور پاکستانی دستاویزات تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔ گویا ہزارہ کی طرح پشتون افغان باشندے بھی ملازمتیں حاصل کرچکے ہیں، سیاست میں حصہ لے رہے ہیں، بڑے بڑے کاروبار کے مالک بن گئے ہیں۔ غرض کوئٹہ میں افغان ہزارہ لوگ ایک بڑی تعداد میں آباد ہوچکے ہیں، ان کی آمد کا سلسلہ پشتونوں کی طرح روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔ زمین کی تنگی کی وجہ سے ہزارہ عوام نے کوئٹہ کے مغربی پہاڑ کے دامن میں ہزارہ ٹائون کے نام سے آبادی قائم کرلی اور 1980ء کی دہائی میں اس علاقے میں منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ مقامی افراد اگرچہ آباد ہیں، تاہم بڑی آبادی افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی بھی ہے۔ ہزارہ افغان اور پشتون افغان باشندوں کو پاکستانی شہریت کے حصول میں اس وجہ سے آسانی ہے کہ یہاں کے پشتون قبائل کی طرح ہزارہ بھی مقامی ڈکلیرڈ ہیں۔ وگرنہ افغانستان سے تاجک، ازبک، مغل اور ترکمن وغیرہ بھی ہجرت کرچکے ہیں، لیکن وہ ریکارڈ میں افغان مہاجر ہی ہیں۔
ان انتخابات میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو امیدوار کامیاب ہوئے۔ حلقہ پی بی 27 سے پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ کامیاب ہوئے، اور یہ کامیابی اس جماعت کو پہلی بار، اور وہ بھی طویل جدوجہد کے بعد ملی ہے۔ اچھی جماعت ہے، نظم و ضبط، اچھی رائے اور مؤقف کی حامل ہے۔ اس پارٹی کی نظریاتی شناخت ایک سیکولر و لبرل جماعت کے طور پر ہے۔ خصوصاً مذہبی انتہاء پسندی کے حوالے سے اہلِ تشیع کی جماعتوں کی بھی سخت ناقد ہے، بلکہ ان کے سامنے ایک واضح مؤقف کے ساتھ میدانِ سیاست میں ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں ان کے کئی کونسلر کامیاب ہوچکے ہیں۔ غیر ملکی چاہے پشتون ہوں، بلوچ یا ہزارہ… ان کو پاکستانی دستاویزات کے حصول تک رسائی نہیں دینی چاہیے۔ یہ ذمے داری ریاست اور اس کے اداروں کی ہے کہ وہ آنکھیں کھلی رکھیں۔ بدعنوانی کے ذریعے اپنی ذات اور خاندان کو فائدہ پہنچانے کے بجائے قومی مفاد کو مدنظر رکھیں۔ 2018ء کے ان انتخابات میں گوادر سے شکایت آئی کہ ایرانی بلوچ باشندوں نے، جنہوں نے جعلی طریقے سے پاکستانی شہریت بھی حاصل کررکھی ہے اور بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ملحق بلوچ اضلاع میں دہری شہریت عام ہے۔ ان اضلاع سے منتخب ہونے والے اور حصہ لینے والے امیدواروں پر دہری شہریت کے الزامات ہیں۔
25 جولائی کے انتخابات کے روز ایک اہم سیکورٹی ذمے دار نے راقم کو بتایا کہ پاک افغان سرحد چمن کے مقام پر بابِ دوستی اس مقصد کے تحت بند کیا گیا تاکہ افغانستان کی طرف سے وہ لوگ جن کے پاس پاکستانی دستاویزات ہیں، ووٹ کا استعمال نہ کریں۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے؟