ناقص انتخابی نظام

(گزشتہ سے پیوستہ)
انتخابات 2018ء کے تناظر میں موجودہ انتخابی نظام کے نقائص اور خرابیوں پر بات چل رہی تھی کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا یہ بیان اخبارات اور چینلز میں نمایاں انداز میں شائع اور نشر ہوا کہ جس نظام سے نجات کے لیے قوم بے چین ہے وہی نظام قوم پر دوبارہ مسلط کیا جارہا ہے۔ سراج الحق نے بھی یہی کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہا، یہ کمیشن سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہا۔ انہوں نے ایک انتہائی اہم بات یہ کی کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کرانے کے لیے بااختیار بنایا گیا تھا لیکن یہ اختیار کسی اور نے استعمال کرلیا۔
کوئی اور اختیار تبھی استعمال کرسکتا ہے جب نظام میں کمزوری اور نقص موجود ہو۔ اور نظامِ انتخاب کی کمزوری اور خرابی جگہ جگہ سر اٹھا کر بول رہی ہے۔ جس بظاہر سادہ اور آسان نظام میں 16 لاکھ 70 ہزار ووٹ مسترد ہوجائیں اس کی کیا ساکھ باقی رہتی ہے! اتنے ووٹوں سے اوسطاً 16 سے 17 ایم این اے منتخب ہوسکتے ہیں۔ اس شرح سے ہر حلقے میں 6185 ووٹ مسترد ہوئے، جب کہ قومی اسمبلی کے 41 حلقے ایسے تھے جن میں جیتنے والے کا رنراَپ کے ساتھ فرق اس سے کم ہے۔ موجودہ انتخاب میں کُل 5,29,82,119 ووٹ ڈالے گئے جو کُل رجسٹرڈ ووٹوں کا تقریباً 51 فیصد بنتے ہیں۔ اس طرح منتخب ہونے والے نہ تو ملک کی مجموعی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ ووٹرز کی اکثریت کی۔ پھر ان ووٹرز کو جس طرح ذاتی و گروہی اثر رسوخ، لسانی، مسلکی اور برادری کے تعصبات کو ابھار کر ووٹ ڈالنے پر راغب کیا جاتا ہے وہ نہ تو جمہوریت ہے اور نہ اخلاقی و اصولی سیاست۔ سب سے بڑھ کر پیسہ ہے جو کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پیسے کی چمک ووٹرز کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ امیدوار پیسے کے بل پر ؟؟ عطیات دے کر پہلے ٹکٹ خریدتا ہے، پھر بینرز، فلیکس، بورڈز اور اخبارات و ٹی وی چینلز پر اشتہار دے کر ایک فضا بناتا ہے۔ جگہ جگہ پیسے دے کر دفتر کھلواتا ہے اور وہاں میز کرسیوں کے علاوہ کھانوں کے ذریعے لوگوں کو اکٹھا کرکے یہ فضا بنادیتا ہے کہ وہ نہ صرف بہت مقبول ہے بلکہ مخیر بھی ہے۔ اس نفسیاتی فضا میں ووٹر امیدوار کی شخصی خوبیوں، سیاسی وفاداری، اہلیت اور اس کی ذاتی اور پارٹی کی کارکردگی کو نظرانداز کرتے ہوئے جذبات کی رو میں بہہ جاتا ہے، اور بسا اوقات بدترین امیدوار کامیاب، اور بہترین امیدوار ناکام رہتے ہیں۔ اس انتخابی نظام میں پیسہ سب سے اہم ہوتا جارہا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ٹکٹ جاری کرتے وقت امیدوار کی مالی حیثیت کو نہ صرف پیش نظر رکھتی ہیں بلکہ اس سے یقین دہانی حاصل کرتی ہیں کہ انتخابات میں کتنا پیسہ لگا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے الیکشن کمیشن اس معاملے میں بے حسی ہی نہیں دکھاتا بلکہ مجرمانہ حد تک صرفِ نظر کرتا ہے۔ اسے امیدواروں کی انتخابی مہم پر ہونے والے اخراجات نظر آرہے ہوتے ہیں، نہ پارٹیوں کی اشتہاری مہم۔ سیاسی جماعتیں کروڑوں اربوں روپے اپنی اشتہاری مہم پر لگاتی ہیں لیکن ان کی آمدن کے ذرائع نہ عوام میں آتے ہیں اور نہ کوئی ادارہ ان کا نیک نیتی سے جائزہ لیتا ہے۔ کئی جماعتوں پر تو غیر ممالک سے رقوم آنے کا بھی الزام ہوتا ہے، لیکن اسٹیبلشمنٹ اُسے اس لیے نظرانداز کرتی ہے کہ اسی پارٹی سے مستقبل قریب میں کوئی کام لینا ہوتا ہے، اور ادارے اس لیے نہیں پوچھ پاتے کہ یہ اُن کی اوقات سے بڑا کام ہوتا ہے۔ پھر اس خراب نظام میں پیسے اور دیگر منفی ذرائع سے کامیاب ہونے والے لوگ اسمبلیوں میں آکر نہ صرف اپنی لگائی ہوئی رقم واپس لینے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں بلکہ اگلے انتخاب کے لیے درکار رقم اور اپنی اور اپنے خاندان کی خوشحالی کے لیے تمام جائز اور ناجائز ذرائع اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ ووٹر سے اس لیے کوئی حقیقی رابطہ نہیں رکھتے کہ انہیں معلوم ہے کہ اسے تو پیسے کے ذریعے دوبارہ راغب کیا جاسکتا ہے۔ اِس بار بھی اگر کوئی خفیہ تحقیقات کی جائیں تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ بیشتر حلقوں میں وہی امیدوار کامیاب ہوئے جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران سب سے زیادہ پیسہ خرچ کیا۔ ایسے ارکان قانون سازی میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ وہ ذاتی اور خاندانی کاروبار اور سیاسی بالادستی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ اس نظامِ انتخاب سے جان چھڑالی جائے، جو نہ عوام کی نمائندگی کررہا ہے، نہ عوام کی حالت بدل رہا ہے، بلکہ منفی طریقوں سے کچھ لوگوں یا کچھ من پسند جماعتوں کو اقتدار میں شرکت کا موقع فراہم کررہا ہے۔ اس کے ذریعے نہ عوام کی حالت بدل سکتی ہے اور نہ ان کے حقیقی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہ عوام کو ریلیف بھی وقتی ضرورت اور مجبوری کے تحت دیتا ہے جس کی مثال پاکستان کے موجودہ حالات ہیں۔ لوگ 1950ء، 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں کم مسائل کا شکار تھے۔ آج زیادہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کی حالت 30 سال پہلے زیادہ بہتر تھی، اب خراب ہورہی ہے۔ اداروں کی کارکردگی پہلے بہتر تھی اور اب ہر روز خراب ہورہی ہے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نظام کے آگے ہاتھ جوڑ لیے جائیں اور اُس نظام کی طرف بڑھا جائے جو دنیا میں زیادہ نمائندہ، مؤثر اور ریلیف دینے والا نظام ثابت ہورہا ہے۔ جو جمہوری بھی زیادہ ہے اور ڈیلیور بھی زیادہ کررہا ہے۔ وہ نظام ہے متناسب نمائندگی کا۔ لیکن اس سے پہلے الیکشن کمیشن کو زیادہ بااختیار اور آزاد کرنا ہوگا، اور سیاسی جماعتوں کو عوام اور اداروں کے سامنے جوابدہ کرنا ہوگا۔ اس نظام کے تحت سیاسی جماعتیں اپنا پروگرام عوام کے سامنے رکھیں اور لوگ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیں۔ اس سے سیاسی جماعتیں امیدواروں کو لوٹنے سے باز آجائیں گی اور امیدوار منتخب ہوکر سیاسی جماعتوں اور عوام کو بلیک میل بھی نہیں کرسکیں گے۔ ہر سیاسی جماعت اپنی اسکروٹنی اور تمام تر کوائف و تفصیلات دے کر انتخابی میدان میں اترے اور اپنے امیدواروں کی فہرست عوام کے سامنے رکھے۔ عوام جس جماعت کے پروگرام اور اس کے امیدواروں کی فہرست سے مطمئن ہوں اسے ووٹ دے دیں۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے یکساں مواقع میسر ہوں اور خلاف ورزی پر پوری جماعت ہی انتخابی دوڑ سے باہر ہوجائے۔
اس متناسب نمائندگی کے نظام کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ووٹرز لسٹ کی تقسیم (Categorisation) کی بھی ضرورت ہے۔ ووٹرز لسٹ اس طرح بنائی جائے جس سے معلوم ہوسکے کہ ملک میں صنعت کار کتنے فیصد ہیں، اور محنتی ملازمین کتنے ہیں۔ جاگیردار کتنے فیصد ہیں اور ہاری کتنے فیصد۔ ایک لاکھ سے 10 لاکھ تک آمدنی والے کتنے لوگ ہیں اور ایک کروڑ سے ایک ارب تک کتنے لوگ۔ مکمل ناخواندہ کتنے لوگ ہیں اور میٹرک پاس کتنے۔ پی ایچ ڈی کتنے ہیں اور گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ کتنے۔ کتنے ڈاکٹرز ہیں اور کتنے انجینئرز۔ سند یافتہ علما کی تعداد کیا ہے اور غیر سند یافتہ مولوی کتنے ہیں۔ اسی طرح خواتین، اقلیتوں، طلبہ (ووٹ کے اہل) اور اساتذہ کتنی تعداد میں ہیں… اور تارکین وطن کتنے ہیں۔ ملک میں جس طبقے یا جس Category کے جتنے فیصد رجسٹرڈ ووٹرز ہوں ہر جماعت اس طبقے یا کیٹگری کے اُسی تناسب سے امیدواروں کی فہرست فراہم کرے۔ مثلاً اگر خواتین 48 فیصد اور اقلیتیں 10 فیصد ہیں تو ہر جماعت اسی تناسب سے اپنی فہرست میں خواتین، اقلیتوں اور دوسرے طبقات کو شامل کرے، اور عام انتخابات کے دوران ڈالے گئے کُل ووٹوں کو موجود حلقوں پر تقسیم کرکے یہ طے کرلیا جائے کہ ایک حلقے کے لیے کم از کم اتنے ووٹ درکار ہیں۔ اس طرح ہر سیاسی جماعت کو حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر نشستیں مل جائیں گی اور کم سے کم ووٹ ضائع ہوں گے۔ البتہ ووٹرز لسٹ میں جو فیصد تناسب کسی طبقے کا ہے متعلقہ جماعت کو اُسی تناسب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف طبقات کی نشستیں الاٹ کرنا ہوں گی۔ اس طرح نظام بھی شفاف ہوجائے گا، نمائندگی بھی سب کی ہوگی اور ووٹ بھی کم سے کم ضائع ہوں گے۔ موجودہ نظام کی خرابی ملاحظہ ہو کہ تحریک انصاف کو ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ حاصل کرکے قومی اسمبلی کی 118 نشستیں ملی ہیں۔ گویا اوسطاً ایک لاکھ 42 ہزار 372 ووٹوں پر ایک نشست۔ لیکن 22 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی تحریک لبیک کو ایک نشست بھی نہیں مل سکی۔ گویا یہ 22 لاکھ ووٹ بھی ضائع گئے۔
دوسری جانب ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت اقتدار میں ہے اور 3 کروڑ 61 لاکھ 83 ہزار ووٹ حاصل کرنے والی جماعتیں اور افراد اپوزیشن میں۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے والے آزاد امیدواروں اور اتحادی جماعتوں کے بھی کُل ووٹر اپوزیشن میں رہنے والوں یا پارلیمنٹ سے باہر رہنے والوں سے کم ہوں گے۔