الیکشن ڈے2018ء’’صحافیوں نے کیا دیکھا‘‘

منیر عقیل انصاری
کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے زیراہتمام ’’الیکشن ڈے 2018ء… صحافیوں نے کیا دیکھا‘‘ کے موضوع پر کراچی پریس کلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں صحافیوں سمیت سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کراچی پریس کلب کے سابق صدر امتیاز خان فاران نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد صحافی 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں دھاندلی کو بے نقاب کریں گے، الیکشن کمیشن کی جانب سے کارڈ جاری کرنے کے باوجود صحافیوں کو پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت نہیں تھی، الیکشن والے دن چیف الیکشن کمشنر کی وضاحت طے شدہ تھی، الیکشن کمیشن نے ہمیں آر ٹی ایس سسٹم کے نام پر الجھائے رکھا، فارم 45کسی بھی پولنگ ایجنٹ کو فراہم نہیں کیا گیا، الیکشن کو مکمل طور پر فری کردیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے صحافیوں نے ماضی میں ایم کیو ایم کی دھاندلی کے خلاف بھی ہمیشہ آواز اٹھائی تھی اور اب پاکستان تحریک انصاف صحافیوں کو دھمکی دینے پر اترآئی ہے، فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ سب صحافی شہبازشریف کے پولنگ ایجنٹ بن جائیں، کراچی کے صحافی پہلے بھی درست بات کہنے سے نہیں ڈرتے تھے اور آج بھی نڈر اور بیدار ہیں۔ ڈان نیوز سے وابستہ سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر زیدی نے کہا کہ ہمیں ایک مہینہ قبل بتایا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو 116 نشستیں ملیں گی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل فیصلہ کرلیا جاتا ہے کہ کس جماعت کو جیتنا ہے۔ جب تک کوئی محب وطن ریٹائر ہوکر خود نہیں بتائے گا تب تک پتا نہیں چلے گا کہ دھاندلی کیسے ہوئی۔ پاکستان میں کوئی الیکشن فیئر نہیں ہوتا، الیکشن سے قبل فیصلہ کرلیا جاتا ہے کہ کس جماعت کو جیتنا ہے۔ نیو ٹی وی کے سینئر رپورٹر راجا کامران کا کہنا تھا کہ الیکشن 2018ء کے بارے میں پورا سچ بولا نہیں جاسکتا، یہ الیکشن آر اوز کا الیکشن نہیں تھا، اِس بار ساری اجازت فوج کی جانب سے دی اور منسوخ کی جارہی تھی، پولنگ بوتھ میں موجود فوجی جوان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ پاسز کو صحیح و غلط قرار دے رہے تھے۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی کے مقابلے میں الیکشن 2018ء سب سے پُرامن الیکشن تھا لیکن اس کے عقب میں جو کام ہورہا تھا وہ خطرناک تھا، الیکشن کے بعد بیلٹ پیپرز کی گنتی بھی میڈیا کے سامنے نہیں کی گئی، جبکہ ماضی میں انتخابات کے دوران میڈیا ہر طرح سے الیکشن کی کوریج کررہا ہوتا تھا اور گنتی بھی میڈیا کی موجودگی میں ہوتی تھی۔ وقت نیوز سے وابستہ سینئر صحافی اے کے محسن کا کہنا تھا کہ الیکشن تین حصوں میں تقسیم تھا: پری پول، پولنگ ڈے اور آفٹر پولنگ۔ کراچی کے صحافیوں کی بڑی تعداد کو کئی پولنگ اسٹیشنوں میں اندر ہی نہیں جانے دیا گیا، کئی جگہ پاس ہونے کے باوجود درخواست کی گئی تو کہیں کہیں ترس کھایا گیا، پولنگ کا عمل جان بوجھ کر سست کیا گیا، نتائج کے مرحلے میں صحافیوں کو مکمل طور پر لاعلم رکھا گیا، صوبائی الیکشن کمیشن کی کارکردگی صفر تھی، آفٹر پول نتائج میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں۔ نیو ٹی وی سے وابستہ خاتون رپورٹر سدرہ ڈار کا کہنا تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں صحافیوں کو بلاوجہ کے رولز میں الجھایا گیا، قدم قدم پر صحافیوں پر پابندیاں تھیں، بعض مقامات پر بدانتظامی بھی دکھائی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے خود اس سارے عمل میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنا مشکل تھا۔ بہت زیادہ جدوجہد کرنے کے بعد میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے میں کامیاب ہوپائی، الیکشن کے نتائج میں اتنی تاخیر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، نتائج میں تاخیر کی وجہ سے آج الیکشن کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ دی نیوز سے وابستہ کراچی پریس کلب ہیلتھ کمیٹی کے سیکریٹری و سینئر صحافی وقار بھٹی کا کہنا تھا کہ نتائج الیکشن کمیشن نہیں بلکہ جیتنے والے امیدوار خود فون کرکے دے رہے تھے، مجھ پر جعلی الیکشن کمیشن پاس رکھنے کا الزام لگایا گیا، فورسز کی جانب سے میری اتنی ’’عزت افزائی‘‘ کی گئی کہ کچھ بتا نہیں سکتا، مجھے پولیس کے سب انسپکٹر نے حراست میں بٹھائے رکھا، الیکشن 2018ء کے حوالے سے اس طرح کے مزید سیمینار اور دیگر پر وگرام کرانے کی ضرورت ہے۔ دنیا نیوز سے وابستہ سینئر صحافی لیاقت رانا کا کہنا تھا کہ 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں کسی بھی صحافی کو پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، رات 12 بجے تک صحافیوں کو ایک پولنگ بوتھ کا بھی رزلٹ نہیں مل سکا تھا، الیکشن کمیشن اور سیکورٹی اداروں کے مابین کمیونی کیشن کا فقدان تھا، الیکشن کا پروسس خاصا سست تھا، مجموعی طور پر سیکورٹی کے بہتر انتظامات کیے گئے تھے۔ روزنامہ جسارت کراچی کے ایڈیٹر رپورٹنگ و سینئر صحافی مسعود انور کا کہنا تھا کہ کراچی کے بہت سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹوں کی تعداد میں تضاد ہے، مجھے شکایت ہے کہ میڈیا کو پولنگ اسٹیشن کے اندر کیوں نہیں جانے دیا گیا؟ پولنگ اسٹیشن پر مجموعی طور پر صورت حال درست تھی، کسی بھی پولنگ ایجنٹ کو موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ روزنامہ جنگ کراچی سے وابستہ سینئر فوٹو گرافر سہیل رفیق کا کہنا تھا کہ الیکشن کے روز پولنگ کا عمل سست روی کا شکار تھا، الیکشن کمیشن سندھ کی کارکردگی صفر تھی، اسکول اور کچرا کنڈی سے بیلٹ پیپرز کا ملنا تشویش کا باعث ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ سماء ٹی وی سے وابستہ سینئر رپورٹر اور کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کی مجلس عاملہ کے رکن شعیب جٹ نے کہا کہ الیکشن میں صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش کی گئی اور ابھی بھی غیر اعلانیہ سنسرشپ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے یو جے کی جانب سے الیکشن کے روز صحافیوں کو روکنے پر وائٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔ جیو نیوز سے وابستہ کشمالہ کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے پاس الیکشن کمیشن کا کارڈ ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشن کے اندر جانے سے روکا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن والے دن مجھے تو امیدوار ہوتے ہوئے روکا گیا، میرا بحث کرنا بھی کسی کام نہیں آیا، الیکشن سے قبل ہی ہماری انتخابی مہم کو متاثر کیا گیا، جھنڈے، بینرز اتارے گئے، ہم نے اس صورت حال پر سیاسی جماعتوں اور صوبائی الیکشن کمشنر سے میٹنگ کی، لیکن سب بے سود رہا، بجائے یہ کہ وہ مسئلہ حل کرتے ہم اُن کو تجاویز دیتے رہے، یوسف خٹک نہ جانے کون سی دنیا کی مخلوق ہیں! پولنگ اسکیم میں پہلے سے ہی گڑبڑ کی گئی تھی، اس پر بھی میں تنہا چیختا رہا۔ صحافیوں کے کیمرے بھی اندر نہ جانے دینا کون سی حکمت عملی ہے! جب سب درست تھا تو فوٹیج بنانے دیتے۔ سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ اس الیکشن میں الیکشن کمیشن سے زیادہ فوج اور رینجرز نے وہ کام کیا ہے جو اُن کے کرنے کا نہیں تھا، یہ خود ان کے گلے میں آچکا ہے، فورسز کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ این اے 244 سے ایم ایم اے کے امیدوار زاہد سعید کا کہنا تھا کہ گنتی سے قبل الیکشن بوتھ میں لگے کیمروں کو اتار دیا گیا، ہمیں فارم 45 نہیں دیئے گئے، گنتی مکمل ہونے کے باوجود نتائج نہیں دیئے گئے، فوجی افسران کو نتائج دینے کی کلیرنس نہیں مل رہی تھی، الیکشن2018ء برکت کا الیکشن تھا۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنماء ارشد وہرہ نے کہا کہ کراچی کو الیکشن میں نمبر پورے کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رزلٹ الیکشن سے قبل تیار کیے جاچکے تھے۔ پی ٹی آئی کو کراچی سے 25 فیصد ووٹ ملے جن پر پی ٹی آئی کو شہر کی 14 نشستیں دے دی گئیں۔ صدر کراچی بار ایسوسی ایشن حیدر امام رضوی نے کہا کہ الیکشن کے حوالے سے عدلیہ کا کردار بھی بہتر نہیں تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت تمام وکلا باڈیز الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر چپ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر الیکشن میں ایک نئی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر طارق ابوالحسن نے الیکشن کے دن الیکشن کمیشن کی جانب سے اساتذہ کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا تھا وہ قابلِ مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کے ساتھ غیر مہذبانہ رویّے پر دیگر لوگوں کو بھی آواز اٹھانی چاہیے اور آئندہ اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سینئر صحافی عامرلطیف نے کہا کہ سیمینار میں تحریک انصاف سمیت شہر میں موجود دیگر جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن سندھ کو بھی مدعو کیا گیا تھا، لیکن وہ سیمینار میں شرکت نہ کرسکے۔ کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک کا کہنا تھا کہ کراچی کے صحافیوں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا ہے۔ سیکریٹری مقصود یوسفی نے کامیاب سیمینار کے انعقاد پر کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کو مبارک باد پیش کی اور پروگرام میں شریک مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔