انتخابات2018ء پہلی بار ماحول پُرامن مگر نتائج میں تاخیر نے انتخابات مشکوک بنادیئے

انتخاب عالم سوری
صدرہیومن رائٹس نیٹ ورک کراچی چیپٹر
ملک میں عام انتخابات پُرامن طریقے سے ہوگئے، کسی کو شکست ملی کسی نے فتح اپنے نام کی، کہیں بے ضابطگیاں دیکھی گئیں، کہیں ووٹرکو مشکلات کا سامنا رہا۔ کسی کو سیاسی کیریئر میں پہلی بار بڑی فتح نصیب ہوئی،کسی کو نئے سیاسی کیرئیرکے ساتھ ہی ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ عام انتخابات 2018ء کے موقع پر ہیومن رائٹس نیٹ ورک کی جانب سے انتخابی عمل کی بھرپور مانیٹرنگ کی گئی۔
نیٹ ورک کے الیکشن مانیٹرنگ سیل کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی انتخابات پُرامن ماحول میں ہوئے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیا اور انتخابات میں کامیابی کے لیے بھرپور کاوشیں کیں۔ کراچی میں اِس بار ٹرن آؤٹ 42 فیصدرہا۔ اہل کراچی کو کھل کر حقِ رائے دہی کا موقع ملا۔ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو پہلی بار شہر سے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ 30 سال سے قائم لسانی سیاست کا زور ٹوٹ گیا اور کراچی قومی دھارے میں شامل ہوگیا۔ عام انتخابات 2018ء میں کراچی میں پاکستان تحریک انصاف اپنے کیریئر میں سب سے زیادہ 10لاکھ 5 ہزار644 ووٹ حاصل کرکے پہلے نمبر پررہی۔ ایم کیو ایم پاکستان 6 لاکھ 16ہزار901 ووٹ لے کر دوسرے، تحریک لبیک 3 لاکھ 78 ہزار 221 ووٹ حاصل کرکے تیسرے، پیپلزپارٹی 3 لاکھ 70ہزار 810ووٹ حاصل کرکے چوتھے، ایم ایم اے 3 لاکھ 5 ہزار375 ووٹ حاصل کرکے پانچویں، نواز لیگ 2 لاکھ 61ہزار 156 ووٹ حاصل کرکے چھٹے، پاک سرزمین پارٹی 99 ہزار671 ووٹ لے کر ساتویں، اے این پی 21 ہزار 130ووٹ حاصل کرکے آٹھویں، ایم کیو ایم (حقیقی)18ہزار 599 ووٹ حاصل کرکے نویں نمبر پر رہی۔ ہیومن رائٹس نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق پاک سرزمین پارٹی کو اپنے دعووں کے برعکس مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اورشہر کے کسی حلقے سے ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، جبکہ ایم ایم اے کی کامیابی کی توقعات بھی پوری نہیں ہوسکیں۔ ایم ایم اے سندھ اسمبلی کے لیے لیاری سے ایک نشست حاصل کرسکی۔ کراچی کے شہریوں نے اِس بار خوف و دہشت کے ماحول سے نکل کر ووٹ ڈالے پی ٹی آئی کی کامیابی ایم کیوایم کے خلاف ردعمل ثابت ہوئی۔
پُرسکون ماحول میں الیکشن ہونا شہریوں کے لیے خوش آئند تھا۔ انتخابات میں پاک فوج کی تعیناتی کو بہترین اقدام قرار دیا گیا۔ ہر پولنگ بوتھ میں فوجی جوان کی تعیناتی کو شفاف انتخابی عمل کے لیے اہم سمجھا گیا۔ انتخابات میں جہاں ماحول سازگار اور پُرامن تھا، وہیں بڑی تعداد میں ووٹروں کو پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ شہر کی ووٹرز لسٹوں میں40 فیصد بوگس ووٹ اب بھی موجود تھے، جس کی نشاندہی ہیومن رائٹس نیٹ ورک پہلے بھی کرچکا تھا۔ ووٹ کے لیے گھروں میں جو کارڈ پہنچے اُن میں کئی نام ایسے تھے جو وہاں موجود نہیں تھے، مگران کے نام ووٹر لسٹوں میں موجود تھے جس کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات برقرار تھے۔ بعض پولنگ بوتھ میں بے قاعدگیاں بھی دیکھی گئیں۔ ان پولنگ بوتھ میں سیاہی، اسکیل اور پولنگ کے عمل میں استعمال ہونے والا سامان دستیاب نہیں تھا۔
شہرکے حلقوں این اے 252، این اے256، این اے 247، پی ایس 129، پی ایس 122، پی ایس 100سمیت دیگر انتخابی حلقوں میں نتائج روکے گئے۔ فارم 45،46 فراہم نہیں کیے گئے، بعض پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹس کو نکال دیا گیا۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں میں پولنگ ایجنٹس کو تاخیر سے آمد کا جواز بناکر داخلے سے روکا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بعض مقامات پر مخالف پارٹی کے امیدوار اپنی گاڑیوں پر پارٹی پرچم لگا کر حلقے میں گھومتے اور اپنے امیدوارکو ووٹ دینے کی ترغیب دیتے پائے گئے، جو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تھی۔ کراچی کے انتخابی حلقوں کے نتائج کے اجرا میں 24 گھنٹے سے بھی زائد کی تاخیر کی گئی۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کا عمل تاخیر سے شروع ہونے کی بھی شکایات ملیں۔ رپورٹ کے مطابق فوج کی تعیناتی سے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا تھا، لیکن اس کے باوجود انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی، ایم ایم اے، نواز لیگ، پاک سرزمین پارٹی، ایم کیوایم، تحریک لبیک پاکستان سمیت دیگر جماعتوں نے انتخابات کے نتائج مسترد کردیئے۔
ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے مطابق کراچی شہر میں طویل عرصے بعد تبدیلی دیکھنے کو ملی، اس کی وجوہات کراچی میں وہ عوامی مسائل تھے جو گزشتہ 32 سال سے حل طلب تھے اور اس شہر پر حکمرانی کرنے والوں نے حل نہیں کیے۔ مسائل وہی پرانے اور بنیادی ہیں یعنی صاف پانی کی عدم فراہمی، بجلی کا بحران، صحت وصفائی کا ناقص انتظام اور امن و امان کی خرابی۔ ان ہی بنیادی مسائل کے حل نہ ہونے اور طویل صبرآزما وقت گزارنے کے بعد شہریوں نے تبدیلی کے لیے ووٹ اب اس شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ بنیادی مسائل حل کرے۔ ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے مطابق الیکشن میں دھاندلی کے سوالات ماضی میں بھی اٹھتے رہے ہیں، سو اِس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کیے جائیں۔