یہ امر خوش آئند ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں کتاب کلچر کے فروغ کے لیے آج بھی چھوٹے بڑے متعدد ادارے کوشاں ہیں۔ کتب میلوں میں عوام کی شرکت اور بڑی تعداد میں کتب کی خریداری آج بھی کتاب کی اہمیت کا پتا دیتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے تمام شہروں، قصبوں تک میں لائبریریوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا اور لوگ کتابوں سے مستفید ہوتے تھے، اب یہ تحریک دوبارہ شروع کی جارہی ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن نے سستی اور معیاری کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ ملک بھر میں شروع کررکھا ہے جہاں ریڈرز کلب اور لائبریریوں کو 50 فیصد تک ڈسکائونٹ دیا جاتا ہے۔
پاکستان لائبریری کلب بھی ایک فعال ادارہ ہے جسے ایک چھوٹی سی ٹیم نے 2009ء میں قائم کیا اور جلد ہی اس نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں اور آج اسلام آباد، کوئٹہ، خیبر پختون خوا کے علاوہ ریاض سعودی عرب میں اس کے چیپٹر قائم ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد میں اس کے سہ ماہی پروگرام باقاعدگی سے ہوتے ہیں، بڑی تعداد میں PLC فرینڈز ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری کے پُروقار آڈیٹوریم میں پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن سندھ برانچ، اقراء بک ایجنسی، ہینڈر، گوئٹے انسٹی ٹیوٹ، انٹرنیشنل فیڈیشن آف لائبریری ایسوسی ایشن (افلا)، ایس ایل اے کے تعاون سے سہ روزہ بین الاقوامی لائبریری کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے دن افتتاحی اجلاس صبح ساڑھے نو بجے شروع ہوا، دس بجے ڈائریکٹر PLC ارشد محمود عباسی نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور کانفرنس کے سیشن HEJ آڈیٹوریم کے علاوہ سیمینار روم میں شروع ہوئے جہاں ملکی اور غیر ملکی مندوبین نے سیر حاصل گفتگو کی۔ کانفرنس کے تین سیشن آڈیٹوریم اور چار سیشن سیمینار روم میں منعقد ہوئے۔
کانفرنس میں چار سو سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔ پہلے دن مہمانِ خصوصی معروف علمی، ادبی شخصیت پروفیسر ملاحت کلیم شیروانی جن کے مقالے نہ صرف ملک بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی پذیرائی حاصل کرچکے ہیں، آپ جامعہ کراچی میں لائبریری انفارمیشن سائنس کی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ رہ چکی ہیں، انٹرنیشنل یونی کیئر کی ایگزیکٹو کمیٹی کی منتخب رکن ہیں، اور آج کل مدینۃ الحکمت ہمدرد یونیورسٹی کی لائبریری سے وابستہ ہیں، نے مندوبین میں توصیفی شیلڈز تقسیم کیں۔
غیر ملکی مندوب مس اولیویا (Ms. Olivia) نے کہا کہ دنیا بھر میں لائبریریوں کو ایک اہم مقام حاصل ہے جہاں لوگ صرف کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس طرح کی کانفرنس کا انعقاد بہت اہم ہے کیونکہ پاکستان کے بارے میں ایک منفی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ مجھے پاکستان آکر بہت خوشی ہوئی، پاکستانیوں نے مجھے بہت پیار اور محبت دی ہے۔
مس الزبتھ (Ms. Elizabeth) نے کہا کہ اس طرح کی کانفرنس کے انعقاد سے ہم ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھتے ہیں۔ سینئر اپنے جونیئرز کو بتاتے ہیں کہ کس طرح لائبریریوں میں آنے والے شرکا سے پیش آنا چاہیے اور انھیں ان کی دل چسپی کی ریسرچ میں رہنمائی کرنی چاہیے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ دورِ جدید میں معلومات کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے جس کے ساتھ لائبریریوں کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لائبریریوں کو چاہیے کہ وہ دورِ جدید میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرکے سوسائٹی میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کی انیلا اقبال نے آئندہ بھی تعاون کا یقین دلایا۔ منیرہ انصاری، ڈاکٹر فرحت حسین، ڈاکٹر عالیہ ارشد، طاہرہ یاسمین و دیگر نے بھی اظہار خیال کیا۔
تقریب کے اختتامی سیشن کے مہمان خصوصی آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے کہا کہ آرٹس کونسل، کراچی میں اپنی نئی عمارت میں ایک ماڈرن لائبریری قائم کررہی ہے جس میں آڈیو، وڈیو کے ساتھ کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہوگا، جب کہ اس کو جدید لائبریری بنانے کے لیے جامعہ کراچی اور پاکستان لائبریری کلب سے فنی مدد حاصل کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کتابیں پڑھنے کا کلچر ختم ہورہا ہے، گلی محلوں سے لائبریریاں ختم ہورہی ہیں، ایسے میں یہ کانفرنس بہت اہم ہے، اس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے میں لائبریری کلچر بحال ہوسکے۔ آرٹس کونسل چاہے گی کہ اس طرح کی ایک کانفرنس ہمارے اشتراک سے بھی کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں آج یہاں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود ہوں۔ میں نے کراچی یونیورسٹی میں تین چار سال گزارے ہیں، کراچی یونیورسٹی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔ آج کے دور میں کراچی یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے کیونکہ 45 ہزار سے زائد طلبہ و طالبات یہاں زیر تعلیم ہیں، ایسے میں سابق طالب علموں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنی مادرِ علمی کا خیال رکھیں۔
PLC کے ڈائریکٹر ارشد محمود عباسی نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی، KPK اور ٹیچرز کی کوششوں سے یہ کاوش کامیاب رہی۔ پروفیسر ملاحت کلیم شیروانی اور ڈاکٹر فرحت نے بھی بہت تعاون کیا۔ ہم نومبر، دسمبر میں بھی ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس کی تیاری کررہے ہیں جس میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی مندوبین کو شرکت کے لیے آمادہ کیا جارہا ہے۔ انھوں نے نورالدین مرچنٹ، جو پروگرام کمیٹی کے سربراہ تھے، کو بھی خراج تحسین پیش کیا کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کانفرنس کو سجانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے میڈیا کمیٹی کی ربیعہ علی فریدی اور ان کی ٹیم کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ کانفرنس میں استقبالیہ کیمپ مہمانوںکی رہنمائی کے لیے آخر وقت تک فعال رہا۔ وقفوں کے دوران مہمانوں کی تواضع کے لیے پُرتکلف اہتمام کیا گیا۔
کانفرنس کے آخری دن غیر ملکی مندوبین نے کراچی کی مختلف لائبریریوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر محمد احمد شاہ نے زبیر ضمیر، زارا رحمن، صفیہ امتیاز، ممتاز پرور، راشد علی خواجہ، رضوانہ علی، سہیرالحق، طاہر جان، مہروز عامر، طاہرہ یاسمین، طتہیر فاطمہ، مہوش، محمد انور، عقیل الرحمن، اسلم تنویر، ضیا احمد اعوان، بلال جان، مہوش نایاب، آصف صغیر، پرویز مگسی، نادیہ خالد، محمد برہان، محمد ذیشان، افشاں خان، شیر افضل خان، لیاقت علی رئوف، نعمان اصغر، افشاں طارق، ثنا رحیم، سید نعمان، عامر لطیف، کومل عباسی، عدیل احمد کمبوہ، ثنا نقوی، غلالہ علی، عدنان نظام، عطیہ شاہد، اظہراسحق، شیبا سلطان، سیدہ مازیہ صابر، سعدیہ، حبیب الرحمن، رابعہ جدون، آفاق گوہر، رابعہ ارشد، سرفراز خالد، آصف نواز، گلزار احمد لاکھو، عالیہ وقار، نورالعین، ثمینہ کاردار، ستار رشید اور رابعہ علی فریدی و دیگر کو بھی توصیفی شیلڈ دیں۔ راقم یونی کیئر کے ندیم ہاشمی کا ممنون ہے کہ انھوں نے رہنمائی فرمائی۔