پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھارتی چہروں کی یلغار

پروفیسر عفت گل اعزاز
آج کے دور میں ابلاغِ عامہ نے بڑی ترقی کی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی ڈش انٹینا اور کیبل کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر بہت سے چینل دیکھے جارہے ہیں۔ وطنِِ عزیز کے بہت سے شہروں اور دیہات میں یہ پروگرام دیکھے جارہے ہیں جن میں خبریں، ڈرامے، ٹاک شوز، فلمیں اور اشتہارات شامل ہیں۔ گھروں میں موجود بچے بڑے سب ان سے لطف اُٹھا رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے ٹی وی چینلز پر کچھ ایسے پروگرام دکھائے جارہے ہیں جو پاکستان کے باشعور اور سنجیدہ طبقے کے لیے لمحۂ فکریہ بن چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران اپنی آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں، یا اپنی بے حسی اور بے نیازی سے یہ ظاہر کررہے ہیں کہ اُنہیں پتا ہی نہیں کہ ٹی وی پر کیا کچھ دکھایا جارہا ہے، کیوں دکھایا جارہا ہے اور اس کے اثرات اس قوم پر کیا ہوں گے؟ پاکستان کے کئی چینل دن رات بلا کسی وقفے کے انڈیا کی فضول اور گندی فلمیں دکھارہے ہیں، جن میں فنکار عورتوں کے انتہائی واہیات اور مختصر لباس میں ناچ گانے اور بے حیائی کے سین اس قدر تواتر سے دکھائے جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے ان فلموں کے چلانے والوں نے اس بات کا ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ وہ پاکستان کے ہر بچے اور ہر نوجوان کو بگاڑ کر دم لیں گے۔
انڈیا کے اداکاروں، فنکاروں کو جو ایوارڈ دیے جاتے ہیں ان تقاریب میں ہندو عورتیں ماتھے پر بندیا لگائے مرد فنکاروں سے بے حجابانہ مصافحہ کرتی ہیں، اُن کے ساتھ گاتی ناچتی ہیں۔ یہ تقاریب بعض اوقات براہِ راست (LIVE) دکھائی جاتی ہیں۔ جب ٹی وی آن کرو اُن کے ناچ گانے کے پروگرام آرہے ہوتے ہیں جن میں عورتیں، مرد اور بچے بھی اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بہت سی اشیاء (PRODUCTS) کے اشتہارات میں بھی بھارتی چہرے چھائے ہوئے ہیں۔
تفریح کے نام پر بھارتی اداکاروں، گلوکاروں کی ذاتی خبریں، ان کو Project کرنا، اُن کی تعریفوں کے پل باندھنا اور اُن کے مرنے پر یا اُن کی برسی پر اُن کی فلموں اور گانوں کی جھلکیاں اس زوردار طریقے سے پیش کی جاتی ہیں جیسے یہ سب ہماری قوم کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہوں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟
اُن کے کوئز پروگرام بھی نشر کیے جاتے رہے ہیں جن میں بیشتر سوالات اُن کی تاریخ، مذہب، ثقافت اور اُن کے ماحول کے بارے میں ہوتے ہیں، جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اپنی تاریخ، اپنے مذہب اور اپنی ثقافت کو جان لیں، ہمارے لیے یہی کافی ہے۔
برادر ملک ترکی کے ڈرامے اردو میں ڈبنگ کے ساتھ اور بھارتی ڈرامے ایک نہیں کئی کئی چینلز پر بڑے دھڑلے سے دکھائے جارہے ہیں جس میں اُن کے اپنے لباس، طور طریقے اور اُن کی یورپی طرز کی معاشرت کو پیش کیا جاتا ہے۔ واہیات قسم کی کہانیاں اور بے حجابی اور بے باکی کے مناظر جن کا طرۂ امتیاز ہیں۔
چند سال پہلے بھارتی رہنما سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ’’اب ہمیں پاکستان سے جنگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم نے ثقافت اور معاشرتی محاذ پر اُن کو شکست دے دی ہے‘‘۔
ذرا غور کریں کہ پاکستان کے مختلف چینلز پر ہر وقت بھارتی فلمیں، بھارتی ڈرامے، کوئز شوز، ٹاک شوز، ناچ گانوں کے مقابلے، اُن کے فنکاروں کو ایوارڈز دیے جانے کی LIVE تقریبات کیا ثابت کررہی ہیں؟ کیا واقعی یہ سب چیزیں اتنی ضروری ہیں کہ ان کے بغیر جیسے ہم مرے جارہے ہیں! جس چینل پر دیکھو بھارتی اداکاروں، فنکاروں کا سیلابی ریلا سا آیا ہوا ہے۔ پاکستانی حکومت کا ٹی وی چینلز کو کھلی آزادی دینا کہ جو تمہارا جی چاہے دکھائو، تم پر کوئی پابندی نہیں ہے، اپنے فائدے کی خاطر تم پاکستانی قوم کو میٹھا زہر دے رہے ہو، ہمارے بچے اور بچیاں، لڑکے لڑکیاں بگڑ رہے ہیں، بے حیائی اور بُرے طریقے اختیار کررہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ تم خوش رہو۔ ہمارے دشمنوں کو بھی خوش کرتے رہو، شاباش!
سب جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے۔ مسئلہ کشمیر کو حل نہ کرنا، پاکستان کا پانی لے کر یہاں کی زمینوں کو بنجر کرنے کی ظالمانہ پالیسی اختیار کرنا، اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے سیلاب کا رُخ پاکستان کی طرف موڑ کر یہاں انسانوں اور املاک کی تباہی کرنا، تجارت کے معاملے میں اپنی من مانی کرنا، پاکستان کے خلاف ہر محاذ پر جھوٹا پروپیگنڈا کرنا، یہاں تک کہ دسمبر 2014ء میں انڈیا کے گرائونڈ پر ہاکی میچ جیت جانے پر جب پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی دلی خوشی کا اظہار میدان میں اُچھل کود کرکے کیا تو ہار جانے والے بھارتیوں سے یہ تک برداشت نہ ہوا اور کوتاہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف شور مچانا شروع کردیا۔
عقل اور شعور کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں ہمیں اپنی قومی حمیت اور عزتِ نفس کا خیال رکھنا چاہیے، اور اُن کے ناچنے گانے والوں کو اس قدر سر چڑھانے کی کیا ضرورت ہے! ایسے پروگرام بند کیے جانے چاہئیں۔ اتنی غیرت تو ہونی چاہیے۔
ایک نئی مملکت میں اللہ کی نئی حکومت قائم کرنا اور اُس کے احکامات پر عمل درآمد کرانا اہلِ حکومت کی ذمے داری ہے، اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کی غفلت، بے نیازی اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والا نسلوں کا بگاڑ… سب کچھ اُن کے کھاتے میں جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے اصحاب جن کو بھارت سے محبت کا بخار کچھ زیادہ ہی چڑھا ہوا ہے اور اُن پر ایسی بحرانی کیفیت طاری ہے کہ اُنہیں اپنی قوم کا، اپنی نئی نسل کا نقصان نظر نہیں آتا، اُن کا علاج یہ ہے کہ اُنہیں انڈیا بھیج دیا جائے۔ نئی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کے لیے ضابطۂ اخلاق بنائے اور اُسے رائج کرائے۔