پاکستان، جسے مملکت خداداد کہتے ہیں، اس کے قیام کو 71برس ہوگئے۔ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والوں میں سے شاید ہی اب کوئی بچا ہو اور 1947ء میں پیدا ہونے والی نسل بھی اب 71برس کی ہوگئی۔ اسے کیا یاد کہ پاکستان کن مشکلوں سے گزر کر اور آگ کا دریا پار کر کے بنا تھا اور اس مملکت کے لیے اپنے رب سے کیا کیا وعدے کیے گئے تھے۔ اب تو نئے نئے دانشور اس نعرے پر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہٰ الااللہ ‘‘۔ یہ محض ایک نعرے کا بطلان نہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ وطن عزیز کا حصول خالصتاً معاشی و اقتصادی مقصد کے لیے تھا۔ یہ سیکولراور نام نہاد عناصر ہیں جن کے لیے مذہب کا ہر حوالہ تکلیف دہ ہے۔ چنانچہ جنرل ایوب خان کے دور میں ان دانشوروں نے یہ تجویز پیش کی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نکال دیا جائے۔ لیکن کچھ سمجھ دار مشیروں نے ایوب خان کو یہ ترمیم کرنے سے روک دیا مگر ان دانشوروں کی آل ، اولاد عملاً پاکستان کو اسلامی جمہوریہ تسلیم نہیں کرتی۔ ستم تو یہ ہوا کہ پاکستان نہ تواسلامی جمہوریہ بن سکا اور نہ ہی معاشی اور اقتصادی استحکام حاصل کرسکا۔ گویا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ اس وقت پاکستان کی اقتصادی صورت حال بدترین ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ اس کا الزام فوجی حکومتوں پر رکھ دیں یا سول حکومتوں پر، لیکن زمینی صورت حال یہ ہے کہ اس بربادی میں ہرایک نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ قیام پاکستان کے صرف 11سال بعد 1958 میں فوج نے ملک پر قبضہ کرلیا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ حالاں کہ صرف دو سال پہلے ہی 1956ء میں پاکستان کو پہلا آئین ملاتھا۔ اس وقت حالات بالکل ایسے نہیں تھے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرتی، لیکن ایسا ہی ہوا۔ حالانکہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947ء میں بطور گورنر جنرل ضیافت دی تھی تو چند فوجی افسران کے ایک سوال پر واضح کردیا تھا کہ’’ فوج کا کام سول حکومت کے احکامات کی بجا آوری ہے، اس کے کام میں مداخلت کرنا نہیں‘‘۔ اس کے بعد کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے بھی، جس میں ایوب خان بھی موجود تھے، واضح طور پر کہا کہ’’ فوج سول حکومت کے تابع ہے، اس کا کام حکومت کرنا نہیں‘‘۔ مگر فوج ہمیشہ اس گمان میں رہی کہ پاکستان اسی کے لیے بنا ہے اور وہ ہی سب سے بہتر طریقے سے حکومت سمیت ہر کام کرسکتی ہے۔ آج بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔ 1958ء کے مارشل لا نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی پہلی اینٹ رکھ دی تھی اوربنگالیوں کو دشمنوں نے یہ باور کرایا کہ پاکستان کے دروبست اور حکومتی معاملات میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس خیال کی مشرقی پاکستان میں آباد ہندوؤں نے آبیاری کی۔ مشرقی بازو میں ہندوؤں کا غلبہ تھا حتیٰ کہ بعض تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے والے بھی ہندو تھے۔ ریاست بنگال میں مسلمان ہمیشہ پسماندہ رکھا گیا اور ساری خوشحالی ہندو بنگال کے قبضے میں تھی۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے تقسیم بنگال کا مطالبہ کیا جو انگریز نے تسلیم بھی کرلیا۔ لیکن ہندوؤں کے زبردست احتجاج پر تنسیخ تقسیم بنگال کا فیصلہ ہوا۔ اب وہی بنگالی مسلمان تقسیم پاکستان پر مصر تھے، جس پر 1971ء میں عمل ہوگیا۔ اس سازش میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا بھرپور کردار تھا جس کا اعتراف بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کیا۔ ڈھاکا میں کھڑے ہو کر مودی نے اعلان کیا کہ بنگلا دیش کسی مکتی باہنی نے نہیں بلکہ بھارت کی ایجنسیوں اور فوج نے بنوایا۔ اس کے باوجود بنگالی بھائیوں کی آنکھیں نہیں کھلیں اور وہ ہر سال پاکستان سے آزادی کا دن مناتے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ تو حسینہ واجد کی حکومت ہے جو بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے بلکہ بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کررہی ہیں ۔ انہیں اور بھارت کو بنگلا دیش میں جماعت اسلامی سے خطرہ ہے۔ حسینہ واجد کے والد اور بنگلا بندھو کہلانے والے مجیب الرحمن نے 1973ء میں پاکستان، بھارت اوربنگلا دیش کی قیادت کے ساتھ سہ فریقی معاہدہ کیا تھا کہ 1971ء میں جو کچھ ہوا اس کے حوالے سے کسی پر مقدمہ چلے گا نہ سزا ملے گی۔ لیکن ان کی بیٹی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلا دیش کے ایسے قیمتی افراد کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا جن کا کوئی تعلق 1971ء کی خانہ جنگی سے نہیں تھا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ موجودہ پاکستان کے خلاف بھی مسلسل سازشوں میں مصروف ہے۔ اس کے ایجنٹ پاکستان میں سرگرم ہیں خاص طور پرخیبرپختونخوا اور بلوچستان میں گریٹر بلوچستان کا شوشا گاہے گاہے زندہ کردیا جاتا ہے۔ ایسے میں سرحدی گاندھی کے پیروکار خیبرپختونخوا میں سرگرم ہیں ۔ اس پر مستزاد طالبان پاکستان کے نام سے دہشت گردی پھیلانے والے تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ اس پس منظر اور پیش منظر میں ایک حوصلہ افزا بات یہ ہوئی ہے کہ پاکستان کے متوقع وزیر اعظم عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے ایک وزیر اعظم کی طرح قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنائیں گے۔ اس پر یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ خدا ان کو اپنے اس عزم میں کامیاب کرے۔ لیکن انہوں نے جس قسم کے لوگ اپنے گرد جمع کرلیے ہیں ان کو دیکھ کر تحریک پاکستان کے دوران میں سید مودودیؒ کی یہ بات یاد آتی ہے کہ ’’جس قسم کے لوگ پاکستان کے حصول کی مہم چلا رہے ہیں ان سے توقع نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت بن سکے گا‘‘۔ ان کے یہ خدشات 71برس بعد بھی موجود ہیں ۔ ان مثالات کو لے کر برسوں سے یہ پروپیگنڈا ہو رہاہے کہ سید مودودیؒ اور جماعت اسلامی نے پاکستان کی مخالفت کی تھی حالاں کہ سید نے یہ بھی کہا تھا کہ’’ اگر ایسی ایک گز زمین بھی ہو جہاں اسلام کی حکمرانی ہو تو وہ مجھے قبول ہوگی‘‘۔ اگر سید مودودی پر عاید کردہ الزامات میں کچھ بھی جان ہوتی تو بانی پاکستان سید کو ریڈیو پاکستان سے تقاریر کی اجازت ہرگز نہ دیتے۔ بہرحال یہ مخالفت تو سیاسی نوعیت کی ہے اور ان کی طرف سے سے ہے جنہیں پاکستان کا اسلامی تشخص گوارا نہیں ۔ پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بن کر رہے گا اور یہ وعدہ حالیہ انتخابات میں کسی نہ کسی طرح برتری حاصل کرنے والی جماعت تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے بھی قوم سے کیا ہے کہ پاکستان مدینہ منورہ جیسی ریاست بنے گا۔ انہوں نے تبدیلی لانے کا اعلان کیا ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے انہیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہوگا عمران خان نے بلا امتیاز سب کا احتساب کرنے اور ہر کام میرٹ کی بنیاد پر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کرپشن نے پاکستان کو کھوکھلا کردیا ہے۔ نئی حکومت سے توقع ہے کہ سب سے پہلے اس کی روک تھام کی جائے گی۔ آج پھر پاکستانی قوم 72 واں یوم آزادی منا رہی ہے۔ اب تک یہ دن رسمی طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ جھنڈے لہرانا، جلسے، جلوس، تقریریں وغیرہ اور بس۔ قوم اب بھی منتظر ہے کہ اصل ’’ 14اگست‘‘ اصل یوم آزادی کب آئے گا۔ خدا کرے کہ آج سے اس کا آغاز ہو جائے اور قوم کو سچ مچ کی آزادی میسر آجائے۔