کتاب : باتیں سیاست د انوں کی
مصنف : ضیا شاہد
صفحات : 420 قیمت:1200 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک اسٹاپ والٹن روڈ، لاہور کینٹ
فون نمبر : 0300-0515101, 03008422518
مصنف کا تعارف
معروف صحافی ضیا شاہد گڑھی یاسین ضلع شکارپور (سندھ) میں 4 جنوری 1945ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی شہر جالندھر مشرقی پنجاب ہے۔ ضیا شاہد کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے سابق صدر، روزنامہ ’’خبریں‘‘، ’’نیا اخبار‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور ٹی وی چینل 5 کے سربراہ ہیں۔ اس سے پہلے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے بانی مدیر، روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور کے مشترکہ علاقائی ایڈیٹر، روزنامہ’’ نوائے وقت‘‘ لاہور کے نائب مدیر رہے ہیں۔ قبل ازیں کئی سال تک وہ ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ کے شریک مدیر اور ہفت روزہ ’’صحافت‘‘ کے مدیر، پرنٹر، پبلشر بھی رہے۔ شعبہ صحافت میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں پرویزمشرف کے دور میں اعلیٰ سول اعزاز ستارۂ امتیاز بھی مل چکا ہے، جبکہ سی پی این ای کی طرف سے وزیراعظم نوازشریف کے ہاتھوں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ بطور کالم نویس ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ لاہور، بطور سب ایڈیٹر روزنامہ ’’کوہستان‘‘ لاہور، اور روزنامہ ’’حالات‘‘ لاہور، بطور ایڈیٹر ہفت روزہ ’’آواز پنجاب‘‘ لاہور، بطور چیف ایڈیٹر/ پبلشر روزنامہ ’’خبریں‘‘ لاہور، اسلام آباد، کراچی، ملتان، سکھر، مظفر آباد (آزاد کشمیر)، پشاور… بطور چیف ایگزیکٹو روزنامہ ’’خبرون‘‘ سندھی کراچی، سکھر… بطور چیف ایڈیٹر روزنامہ ’’خبراں‘‘ پنجاب لاہور، کراچی، اسلام آباد… روزنامہ ’’دی پوسٹ‘‘ انگریزی لاہور، اسلام آباد… روزنامہ ’’نیا اخبار‘‘ لاہور، اسلام آباد، ملتان، پشاور رہے۔ وہ رکن پاکستان رائٹرز گلڈ، سابق سینئر نائب صدر اے پی این ایس کراچی، سابق سینئر نائب صدر سی پی این ای کراچی بھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب کے علاوہ مصنف کی دیگر تصانیف میں ’’خون کا سمندر‘‘، ’’چپکے سے‘‘، ’’حیرت ناک کہانیاں‘‘، ’’طوفان کی سرزمین‘‘، ’’جنگِ عظیم کی کہانیاں‘‘، ’’خوفناک کہانیاں‘‘، ’’عقابوں کا نشیمن‘‘، ’’گاندھی کے چیلے‘‘، ’’جمعہ بخیر‘‘، ’’پاکستان کے خلاف سازش اور قائداعظم‘‘، ’’زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات‘‘ شامل ہیں۔
اس کتاب میں ضیا شاہد نے ایوب خان سے لے کر عمران خان تک… حکمرانوں، رہنمائوں اور سیاست دانوں سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ، اُن کے بارے میں اپنی یادوں کا احاطہ اپنے تبصرے کے ساتھ کیا ہے۔ اس کتاب میں ان کی 22 شخصیتوں سے ملاقاتوں اور گفتگو کا ذکر ہے۔
اس کتاب میں بعض شخصیات کے بارے میں چونکا دینے والے حقائق موجود ہیں جو اس سے پہلے کسی کتاب میں پیش نہیں کیے گئے۔ خاص طور پر یحییٰ خان، بھٹو، نواب زادہ نصر اللہ خان، ضیاء الحق، غلام اسحق خان اور امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد، حنیف رامے، خواجہ رفیق، جی اے رحیم، معراج محمد خان اور عمران خان کے بارے میں اہم اور یادگار گفتگو کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔
’’یحییٰ خان کے شب و روز‘‘ کے عنوان سے ضیاء شاہد نے لکھا ہے کہ کشمیر کی جنگ میں وہ بہت بہادری سے لڑے، مالی طور پر کبھی کوئی بدعنوانی نہیں کی، مگر شراب نوشی، بدکاری اور اقتدار کے لیے سب کچھ کر گزرنا اُن کے سیاہ کارنامے ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری حکمران ہیں جنہوں نے تہران کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں سرِعام پیشاب کردیا تھا کیونکہ وہ شراب کے نشے میں چُور تھے۔ ملکہ ترنم نورجہاں، اور اقلیم اختر رانی کے ساتھ جو جنرل رانی کے نام سے مشہور تھیں، یحییٰ خان کے قصے مشہور ہوئے۔
’’ایوب خان سے آخری ملاقات‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ بھٹو کے ذکر پر ایوب خان نے مجھے سندباد جہازی کے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک جزیرے میں ایک منحنی قد کا شیطان (پیر تسمہ پا) صفت آدمی ملتا ہے جو کہتا ہے مجھ سے چلا نہیں جاتا، مجھے اپنی کمر پر سوار کرلو اور تھوڑی دور میرے گھر تک چھوڑ آئو۔ سندباد جہازی جو نیکی کمانا چاہتا ہے اُسے کندھے پر سوار کرلیتا ہے۔ وہ شیطان شخص اس کی گردن کو دبوچ لیتا ہے اور دونوں ٹانگوں سے اس کی کمر کو جکڑ لیتا ہے۔ پھر وہ جزیرے میں اسے لیے لیے پھرتا ہے اور اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ بھٹو کی مثال بھی اس شیطان جیسی ہے، تم اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اسے نجات دہندہ سمجھ رہے ہو، اور حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ تمہاری گردنوں پر مسلط ہوگیا تو تم برس ہا برس روتے رہو گے کیونکہ وہ تمہاری جان نہیں چھوڑے گا۔ ایوب خان نے اس ملاقات میں ضیا شاہد کو بتایا کہ ’’زلفی مجھے ڈیڈی کہتا تھا اور وہ تاشقند کے راز کیا بتائے گا! وہ مداری ہے جو تاشقند کی ڈگڈگی بجاتا ہے۔ پہلے یہ تحقیق تو کرو کو 1965ء کی جنگ اور بھارتی حملہ شروع کرانے میں اس کا اور اس کے سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کا کتنا بڑا ہاتھ تھا، جنہوں نے یہ جھوٹی یقین دہانی کروائی کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ فوج بھی داخل کردے۔ انہیں امریکہ اور دوسری طاقتوں نے یقین دلایا ہے کہ جنگ کشمیر تک محدود رہے گی اور انڈیا پاکستانی بارڈر پر حملہ نہیں کرے گا، یہی تاشقند کا راز ہے اور اپنے مجرم ضمیر کو تسلی دینے کے لیے بھٹو نے ساری قوم کو بے وقوف بنایا ہوا ہے۔ اس تھیلے سے کوئی بلی برآمد نہیں ہوگی، یہ یاد رکھنا۔‘‘
شیخ مجیب الرحمن سے ضیا شاہد نے 1970ء کے انتخابات سے پہلے ایک خصوصی انٹرویو لاہور میں مشہور وکیل برکت علی سلیمی کے بھائی شاکر سلیمی کے گھر پر لیا تھا۔ اس انٹرویو میں شیخ مجیب الرحمن نے کہا کہ ’’الیکشن میں اب صرف ووٹ ڈالنے باقی ہیں۔ آپ نے خبریں پڑھ لی ہوں گی۔ عوامی لیگ اس قدر مقبول ہے کہ اس کے خلاف بات کرنے والے کو عام لوگ اپنا جملہ پورا نہیں کرنے دیتے‘‘۔ میں نے کہا ’’لیکن کسی مخالف پارٹی کو جلسہ نہ کرنے دینا تو جمہوریت کے خلاف بات ہے، کیا یہ طرزِعمل نامناسب نہیں؟ انہوں نے کہا ’’وہ وقت دور نہیں جب عوامی لیگ کے مخالفین کے لیے گھر سے نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ میں تو بہت سمجھاتا ہوں لیکن لڑکے خاص طور پر اسٹوڈنٹس بہت غصے میں ہیں، وہ میری بھی نہیں سنتے‘‘۔
’’شرط ہندو مسلمان کی نہیں، بنگلہ دیشی اور غیربنگلہ دیشی کی ہے۔ مسلمان ہو یا ہندو یا عیسائی… بنگلہ دیشی سب ایک ہیں اور برسوں سے اسلام آباد کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے ہیں‘‘۔ شیخ صاحب کا لہجہ بہت پُرجوش تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود مغربی پاکستان سے زیادہ نمائندگی نہ ملے تو یہ ناممکن ہے، اگر ہمیں ہمارا حق نہ ملا تو نتائج کے ذمے دار آپ خود ہوں گے‘‘۔
’’بھٹو صاحب کے آخری ایام‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں ضیا شاہد لکھتے ہیں ’’بھٹو کے آخری دن کے نام سے ایک کتابچہ بھی میں نے شائع کیا۔ ہفت روزہ ’’صحافت‘‘ میں ’’آخری رات کے مناظر‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا۔ معروف صحافی اور آج کے اینکر غلام حسین کے ساتھ مل کر تارا مسیح کو تلاش کیا اور اس کا خصوصی انٹرویو کیا، جو چھپا تو ’’صحافت‘‘ میں لیکن ’’نوائے وقت‘‘ جیسے مؤقر اخبار نے اسے سپرلیڈ کے طور پر شائع کیا اور رات کو بی بی سی نے اپنے اردو پروگرام ’’سیربین‘‘ میں اسے نشر کیا۔
’’سید مودودی کی نصیحتیں‘‘ میں لکھتے ہیں: خود ہم بھی یہ سمجھتے تھے کہ سید مودودی کی خدمات دین کے حوالے سے تو جو ہوں اُن کی نثر بہت عمدہ تھی، صاف اور سلیس زبان میں وہ مشکل سے مشکل مسئلہ بھی بڑی آسانی سے بیان کردیتے۔ فوجی ادیبوں کے حلقے میں بھی ایک دن یہ بحث چل نکلی کہ آج کل اردو کا سب سے بہتر نثرنگار کون ہے، تو کرنل محمد خان نے مولانا مودودی کو اردو زبان کا اُس زمانے کا بہترین نثرنگار قرار دیا۔
1953ء میں سید مودودی نے انتہائی ہمت اور بہادری سے اپنے گھر سے گرفتاری دی۔ انہوں نے عدالت میں ٹھونک بجاکر کہا کہ احمدی غیرمسلم ہیں اور مجھے اپنی تقریروں یا تحریروں پر کوئی افسوس نہیں۔ عدالت نے سید مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی دونوں کو سزائے موت سنادی۔ تاہم دونوں حضرات نے کسی قسم کا معافی نامہ پیش کرنے سے انکار کردیا۔ اُن دنوں مسئلہ قادیانیت پر سید مودودی کا لکھا ہوا پمفلٹ پاکستان میں بے تحاشا پڑھا گیا۔ چنانچہ عوام کے پُرزور اصرار پر یہ سزائیں ختم کرنا پڑیں۔ پاکستان بننے سے لے کر مودودی صاحب کی وفات تک انہیں متعدد بار سیفٹی ایکٹ اور دوسرے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا اور کئی جیلوں میں انہیں خاصا وقت گزارنا پڑا، لیکن انہوں نے پہاڑ جیسے حوصلے کے ساتھ ہر جیل کاٹی اور اپنے وقار اور احترام میں اضافہ کیا۔
سید مودودی نے 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی ناکامی پر انتہائی صبر و تحمل سے تابڑ توڑ سوالوں کے جواب دیے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان کے نزدیک کامیابی کا تصور یہ ہے کہ جو زندگی اسے امتحان کے لیے ملی اس میں اس کا طرزِعمل کیا تھا۔ اس نے ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا کامیابی حاصل کی اور کیا ناکامی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سوشلزم اسلام کے خلاف ایک دنیاوی نظریہ ہے، جبکہ مسلمان کے لیے دنیا ایک امتحان اور تجربہ گاہ ہے۔ ہمیں الیکشن لڑنا تھا کیونکہ مسلمان قوم کی رہنمائی کے لیے واحد موجود طریقہ کار یہی تھا کہ آپ اس کے ذریعے زیادہ سیٹیں حاصل کرکے حکومت بنائیں، یا اگر ایسا نہیں کرسکتے تو بھی اسمبلیوں میں معقول تعداد کی بنیاد پر ہر غلط کام کو روکیں اور صرف صحیح کام کی حوصلہ افزائی کریں، ہم نے اللہ کے ساتھ جو عہد کیا تھا اسے پورا کیا اور کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ نشستوں پر اپنے لوگ کھڑے کریں اور پھر دیانت داری سے ان کی فکری رہنمائی کریں۔
اس کتاب میں اپنی یادداشتوں کے حوالے سے جن سیاست دانوں کا ذکر ہے ان میں جنرل ضیاء الحق، قاضی حسین احمد، عمران خان، ائرمارشل اصغر خان، نواب زادہ نصراللہ خان، جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان، خواجہ رفیق، غلام مصطفی کھر سمیت کئی بھولی بسری شخصیات بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں اہم مضمون ’’مقبول بٹ شہید کی یاد میں‘‘ ہے۔ مقبول بٹ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کے سپاہی تھے جنہیں بھارتی حکومت نے سزائے موت دی تھی۔ اس مضمون میں گنگا طیارے کے اغوا کے واقعے کے بارے میں اہم معلومات ہیں۔
کتاب اچھے گیٹ اپ میں شائع کی گئی ہے، چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل کتاب میں ہر شخصیت کی آرٹ پیپر پر رنگین تصویر دی گئی ہے۔ بعض واقعات کا ذکر جو دوسروں کے حوالوں سے کیا ہے حقائق کے خلاف ہیں۔ کتاب میں حروف چینی کا معیار اچھا نہیں ہے۔ قیمت بارہ سو روپے رکھی گئی جو زیادہ ہے۔