قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العٰلمینo لاشریک لہٗ و بذالک امرت و انا اوّل المسلمینo (الانعام 6: 162۔163)
’’کہو اے محمدؐ! میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ پروردگارِ عالم کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرماں برداروں میں سب سے پہلے ہوں۔‘‘
اس آیت میں صلوٰۃ کے بعد نُسک کا ذکر ہے جس کے معنی عبادت اور تطوع کے بھی ہیں اور قربانی کے بھی۔ قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر دوسرے ہی معنی کے لیے آیا ہے۔ چنانچہ سورۂ حج میں ہے:
ولکل امۃٍ جعلنا منسکا لیذکرو اسم اللہ علی ما رزقہم من بھیمۃ الانعام (الحج22: 34)
’’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کی ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں بخشے ہیں۔‘‘
اور سورۂ بقرہ میں ہے:
(ترجمہ)’’تو اس کا فدیہ روزوں سے ادا کیا جائے یا صدقہ سے یا قربانی سے۔‘‘ (البقرہ 2: 196)
ان آیات سے نُسک کے معنی متعین ہوگئے۔ اب یہ دیکھیے کہ صلوٰۃ کے ساتھ نُسک کے لیے بھی بذلک امرت(مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد انا اول المسلمین فرمایاگیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ اسی بنا پر حضورؐ نے تمام مستطیع مسلمانوں کو قربانی ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے۔
قربانی کا وجوب
قربانی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے، اور صرف مکے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں، تاکہ وہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر شکریے اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریکِ حال بھی ہوجائیں۔ حج کی سعادت میسر نہ آئی نہ سہی، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا کے مسلمان وہ کام تو کررہے ہوں جو حاجی جوارِ بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود مدینہ طیبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقرِعید کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپؐ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔
ترمذی میں ابن عمرؓ کی روایت ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔‘‘
بخاری میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے روز فرمایا:
’’جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کرلیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اُس کی قربانی پوری ہوگئی اور اُس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا۔‘‘
اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنتِ مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لامحالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے، نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں۔
مسلم میں جابرؓ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بقرعید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپؐ قربانی کرچکے ہیں، اپنی اپنی قربانیاں کرلیں۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کرلی ہے وہ پھر اعادہ کریں۔
پس یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ بقرعید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا بھر میں کرتے ہیں، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت۔ ابراہیمؒ نخعی، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام محمدؒ اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسفؒ بھی، اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سنتِ مسلمین ہے، اور سفیان ثوریؒ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ تاہم علمائے امت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہوکر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اُپچ صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔
(تفہیم القرآن، سوم، ص 229۔230، الحج، حاشیہ 74)
قربانی کے جانور
والبدن جعلنٰاہا لکم من شعآئر اللّٰہ لکم فیہا خیر
(الحج 22:36)
’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے۔ تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے۔‘‘
اصل میں لفظ بدن استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے، اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کرسکتے ہیں۔ مسلم میں جابرؓ بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہوجایا کریں، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گائے سات آدمیوں کے لیے۔
(تفہیم القرآن، سوم، ص 227، الحج، حاشیہ 67)
جانوروں کی تسخیر کا مقصد
’’اُس نے ان کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو۔‘‘ (الحج 22:37)
یہ پھر حکمِ قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ ہے۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے، بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں، اور جس نے انہیں ہمارے لیے مسخر کیا ہے، اس کے حقوقِ مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں، تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ اللّٰہم منک و لک ، خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔