فرقہ بندی

پیشکش ابوسعدی
مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ایک شخص سینے پر ہاتھ باندھتا ہے، دوسرا ناف پر باندھتا ہے۔ ایک شخص امام کے پیچھے فاتحہ پڑھتا ہے، دوسرا نہیں پڑھتا۔ ایک شخص آمین زور سے کہتا ہے۔ دوسرا آہستہ سے کہتا ہے۔ ان میں سے ہر شخص جس طریقے پر چل رہا ہے، یہی سمجھ کر چل رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ اس لیے نماز کی صورتیں مختلف ہونے کے باوجود دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے پیرو ہیں۔ مگر جن ظالموں نے شریعت کے ان مسائل کو دین سمجھ رکھا ہے، انہون نے محض ان ہی طریقوں کے اختلاف کو دین کا اختلاف سمجھ لیا۔ اپنی جماعتیں الگ کرلیں، اپنی مسجدیں الگ کرلیں۔ ایک نے دوسرے کو گالیاںدیں، مسجدوں سے مار مار کر نکال دیا، مقدمے بازیاں کیں، پارٹی بندیاں کیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔
اس سے بھی لڑنے اور لڑانے والوں کے دل ٹھنڈے نہ ہوئے تو چھوٹی چھوٹی باتوں نے ایک دوسرے کو کافر، فاسق اور گمراہ کہنا شروع کردیا۔ ایک شخص حدیث سے ایک بات اپنی سمجھ کے مطابق نکالتا ہے تو وہ اس کو کافی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ اس نے سمجھا ہے اس پر عمل کرے، بلکہ یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ دوسروں سے بھی اپنی سمجھ زبردستی تسلیم کرائے۔ اور اگر وہ اسے تسلیم نہ کرے تو اس کو خدا کے دین سے خارج کردے۔
(دین و شریعت۔ از مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

بھک منگا اور انگریز

سو برس قبل کا واقعہ ہے۔ کوئی فرنگی جامع مسجد دلی دیکھنے آیا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بھک منگے بیٹھے رہتے ہیں۔ ایک بھک منگے نے اس فرنگی کے آگے ہاتھ پھیلایا اور فرنگی نے جیب سے بٹوا نکال کر اسے کچھ دیا۔ بٹوہ جیب میں واپس جانے کے بجائے نیچے گر پڑا اور بھک منگے نے اٹھا لیا۔ تین چار دن بعد وہی فرنگی صاحب پھر تشریف لائے۔ بھک منگے نے انہیں پہچانا اور کہا: ’’اُس دن آپ کا بٹوا گر گیا تھا، لیتے جائیے‘‘۔ فرنگی نے سوال کیا: ’’اس میں اتنی اشرفیاں تھیں، تمہاری نیت نہیں بگڑی؟‘‘ بھک منگے نے جواب دیا: ’’بگڑی تو تھی مگر خیال ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آگے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن جھک جائے گی کہ ان کے امتی نے عیسائی کی اشرفیاں ہتھیا لیں۔‘‘
فرنگی نے فوراً دو اشرفیاں بطور انعام پیش کیں۔ بھک منگے نے انہیں بھی قبول نہیں کیا۔ کہا: ’’اس سلسلے میں انعام قبول کرنا بھی ہمارے پیشوا کو سبک کردے گا۔‘‘
(تاثرات: ملاواحدی)

ادیب کہلانے کا مستحق کون؟

اسلامی فکر کی رو سے وہ شخص جو کتابی مطالعے اور تحریر و تصنیف میں دسترس رکھتا ہو مگر اخلاقی پستی کی طرف جھکا ہوا ہو، اور جس کا کردار انسانی زندگی کی اعلیٰ قدروں کے خلاف ہو، وہ ادیب کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ جو کتابیں پڑھتا ہو، مضامین لکھتا ہو یا شعر کہتا ہو، مگر اعزہ و اقارب کا پاس نہ رکھتا ہو، جو محلہ اور پڑوسی کا بہی خواہ نہ ہو، جو وطن کی حب سے عاری ہو، جو انسانی ہمدردی سے خالی ہو، جس کے قول اور فعل میں تضاد ہو، اور جو اپنی گفتگو، تحریر اور تصنیف میں پست موضوعات اور پست خیالات کی طرف مائل ہو، تو ایسا لکھا پڑھا، ذہین اور ہوشیار مصنف اور مقالہ نگار کہلا سکتا ہے لیکن ادیب نہیں کہلا سکتا۔ اس نے محض کتابی مطالعہ اور معلومات کا بے نتیجہ بوجھ اٹھا رکھا ہے، مگر نہ وہ خود اس سے صحیح معنوں میں مستفید ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘
(ماخوذ از ’’نظریاتی مملکت میں ادیب کا کردار‘‘
از ڈاکٹر نبی بخش بلوچ در کتاب ’’گلشن اردو‘‘ مرتبہ محمد راشد شیخ، صفحہ نمبر46)

عیب

شام کا ایک درویش کپڑا بُن کر روزی کماتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ایک امیر کی فرمائش پر بڑی محنت سے ایک تھان تیار کیا۔ وہ لینے آیا تو یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ اس میں فلاں عیب ہے۔ درویش سرآسمان کی طرف اُٹھا کر بولا: ’’اے رب میں نے یہ کپڑا بڑی محنت سے تیار کیا تھا لیکن اس میں ایک ایسا عیب نکل آیا جو میری نظروں سے نہاں تھا۔ میں گزشتہ ساٹھ برس سے تیرے احکام کی تعمیل کررہا ہوں اور اعمال پر مطمئن ہوں، لیکن اگر کل تُو نے اس امیر کی طرح کوئی ایسا عیب پکڑ لیا جو آج میری نظروں سے نہاں ہے اور میرے اعمال کو مسترد کردیا تو میں کہاں جائوں گا؟‘‘

میں موسیٰ سے بڑا نہیں

ایک شخص مامون (833-813) کے دربار میں گیا اور کہنے لگا کہ میں پیغمبر ہوں۔ پوچھا: کوئی معجزہ؟ اس نے اپنی جیب سے پتھر کے چند ٹکڑے نکال کر پانی میں ڈالے اور وہ پگھل گئے۔ کہنے لگا: یہ ہے معجزہ۔ مامون نے کہا: نہ جانے وہ پتھر کیسے تھے، میں تمہیں پتھر دیتا ہوں انہیں پگھلا کر دکھائو۔ کہنے لگا: جب فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ نے لاٹھی کا سانپ بنایا تھا تو فرعون نے یہ نہیں کہا تھا کہ لاٹھی ہم دیتے ہیں۔ آپ فرعون سے بڑے نہیں اور میں موسیٰ سے بڑا نہیں‘‘۔

زندہ باد پاکستان

اے میرے آباد وطن آزاد پاکستان
زندہ باد پاکستان
تیرے سمندر، تیرے دریا، کہسار و میدان
سلطنت و سامان خدائے پاک کا ہے احسان
تُو ہے پاک امانت جس پر زندگیاں قربان
تجھ پہ نچھاور مال، جان، اولاد پاکستان
زندہ باد پاکستان
چاند ستارہ تیرا پرچم ’’رحمت بار‘‘ نشان
اس پرچم کا سایہ ہم پر لایا امن و امان
خلقِ خدا کا فرد فرد ہے شاد پاکستان
زندہ باد پاکستان
عدل مساوات اور اخوت قوت ہے ایمان
مشرق مغرب دیدہ و دل دونوں ہیں ذی شان
عاصم روا داری پر قائم جمہوری ایوان
کلمۂ طیب استوار بنیاد پاکستان
زندہ باد پاکستان

قومی ترانے کی ایک دھن جب منظور کرلی گئی تو حفیظ صاحب نے اس دھن کے مطابق نیا ترانہ لکھا جو آج کل مروج ہے۔
(اخبارجنگ 14 اگست 2007ء )