وزارتِ عظمیٰ کا امتحان!

ملک میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے، قومی اسمبلی میں کچھ اس طرح سے مینڈیٹ ملا کہ کوئی سیاسی جماعت بھی کُل نشستوں کے 51 فیصد کے مساوی ارکان کی حمایت حاصل نہیں کرسکی ہے۔ یہی صورتِ حال بلوچستان اور پنجاب میں ہے۔ سندھ اور کے پی کے میں ایسی صورتِ حال نہیں، سندھ میں پیپلزپارٹی نے 2013ء کے مقابلے میں بہتر نتائج حاصل کیے ہیں اور یہاں بھی وزارتِ اعلیٰ کا ہما سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے سر پر دوبارہ بٹھا دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں ’’باپ‘‘ (BAP) سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، وہاں روایتی مخلوط حکومت ہی بنے گی۔ اس کی سربراہی کے لیے جام کمال کا نام سامنے آیا ہے جو جام میر غلام قادر آف لسبیلہ کے پوتے اور جام محمد یوسف کے بیٹے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف آمنے سامنے ہیں۔ اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت ہے لیکن پی ٹی آئی سے اس کا فاصلہ بہت کم ہے۔ آزاد ارکان کے ہاتھ میں دونوں کی تقدیر ہے، جب تک حتمی نتائج مرتب نہیں ہوجاتے اُس وقت تک کسی بھی سیاسی جماعت کی پارلیمانی عددی قوت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کام کے لیے الیکشن کمیشن کی کارروائی آخری مرحلے میں ہے، ریٹرننگ افسران نے فارم 49 پر حتمی سرکاری نتائج مرتب کرلیے ہیں، جس کے بعد 7 اگست کو تمام جماعتوں کے ارکان کی کُل تعداد واضح ہوجائے گی۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو 4 اگست تک انتخابی اخراجات سے متعلق گوشوارے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔ کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن اخراجات کے گوشوارے موصول ہونے پر جاری ہوگا۔ 4 اگست تک اخراجات کے گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کا نوٹیفکیشن روک لیا جائے گا۔ نوٹیفکیشن کے بعد آزاد امیدواروں کو 3 دن کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بننا ہوگا۔ یوں7 اگست کو تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان کی کُل تعداد واضح ہوجائے گی، اور 8 اگست کو مخصوص نشستوں پر امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ 9 اگست تک تمام کامیاب امیدواروں کے نوٹیفکیشن جاری ہوجائیں گے، جس کے بعد اسمبلیوں کے اجلاس بلائے جائیں گے، اور قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اراکین حلف اٹھانے کے بعد اسپیکر اور پھر وزیراعظم کا انتخاب کریں گے۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق تحریک انصاف قومی اسمبلی میں 116، مسلم لیگ (ن) 64، پیپلز پارٹی 43 اور ایم ایم اے 12 نشستوں کے ساتھ نمایاں ہیں، جب کہ 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔ تمام نتائج کے بعد ہی پارٹی پوزیشن واضح ہوگی، اس وقت جن نتائج کی بنیاد پر گفتگو ہورہی ہے اس کے مطابق تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے تیاری کیے بیٹھی ہے، جب کہ حمزہ شہباز نے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) نے خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی جماعت (PTI) کے لیے راستہ چھوڑ دیا تھا اور اسے بلامقابلہ حکومت بنانے کا موقع دیا تھا، اسی طرح اب پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریتی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ لیکن دستور کے مطابق وزیراعلیٰ کا انتخاب وزیراعظم ہی کی طرح ایوان کے اندر ہونا ہے، جو وہاں اکثریت ثابت کردے گا، اسی کو گورنر دعوت دے سکے گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سیاست میں کوئی کسی پر رحم نہیں کھاتا، اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے قومی اسمبلی میں چھوٹے گروپوں، حتیٰ کہ یک رکنی سیاسی جماعت کے ساتھ بھی رابطے کررہی ہے اور انہیں اپنے ساتھ ملا رہی ہے تاکہ قومی اسمبلی میں وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں وہ زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کر سکے۔ قومی اسمبلی کا ایوان مجموعی طور پر 342 نشستوں پر مشتمل ہے۔ آئین کے تحت 172ارکان کے ووٹ حاصل کرنے والا سادہ اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوجائے گا،لیکن پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت کا ووٹ وزارت عظمیٰ کے انتخاب کے لیے کافی ہے۔ تاہم 51 فی صد ووٹ لینے کی آئینی شرط کہیں نہیں ہے، اگر وزیراعظم کے کسی امیدوار کو 172 ارکان کی حمایت نہیں ملتی تو پھر کیا ہوگا؟ یہ آئین کے آرٹیکل 91 میں واضح کردیا گیا ہے جس کی رو سے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے سادہ اکثریت چاہیے، تاہم اعتماد کے ووٹ کے لیے اسمبلی کی بھرپور حمایت درکار ہوگی۔ آئین کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے21ویں دن قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ پہلے اجلاس کی صدارت جانے والی قومی اسمبلی کے اسپیکر کریں گے، وہ نومنتخب ارکان سے حلف لیں گے، جس کے بعد اسپیکرکا انتخاب ہوگا، اس کے بعد گزشتہ اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق سبکدوش ہوجائیں گے۔ نومنتخب اسپیکر ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کرائیں گے، اور یوں اسمبلی کی کارروائی مکمل ہوجائے گی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے بھی کُل نشستوں کے 51 فیصد کے مساوی ووٹ لینے کی کوئی شرط آئین میں مقرر نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ حاضر ارکان کی اکثریت جس شخص کو ووٹ دے گی وہ اسپیکر منتخب ہوجائے گا، جس کے فوراً بعد ایوان اپنے وزیراعظم کا انتخاب کرے گا۔ جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی اسی طرح وزرائے اعلیٰ منتخب کیے جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل91(4)کے تحت وزیراعظم کو قومی اسمبلی کی کُل رکنیت 342 نشستوں کے اکثریتی ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ وزیراعظم کو کامیابی کے لیے 172ووٹ درکار ہوں گے، یہ سادہ اکثریت ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے کورم 86 ارکان پر بنتا ہے، اور اس اجلاس میں موجودارکان کی یہ تعداد بھی وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کافی ہے۔ جو امیدوار ایوان کے حاضر ارکان میں سے اکثریتی ووٹ حاصل کرے گا اسے وزیراعظم قرار دے دیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 130میں یہی طریقہ کار وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے دیا گیا ہے۔ اب اگر قومی اسمبلی میںکوئی جماعت 172 ارکان کی سادہ اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو وہ ایوان میں اپنا وزیراعظم منتخب نہیں کرا سکتی۔ 1973ء کے اصل دستور کی وہ دفعات نافذالعمل ہیں، جن کے مطابق وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں اپنا قائد ہاتھ کھڑے کرکے چنتی ہیں، اِس حوالے سے صدر یا گورنر کے پاس ذرہ برابر اختیار بھی نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل191اور130کے پیچھے مقننہ کی یہ منشا نظر آتی ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب پر کوئی تعطل یا آئینی بحران پیدا نہ ہو۔ اب ایک اور سوال زیربحث ہے کہ کیا مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے کسی رکن اسمبلی کو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ منتخب کیا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل130میں کوئی پابندی عائد نہیں ہے، اس آرٹیکل کے تحت صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنے میں سے کسی کو بھی وزیراعلیٰ منتخب کرسکتے ہیں، تاہم وزیراعظم کے انتخاب کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 91(3)کے تحت یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ قومی اسمبلی کے ارکان اپنے میں سے کسی ایک مسلم رکن کو وزیراعظم منتخب کریں گے۔ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان وزیراعظم منتخب نہیں ہوسکتے۔ آئین کے تحت غیر مسلم وزیراعظم نہیں بن سکتا، تاہم وزیراعلیٰ کے لیے مذہب کی کوئی شرط نہیں ہے۔ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والے تمام ارکان وزارتِ اعلیٰ کے الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں اور واضح اکثریت لے کر یہ عہدہ بھی سنبھال سکتے ہیں۔
مرکز میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کے پاس اس وقت مطلوب ارکان کی تعداد پوری ہے۔ تحریک انصاف کے پی کے میں تنہا اور بلوچستان میں مخلوط حکومت کے لیے تیار ہے۔ پنجاب میں گھمسان کی جنگ جاری ہے اور یہ بازی پلٹ بھی سکتی ہے۔ فی الحال تو مسلم لیگ(ق) اور تحریک انصاف میں جو فارمولا طے پایا ہے اُس کے مطابق پرویزالٰہی مرکز کی دونوں نشستیں چھوڑ رہے ہیں اور وہ پنجاب اسمبلی میںاسپیکر ہوں گے۔ پنجاب میں حالیہ انتخابات کے نتائج کچھ اس طرح کے آئے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے لیے نومنتخب آزاد اراکین کی حمایت کے بغیر حکومت بنانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ حکومت سازی کے مقابلے میں پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتیں متحد ہورہی ہیں، اور وہ جارحانہ مزاج کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی تیاری بھی کررہی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر شہبازشریف اور ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مشترکہ طور پر اے پی سی بلائی جس کا اجلاس اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ شہبازشریف سمیت ہر مہمان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔ کانفرنس میں غور ہوا کہ حلف لیا جائے یا نہ لیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کی رائے تھی کہ حلف نہ لیا جائے، تاہم اے پی سی میں شریک دیگر تمام جماعتوں نے حلف لینے کی حمایت کی اور پارلیمنٹ میں جارحانہ اپوزیشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپوزیشن کا یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، اسے انتخابی نتائج پر جو بھی تحفظات ہیں، پارلیمنٹ میں جاکر پورے ثبوت کے ساتھ اپنا مؤقف بیان کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ کو اپنا ہم نوا بنانا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج پر بہت تشویش اور تحفظات ہیں، اَن گنت شکایات بھی ہیں، لیکن اس کا حل بائیکاٹ نہیں ہے، انہیں پارلیمنٹ میں جاکر گنتی کے دوران جو کچھ ہوا، اس پر کھل کر ثبوت کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔ الیکشن کمیشن کے نتائج سے متعلق سسٹم، رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (RTS) پر فنی دلائل کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے، اس کے بغیرانتخابی نتائج کی ساکھ قائم نہیں ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان، سیکریٹری اور چیف الیکشن کمشنر اپنی گفتگو سے فریق بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور اپیل کررہے ہیں کہ نتائج تسلیم کیے جائیں۔ ملکی انتخابی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ سولہ لاکھ ووٹ مسترد ہوئے ہیں، بلیٹ پیپرز پر متعدد امیدواروں کے ناموں پر پینسل سے نشان لگے ہوئے ملے، بیلٹ پیپرز اور بکس گلیوں اور نالوں سے ملے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحب زادی آصفہ زرداری نے انتخابات 2018ء میں بدترین دھاندلی کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا کردار کسی مہرے سے زیاد ہ نہیں تھا، الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہا۔ آصفہ زرداری نے کہا کہ انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی، پولنگ ایجنٹس کو نکالنے سے نتائج روکنے تک سارے پردے فاش ہوئے۔ یہ وہ سوالات ہیں جنہیں ضرور زیر بحث لانا ہوگا، البتہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ شکایات کا ازالہ کسی ایجی ٹیشن کے بجائے قانون کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) اور چھوٹے گروپ مل کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی تیاری کریں۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطلب یہی ہے کہ ووٹ کا فیصلہ تسلیم کیا جائے۔ عمران خان نے انتخاب جیتنے کے بعد اپنی نشری تقریر میں اپنی جو ترجیحات بیان کی ہیں اُن پر اپوزیشن اپنا بھرپور مؤقف پیش کرے۔اپنی نشری تقریر میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھارت سے اچھے تعلقات کی بات کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا۔ انہوں نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو صراحت کی، حزب اختلاف دلائل کے ساتھ ان کے مؤقف کو رد کرے یا قبول کرے۔
عام انتخابات کے بعد پاکستان میں سعودی عرب، ایران، چین کے سفیروں نے عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان کے دورے کی دعوت دی ہے، بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی فون کیا۔ سعودی عرب اور ایران کے سفیروں کی ملاقات اگرچہ دوطرفہ امور کے حوالے سے تھی لیکن دونوں ملکوں کے اپنے سیاسی مفادات بھی ہیں، یہ ان ملاقاتوں میں بھی نظر آئے۔ چینی حکومت کی توجہ سی پیک پر ہے، آج کل یہی اس کا مرکزی نکتہ ہے۔ اگلے ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہونے والا ہے، عمران خان اس اجلاس میں پہلی بار حکومتِ پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے خطاب کریں گے۔ اس موقع پر عمران خان سے عالمی رہنمائوں کی ایک بہت بڑی تعداد ملاقات کی متمنی ہے۔ یہ ملاقاتیں عمران خان اور ان کی پالیسیوں کو سمجھنے کی حد تک ہوں گی۔ دفتر خارجہ کے اہم ترین اور اہم ڈیسک پر فرائض انجام دینے والے سفارتی ماہرین سے جب فرائیڈے اسپیشل نے اس حوالے سے استفسار کیا تو جواب ملا کہ ہماری خارجہ پالیسی اقوام عالم میں امن کے قیام کی کوششوں کی حمایت اور عالمی برادری کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کے علاوہ کسی ملک میں بھی عدم مداخلت کی پالیسی پر مبنی ہے۔ یہ پالیسی آج سے نہیں شروع دن سے چلی آرہی ہے، لہٰذا ان ماہرین کی اس گفتگو کے بعد یہ یقین رکھنا ہوگا کہ تبدیلی ابھی آنی ہے، آئی نہیں۔

قومی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ

حالیہ عام انتخابات میں تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت رہی، جس کے پلیٹ فارم پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والے امیدواروں نے ایک کروڑ 68 لاکھ 58 ہزار 900 ووٹ حاصل کیے۔ مسلم لیگ (ن) قومی سطح پر دوسری سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی جس نے ایک کروڑ 28 لاکھ 96 ہزار 356 ووٹ لیے۔ پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر رہی جس نے 69 لاکھ 815 ووٹ حاصل کیے۔ قومی اسمبلی کے حلقوں میں آزاد امیدواروں کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں کی تعداد 60 لاکھ 18 ہزار 181 رہی۔ متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں نے 25 لاکھ 41 ہزار 514، جبکہ تحریک لبیک پاکستان نے 21 لاکھ 91 ہزار 685 ووٹ حاصل کیے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو 12 لاکھ 57 ہزار 351 ووٹ ملے، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے 8 لاکھ 8 ہزار 229، اور متحدہ قومی موومنٹ نے 7 لاکھ 29 ہزار 767 ووٹ لیے۔ مسلم لیگ (ق) کو قومی اسمبلی کے حلقوں میں 5 لاکھ 15 ہزار 258 ووٹ حاصل ہوئے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کو 3 لاکھ 17 ہزار 290 ووٹ ملے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے 2 لاکھ 15 ہزار 589 ووٹ حاصل کیے، جبکہ اللہ اکبر تحریک کے امیدواروں کو ایک لاکھ 71 ہزار 587 ووٹ مل سکے۔ حالیہ عام انتخابات میں ملک بھر میں مذہبی جماعتوں کو مجموعی طور پر 46 لاکھ 74 ہزار 545 ووٹ پڑے۔ مذہبی جماعتوں کو صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ ووٹ ملے جن کی تعداد 18 لاکھ 59 ہزار 198 ہے۔ پنجاب کے بعد خیبرپختون خوا نے مذہبی جماعتوں کو سب سے زیادہ ووٹ دیے۔ خیبر پختون خوا میں این اے 1 سے این اے 51 تک مذہبی جماعتوں نے 13 لاکھ 47 ہزار 367 ووٹ لیے۔ صوبہ سندھ میں این اے 196 سے این اے 256 تک مذہبی جماعتوں نے 11 لاکھ 24 ہزار 47، جبکہ بلوچستان میں این اے 257 سے 272 تک 3 لاکھ 4 ہزار 129 ووٹ حاصل کیے۔ اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے مذہبی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 39 ہزار 804 ہے۔