ناقص انتخابی نظام، انتخابی نظام کی اصلاح وقت کی ضرورت ہے

جولائی 2018ء کے انتخابات اس قدر متنازع ہوجائیں گے اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ اتنے شدید تنازعے کے بعد ملک کے سیاسی حالات کا منظرنامہ کیا بننے جارہا ہے اس کی بھی کسی کو کچھ خبر نہیں۔ سرِدست صرف اندازے اور قیاس آرائیاں ہیں۔ کیوں کہ فیصلہ ساز ابھی کچھ اور کاموں میں مصروف ہیں۔ ابھی جوڑتوڑ ہورہا ہے۔ حکومت سازی کے لیے وہ سب کچھ ہورہا ہے جس پر ماضی میں شدید تنقید ہوتی تھی۔ اور جو ماضی میں یہ سب کچھ کرتے تھے آج شدید تنقید کررہے ہیں۔ مرکز میں سب سے بڑی جماعت دعووں کے باوجود تاحال اپنے نمبر پورے نہیں کرسکی۔ پنجاب میں اگرچہ سب سے بڑی پارٹی شدید مایوسی میں ہے لیکن دوسرے نمبر کی جماعت بھی تاحال واضح زائچہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت مرکز اور پنجاب میں حکومت تو بنا لے گی لیکن فیصلہ سازوں کی منتوں سماجتوں کے بعد ہی۔ دوسری جانب آزاد ارکان پر کامیابی کے نوٹیفکیشن کے تین دن کے اندر اندر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی جو مضحکہ خیز قانونی پابندی ہے اُس نے آزاد ارکان کو زیادہ اور حکومت بنانے کی خواہش مند جماعتوں کو نسبتاً کم پریشان کررکھا ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں جو شخص ملک کی تمام جماعتوں کے امیدواروں کو ہرا کر قومی یا کسی صوبائی اسمبلی میں پہنچا ہے اُس کے حلقے کے ووٹرز نے تو اپنا فیصلہ ان سیاسی جماعتوں کے خلاف دیا ہے۔ اب آپ قانون کے تحت اُسے ان ہی میں سے سیاسی جماعت کسی باقاعدہ شامل ہو پر مجبور کررہے ہیں۔ یہ اس حلقے کے مینڈیٹ کے منافی ہے کہ جو شخص چار دن قبل تک جس سیاسی جماعت کے خلاف زہر اگلتا پھر رہا تھا اب اسی میں شامل ہونے پر مجبور ہے۔ چنانچہ تقریباً سو فیصد آزاد ارکان حکومت بنانے والی جماعت میں ہی شامل ہوتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں جو آزاد ارکان جیتے تھے وہ قومی اسمبلی میں آزاد گروپ کی حیثیت سے پانچ سال تک سردار شیر باز خان مزاری کی قیادت میں کام کرتے رہے۔ اس طرح ان ارکان نے اپنے مینڈیٹ کا بھی احترام کیا اور اسمبلی میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دانشور حلقوں کا خیال ہے کہ اس قانون کو ختم کردینا چاہیے اور آزاد ارکان کو اسمبلی میں اسی حیثیت میں بیٹھنے پر مجبور کرنا چاہیے تاکہ وہ آزادی سے جس معاملے پر حکومت کی حمایت کرنا چاہیں، کردیں… اور جس معاملے پر اس کی مخالفت کرنا چاہیں، آزادی سے کریں ۔
حالیہ انتخابات کے نتائج کو مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم ایم اے، جی ڈی اے، اے این پی، تحریک لبیک یارسول اللہ، ایم کیو ایم، پی ایس پی اور دیگر تمام جماعتوں نے مسترد کیا ہے، اور اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اب نون لیگ، پیپلز پارٹی، ایم ایم اے اور اے این پی کا گرینڈ الائنس بھی بن گیا ہے۔ 2013ء میں جیتنے والوں نے بھی نتائج کو مسترد کیا تھا، لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے دو اتحادی نتائج کو مان رہے ہیں جبکہ باقی تمام جماعتیں ان انتخابات کو دھاندلی قرار دے رہی ہیں ۔ 1977ء کے انتخابی نتائج کو حکمران جماعت نے تو قبول کیا تھا لیکن اپوزیشن کے بڑے اتحاد پی این اے نے انہیں مسترد کرتے ہوئے تحریک چلائی تھی۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کو بھی بہت سی سیاسی جماعتوں نے نہیں مانا تھا۔ ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی نتائج کو نہ ماننے سے پورے انتخابات کی ساکھ ہی متاثر ہوکر رہ جاتی ہے اور اس سے ملک میں سیاسی استحکام کے بجائے بے یقینی اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہوتی ہے اور ایسے میں عوام میں مایوسی بڑھتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب اس انتخابی نظام کی خرابیوں کا جائزہ لے کر اس پورے نظام کی اصلاح کی جائے۔اگر ملک کے چار انتخابات کو سیاسی جماعتوں اور قوم کی اکثریت نے مسترد کیا ہو اور ہر بار دھاندلی کا غوغا اُٹھا ہو تو نظامِ انتخاب کی اصلاح تو کرنا پڑے گی۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد سیاسی اور دانشور حلقوں کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس نظام انتخاب سے اگلے 200 سال تک کوئی تبدیلی اور بہتری نہیں آسکتی۔ اس نظام میں صرف بینی فشری جماعت کو اقتدار میں کچھ حصہ مل جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد اسے نکال کر کسی اور کو اقتدار میں حصہ دے دیا جاتا ہے۔ حقیقتاً اس نظام انتخاب میں عوام کی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ پورا نظام اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں ہے اور اس پر الیکٹ ایبلز اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قابض ہوچکے ہیں۔ ذرا اعداد و شمار پر غور کریں تو ہوش خطا ہوجائیں کہ یہ کس قسم کا انتخابی نظام ہے جو اپنے دعوے کی حد تک بھی ڈیلیور کرنے سے قاصر ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی 21,27,42,631 ہے۔ اس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی شامل نہیں ہے۔ ان 21 کروڑ سے زائد افراد کی نمائندگی کے لیے قومی اسمبلی کے 272 حلقے بنائے گئے ہیں۔ اس طرح ایک ایم این اے 7,82,142 افراد کی نمائندگی کرتا ہے۔ جب کہ مخصوص نشستوں پر آنے والے افراد پورے ملک کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔ جب سے ترقیاتی کام قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے حوالے کیے گئے ہیں اُن کا عوام سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوگیا ہے تاکہ وہ اُن کی ضروریات کے مطابق منصوبے بنا سکیں، اُن کے مسائل سن کر اُن کو حل کرنے کی کوشش کریں اور اپنے حلقے کے لوگوں سے اپنے تعلق کے اظہار کے لیے اُن کی خوشی غمی میں علامتی ہی سہی، شرکت کرسکیں۔ اب ذرا خوفناک صورتِ حال ملاحظہ فرمائیں کہ 7 لاکھ 82 ہزار لوگوں کے حلقے سے منتخب ایم این اے کو پورے پانچ سال مل جائیں اور وہ کسی چھٹی کے بغیر روزانہ اپنے ووٹرز سے ملنا چاہے تو وہ اگر پورے پانچ سال 7 گھنٹے روزانہ یہ کام کرے تو اپنے حلقے کے ہر شخص کو پورے پانچ سال میں صرف ایک منٹ دے پائے گا۔ اب اس معاملے کو ذرا آسان انداز میں دیکھیں۔ 2018ء کے انتخابات کے لیے ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کُل تعداد 10,59,60,000 ہے۔ اس طرح اوسطاً ایک قومی حلقے میں ووٹرز کی تعداد 3,89,558 بنتی ہے۔ ایک ایم این اے کسی ناغہ کے بغیر7 گھنٹے روزانہ بیٹھے تو ایک ووٹر کو پورے پانچ سال میں صرف ساڑھے تین منٹ دے پائے گا۔ اس طرح یہ نظام عوام کی نمائندگی تو کیا کرے گا یہ تو منتخب شخص اور شہری یا ووٹر کے درمیان مجموعی رابطے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ اسی لیے 7، 8 لاکھ کے حلقے کے بمشکل پانچ دس ہزار افراد پانچ سال کے عرصے میں اپنے ایم این اے سے براہِ راست رابطہ کرسکتے ہیں۔ باقی کے لیے براہِ راست رابطہ ممکن ہی نہیں ہے، تو یہ عوام کی نمائندگی کا نظام کیسے ہوگیا؟ اس کا واحد حل یہ ہے کہ یا تو حلقے چھوٹے کردیے جائیں، یا ارکانِ اسمبلی صرف قانون سازی کا کام کریں، انہیں عوام سے کچہریاں لگاکر یا بالمشافہ ملاقاتیں کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ رقبے کے حوالے سے شہروں کی گنجان آبادیوں میں حلقے کم رقبے پر محیط ہوتے ہیں لیکن دیہی حلقے خصوصاً پہاڑی علاقوں کے حلقے میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر آپ کسی تیز رفتار گاڑی پر شہر کے کسی حلقے کی تمام آبادیوں سے گزرنا چاہیں تو اس میں 8 سے 10 گھنٹے لگتے ہیں۔ دیہی و پہاڑی علاقوں میں یہ وقت مزید بڑھ جائے گا۔ اس لیے زیادہ متحرک ارکان اپنے حلقے کی دوچار آبادیوں میں کوئی عوامی کچہری لگاکر یہ ضرورت پوری کرلیتے ہیں، ورنہ شاید شہری علاقوں کی تمام آبادیوں میں پانچ سال میں ایک دو بار جانا بھی رکن کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اسے اگر پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں 350 سے 500 تک پولنگ اسٹیشن بنتے ہیں، اگر منتخب رکن ایک پولنگ اسٹیشن کے علاقے میں ایک دن کچھ وقت گزارنا چاہے تو دوبارہ اس آبادی کا نمبر بمشکل ایک سال بعد آئے گا۔ اس طرح رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بٹے ہوئے انتخابی حلقوں میں کوئی رکن چاہے بھی تو ہر گائوں، گوٹھ یا پاکٹ کو وقت نہیں دے سکتا۔ اب اس انتخابی نظام کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستان کی 21 کروڑ 27 لاکھ 42 ہزار کی کُل آبادی میں صرف ایک کروڑ 46 لاکھ افراد ٹیکس فائلر ہیں۔ انتخابی امیدوار کے لیے چونکہ اخراجات کی زیادہ سے زیادہ حد 40 لاکھ روپے ہے اس لیے ہر امیدوار کے لیے ٹیکس دہندہ یا ٹیکس فائلر ہونا ضروری ہوگیا ہے۔ اب یہ تمام امیدوار اُن پونے بیس کروڑ کی نمائندگی کرنے اسمبلیوں میں جارہے ہیں جو ٹیکس تک نہیں دے سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس ملک میں چالیس لاکھ کے اخراجات سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا ممکن ہی نہیں رہا۔ گزشتہ حکومت کے آخری دور میں جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اُن میں ایک ایک امیدوار کا 30 سے 40 کروڑ روپیہ خرچ ہوا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ 40 کروڑ سے جیتنے والے اُن لوگوں کی نمائندگی کررہے ہیں جو 40 روپے کا ٹیکس بھی نہیں دے سکتے۔
(جاری ہے)