خیبر پختون خوا کی وزارتِ اعلیٰ تاج کس کے سر سجے گا؟

میڈیا میں زیرگردش اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ اور گورنر کے ناموں پر اتفاق کرلیا ہے البتہ پارٹی میں ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے فی الحال ان ناموں کو صیغۂ راز میں رکھا جا رہا ہے۔ باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کے لیے سابق صوبائی وزیر تعلیم اور عمران خان کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے محمد عاطف خان، اور گورنر کے لیے سابق چیف سیکریٹری ارباب شہزاد کے نام سامنے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں سے تحریک انصاف کی مرکزی اور صوبائی قیادت کے مابین وزارتِ اعلیٰ کی کرسی سے متعلق مسلسل افواہیں گردش کررہی ہیں اور وزیراعلیٰ کے لیے مختلف نام لیے جارہے ہیں، تاہم گزشتہ روز باخبر ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو جو ایک قومی اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے کامیاب ہوچکے ہیں اور جو صوبے میں بطور وزیراعلیٰ خدمات انجام دینے کی خواہش کا مسلسل اظہار کرتے رہے ہیں، وفاقی کابینہ کا حصہ بننے پر آمادہ کرلیا ہے اور وہ ممکنہ طور پر وفاقی وزیرِ داخلہ ہوسکتے ہیں۔ اگر پرویز خٹک وفاقی وزیر داخلہ بننے میں کامیاب ہوگئے تو اس طرح وہ خان عبدالقیوم خان، اسلم خٹک، نصیر اللہ بابر اور آفتاب شیرپائو کے بعد خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے پانچویں اور نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے نصیراللہ بابر کے بعد دوسرے رکن قومی اسمبلی ہوں گے جنہیں اس اہم منصب پر تعینات ہونا نصیب ہوگا۔ پرویز خٹک کو وفاق میں ذمے داریاں ملنے کی اطلاعات کے بعد خیبر پختون خوا کے وزیرِاعلیٰ کے عہدے کے لیے عاطف خان پہلے نمبر پر آگئے ہیں، جب کہ ان کے ساتھ اس دوڑ میں اب بھی سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر جو قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کرچکے ہیں، کے علاوہ پشاور کے دو صوبائی حلقوں پی کے 70 اور پی کے71 سے کامیاب ہونے والے سابق صوبائی وزیر اطلاعات و تعلقاتِ عامہ شاہ فرمان خان، اور سوات سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب قرار پانے والے ڈاکٹر حیدر خان کا نام بھی لیا جاتا رہا ہے۔ دوسری جانب وزارتِ اعلیٰ کے مضبوط امیدوار امیدوار محمد عاطف خان نے بنی گالہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے لیڈر عمران خان ہیں اور وزارتِ اعلیٰ کے لیے عمران خان جس نام کا بھی فیصلہ کریں گے وہ اس فیصلے کو ماننے کے پابند ہیں۔
میڈیا میں محمد عاطف کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی کی خبر چلتے ہی مردان کے کالج چوک میں تحریک انصاف کے درجنوں کارکنان نے جمع ہوکر خوشی میں بھنگڑے ڈالے اور دکان داران سمیت راہ گیروں میں مٹھائیاں تقسیم کیں، اور اس خبر پر آتش بازی کے ذریعے جشن منایا، تاہم تحریک انصاف کے مرکزی میڈیا نے بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے لیے تاحال کسی کو وزیراعلیٰ نامزد نہیں کیا گیا ہے، اس حوالے سے زیرگردش تمام اطلاعات قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی کابینہ کے ارکان کی نامزدگیوں سے میڈیا کو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خان خٹک نے واضح کیا ہے کہ تحریک انصاف میںکوئی اختلاف یا گروپ بندی نہیں ہے، پارٹی چیئرمین عمران خان وزیراعلیٰ کے لیے جس کا بھی انتخاب کریں گے وہ آنکھیں بند کرکے پارٹی چیئرمین کا فیصلہ قبول کریں گے۔ پرویز خٹک نے اسلام آباد روانگی سے قبل اپنی رہائش گاہ پر موجود میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق اسپیکر خیبرپختون خوا اسمبلی اسد قیصر نے خیبر پختون خوا کے نومنتخب اراکین اسمبلی کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جس میں پچاس سے زائدارکان صوبائی اسمبلی نے شرکت کی، یہ کوئی پریشر گروپ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان کو اعتماد میں لے کر ارکانِ اسمبلی کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ پرویز خان خٹک نے کہا کہ بعض لو گ میرے حوالے سے غلط خبریں چلا رہے ہیں اور میرا میڈیا ٹرائل کررہے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے لیے ابھی تک کوئی نام فائنل نہیں ہوا ہے، جو کچھ ہوگا میری مشاورت سے ہوگا، وزیراعلیٰ کا فیصلہ عمران خان کریں گے، اور سب فیصلے صوبے اور ملک کے مفاد میں کریں گے۔ پرویز خٹک نے کہا کہ بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ملک کی موجودہ صورت حال، مرکز، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حکومتوں کی تشکیل کے حوالے سے اہم بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ اسد عمر اور جہانگیرترین کی گزشتہ روز تفصیلی بات چیت ہوئی، انہوں نے مجھے صدر مملکت، اسپیکر قومی اسمبلی اور وفاقی وزارت کی پیشکش کی مگر میں نے انہیں واضح طور پر کہاکہ میں ایک سیاسی آدمی ہوں اور عوام میں رہنا پسند کرتا ہوں، اور میری عوامی سیاست کی بدولت صوبے میں پارٹی کو بہت پذیرائی ملی، صوبائی ارکانِ اسمبلی کی کثیر تعداد بھی یہی چاہتی ہے کہ میں صوبے میں اپنا کردار ادا کروں۔ پرویز خٹک نے کہا کہ انہوں نے صوبے میں رہنے کی درخواست کی ہے، باقی حتمی فیصلہ عمران خان کا ہوگا۔ واضح رہے کہ میڈیا سے اس گفتگو کے دوران اُن کے ہمراہ اسپیکر خیبرپختون خوا اسمبلی اسد قیصر اور شاہ فرمان بھی موجود تھے جو اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں کم از کم خیبر پختون خوا کی حد تک واضح اختلافات پائے جاتے ہیں جن کا اظہار سابق حکومت کے دوران بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے۔ اس حوالے سے پرویز خٹک، اسد قیصر اور شاہ فرمان کے ایک طرف ہونے، اور عاطف خان اور شہرام ترکئی کے پرویز خٹک مخالف گروپ میں ہونے کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔ یاد رہے کہ عاطف خان کے پاس وزارتِ تعلیم اور شہرام ترکئی کے پاس صحت جیسی بڑی اور اہم وزارتیں ہونے، نیز عمران خان کی قربت اور ان دونوں کی رشتہ داری کے باعث بھی پرویز خٹک ان دونوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں، اور اب ان کے یہ خدشات خیبر پختون خوا میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ کلین سوئپ کرنے کے باوجود وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ سے انہیں ان کی خواہش اور مرضی کے برخلاف ممکنہ طور پر باہر کیے جانے کی اطلاعات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں جس پر پرویز خٹک کی جانب سے پچاس ایم پی ایز کے ساتھ اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کے اشارے کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
دریں اثناء 25 جولائی کو خیبر پختون خوا میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا کے دور افتادہ اور پسماندہ ترین ضلع چترال میں مرد و خواتین نے 60 فیصد سے زائد کی شرح سے ووٹ پول کرکے دیگر اضلاع پر سبقت حاصل کی ہے، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مرد و خواتین کے ووٹ پول کرنے کی شرح سب سے کم یعنی صرف30 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اطلاعات کے مطابق چترال میں خواتین نے سب سے زیادہ 61 فیصد کی شرح سے ووٹ پول کرکے مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ واضح رہے کہ چترال میں خواتین کے ووٹوں کی شرح صوبے کے دیگر اضلاع میں مرد و خواتین کے ووٹ پول کرنے کی شرح سے زیادہ ثابت ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق چترال میں خواتین کے ووٹوں کی شرح61.57 فیصد جبکہ مردوں کے ووٹوں کی شرح 60.49 فیصد ریکارڈ کی گئی جو صوبے کے دیگر اضلاع کی نسبت سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح سوات کے این اے 2 میں مرد و خواتین کے ووٹوں کی شرح43 فیصد، این اے3 سوات میں 40 فیصد، این اے4 سوات میں39 فیصد، این اے 5 اپر دیر میں 48 فیصد، این اے6 لوئر دیر میں 48 فیصد، این اے7 لوئر دیر میں44 فیصد، این اے 8 ملاکنڈ میں48 فیصد، این اے9 بونیر میں40 فیصد، این اے 10شانگلہ میں 34 فیصد، این اے 11کوہستان میں 40 فیصد، این اے12بٹگرام میں35فیصد، این اے 13مانسہرہ میں49 فیصد، این اے14مانسہرہ کم تورغر میں41 فیصد، این اے 15 ایبٹ آباد میں50 فیصد، این اے16 ایبٹ آباد میں 49 فیصد، این اے17ہری پور میں 52 فیصد، این اے 18صوابی میں 43 فیصد، این اے19 صوابی میں45 فیصد، این اے 20 مردان میں45 فیصد، این اے21 مردان میں45 فیصد، این اے 22 مردان میں51فیصد، این اے 23 چارسدہ میں 42 فیصد، این اے 24 چارسدہ میں 45 فیصد، این اے25 نوشہرہ میں48 فیصد، این اے 26 نوشہرہ میں49 فیصد، این اے27 پشاور میں 45 فیصد، این اے 28 پشاور میں44 فیصد، این اے29 پشاور میں 40 فیصد، این اے 30 پشاور میں40 فیصد، این اے31 پشاور میں39 فیصد، این اے 32کوہاٹ میں38 فیصد، این اے 33 ہنگو میں 29 فیصد، این اے 34 کرک میں49 فیصد، این اے35 بنوں میں 42 فیصد، این اے 36 لکی مروت میں 50فیصد، این اے37 ٹانک میں54 فیصد، این اے 38 ڈیرہ اسماعیل خان میں 54 فیصد اوراین اے 39 ڈیرہ اسماعیل خان میں 30 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح قبائلی ضلع این اے40 باجوڑ میں40 فیصد، قبائلی ضلع این اے41 باجوڑ میں 38 فیصد، قبائلی ضلع این اے42 مہمند میں 36 فیصد، قبائلی ضلع این اے43 خیبر میں 37 فیصد، قبائلی ضلع این اے 44خیبر میں 25 فیصد، قبائلی ضلع این اے45 لوئر کرم میں 34فیصد، قبائلی ضلع این اے 46 اپر کرم میں 43 فیصد، قبائلی ضلع این اے 47 اورکزئی میں 32 فیصد، قبائلی ضلع این اے 48 شمالی وزیرستان میں 23فیصد، قبائلی ضلع این اے49 جنوبی وزیرستان میں 15فیصد، قبائلی ضلع این اے50 جنوبی وزیرستان میں 33 فیصد اور ایف آر این اے51 میں41 فیصد ووٹوں کی شرح سامنے آئی ہے جسے 2013ء کی شرح کی نسبت خاصا حوصلہ بتایا جارہا ہے۔
ان تمام تر اعداد وشمار اور مرکز سمیت صوبے میں حکومت سازی کی دوڑ دھوپ، دھڑے بندیوں اور بلند بانگ دعووں اور اعلانات کے شور میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا اس تمام تر مشق اور اربوں روپے کے کثیر اخراجات کے باوجود کیا ہمارے عوام کا مروجہ فرسودہ انتخابی نظام اور اس نظام کے بطن سے جنم لینے والی کمزور اور اپاہج لولی لنگڑی جمہوری مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر اعتماد بحال ہوسکے گا؟ دراصل یہی وہ ون ملین ڈالر کا سوال ہے جس کا جواب ریاست کے اُن تمام اداروں پر قرض ہے جو نہ صرف اس نظام کی پیداوار ہیں بلکہ جن کے وجود اور بقا کا تمام تر انحصار بھی اسی بوسیدہ نظام کی مرہونِ منت ہے۔