انتخابی کامیابی کے بعد پہلی تقریر میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جہاں اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کے خدوخال کا سرسری جائزہ پیش کیا، وہیں انہوں نے بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کی دعوت بھی دی۔ عمران خان نے دونوں ملکوں کے درمیان الزامات کی روایت و سیاست کو ختم کرنے کی بات بھی کی، اور بھارت کے ساتھ تجارت اور خوش گوار تعلقات کو برصغیر کے خوش حال مستقبل کے لیے ناگزیر بھی قرار دیا۔ انہوں نے کشمیریوں کی مشکلات اور تکالیف، اور وہاں فوجی جمائو اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکرکرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کو مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی دعوت بھی دی۔
عمران خان کی دعوت کے جواب میں بھارت کے سرکاری حلقوں میں مکمل خاموشی ہے۔ شاید بھارتی حکومت اور میڈیا ابھی اس حوالے سے ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ کانگریس سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر اور سفارت کار مانی شنکر آئر نے بھارت کو مذاکرات کا آغاز کرنے کا مشور ہ دیا۔ بھارتی میڈیا نے عمران خان کی جو شبیہ بنانے اور اپنے عوام کو دکھانے کی کوشش کی تھی اُسے خود عمران خان نے شکوے کے انداز میں بالی وڈ کی فلموں کے ولن کے مماثل قرار دیا۔ بھارتی میڈیا یہ تاثر دے رہا تھا کہ عمران خان چونکہ فوج کے ساتھ اچھے تعلقات کی شہرت رکھتے ہیں اس لیے اُن کا حکومت میں آنا بھارت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ مغربی میڈیا نے گزشتہ دہائیوں میں عمران خان کو ’’طالبان خان‘‘ کہہ کر اُن کا ایک سخت گیر امیج بنایا تھا۔ اس سخت گیر امیج کے ساتھ بھارت اور مغرب کا میڈیا اسلام آباد کی شاہراہ ِ دستور سے ایک اور ’’ٹرمپ‘‘کے ظہور کی امید لگائے بیٹھا تھا۔ یوں بھی قومی سیاست میں عمران خان ایک تند خو اور مخالفین پر تابڑ توڑ حملوں کی شوقین شخصیت کی پہچان رکھتے تھے۔ ان کی پہلی تقریر سے پاکستان کے منتخب ایوانوں سے ایک اور ’’ٹرمپ‘‘کے اُبھرنے کا خدشہ غلط ثابت ہوا اور انہوں نے اندرونی اور بیرونی طاقتوں، ہمسایوں اور دور دیس والوں سب کی جانب ایک شاخِ زیتون اچھال کر دنیا کو حیرت میں مبتلا کردیا۔ عمران خان نے داخلی اور خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے متوازن مگر مشکل خیالات کا اظہار کیا۔ بھارت کو مذاکرات کی دعوت کے ساتھ ہی انہوں نے کشمیری عوام کی قربانیوں اور تکالیف کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔
مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں بھارت سے تعلقات پاکستان کے ہر حکمران کے لیے تنی ہوئی رسّی کا سفر رہا ہے۔ بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کوئی جرم نہیں۔ یوں بھی جب اقتدار سنبھالنے والے کسی حکمران کو معاشی ترقی کی رکاوٹوں کی بریفنگ ملتی ہے تو پاس پڑوس کے تعلقات کی خرابی فطری طور پر ایک اہم وجہ قرار پاتی ہے۔ اس لیے پاکستان کے ہر حکمران کے دل میں ہمسایہ ملک کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کی کلی پھوٹتی رہتی ہے، مگر خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب مسئلہ کشمیرکو طاق میں رکھ کر موسم، کھیل، ثقافت اور کھانوں پر بات چیت شروع ہوجاتی ہے۔ جب کوئی حکمران کشمیریوں کی قربانیوں اور طویل جدوجہد کو نظرانداز کرکے بھارت سے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے تو خرابی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کا مقبوضہ کشمیر میں وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا۔ میرواعظ مولوی عمر فاروق سے سید علی گیلانی، ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے محبوبہ مفتی تک ہر شخصیت نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کی دعوتِ مذاکرات کا بھارت ہوش مندی سے جواب دے گا اس کا امکان کم ہی ہے۔کشمیر میں پھنسا ہوا بھارت اب بھی اٹوٹ انگ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس کے باوجود بھارتی حکمرانوں اور میڈیا کے لیے عمران خان کی دعوتِ مذاکرات ایک غیر متوقع صورتِ حال ہے۔ یہ صرف عمران خان کی ہی نہیں، پاکستان کی سیاسی قوتوں اور ہیئتِ مقتدرہ کی مشترکہ پیشکش ہے، کیونکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کئی مواقع پر بھارت کو اچھے تعلقات کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل کی دعوت دے چکے ہیں۔ بھارت کا میڈیا ابھی عمران خان کو فوج کے ہاتھوں میں ایک مظلوم سویلین حکمران ثابت کرے گا۔ جوں جوں عمران خان اس تاثر کو جھٹکنے کے لیے کچھ اقدامات اُٹھائیں گے توانہیں ٹارزن بننے کی ہلہ شیری دی جائے گی۔ محمد خان جونیجو سے نوازشریف تک یہ کھیل ہر سویلین حکمران کے ساتھ کھیلا جاتا رہا۔ اس حکمت عملی کا ایک ثبوت بھارتی اخبار کی یہ سرخی ہے ” Between Imran and India hangs the shadow of Pakistan army”۔ اول تو’’عمران خان اور بھارت‘‘ کی اصطلاح ہی بے تُکی ہے، جبکہ درست اصطلاح پاکستان اور بھارت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر کوئی سایہ ہے تو وہ ایک نہیں دو ہیں، اور وہ دونوں طرف کی فوجیں ہیں جو خود کو اسٹرے ٹیجک معاملات سے بوجوہ الگ نہیں کرپائیں۔ پاکستان اور کشمیر سمیت کئی اہم اسٹرے ٹیجک معاملات میں بھارت کی فوج کا رول بھی کچھ کم نہیں۔ کشمیر پر من موہن پرویزمشرف مذاکرات کو سمجھوتے تک نہ پہنچنے دینے والوں میں بھارت کی فوج کا پورا پورا ہاتھ تھا کہ جس نے کشمیر میں اپنی موجودگی اور تعداد کو کم کرنے سے صاف انکارکیا، بلکہ حیلوں بہانوں سے فوج کی تعداد بڑھانا شروع کردی تھی۔ راجیو گاندھی خالصتان تحریک پر ریلیف حاصل کرنے کے بدلے بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاچن سے فوج کی واپسی کا وعدہ کر گئے تھے۔ اسلام آباد سے دہلی واپس پہنچتے ہی فوج نے اس کمٹمنٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا اور راجیو گاندھی نے بے نظیر بھٹو سے اپنی معذوری کا اظہار کرکے کہا تھا کہ فوج نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی چلی گئیں، اور یوں پاکستان میں جوابی ردعمل کا آغاز ہوگیا۔
توقع تو یہی ہے کہ مغربی اور بھارتی میڈیا کے کارٹونوں اور طنزیہ مضامین کی بنیاد پر عمران خان’’ٹارزن‘‘ نہیں بنیں گے۔ وہ اسپیس حاصل کرنے کا وہ غلط راستہ نہیں چنیں گے جس نے پاکستان کی تاریخ، جمہوریت، جمہوری شخصیات اور حکمرانوں کو شکستہ برتنوں اور کرچیوں کا ٹھیلا بنا رکھا ہے۔ فوج اور حکومت کو پوری ہم آہنگی کے ساتھ اس تنی ہوئی رسّی پر سفر کرنا ہوگا، بلکہ دونوں فریقوں کو طبقاتی مؤقف کو آگے بڑھانے اور ایک دوسرے پر مسلط کرنے کے بجائے پاکستان کے مؤقف پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے وادی کشمیر کے عوام کے لیے بہتر مستقبل کی کوئی راہ تلاش کرتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ ’’وادیٔ کشمیر‘‘ اس وقت ایک آتش فشاں بن کر اُبل رہی ہے۔ اس وادی میں مزاحمت بھی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا زور بھی۔ جب ہم وادی کشمیر کی بات کرتے ہیں تو اس میں ایک Win Win صورتِ حال (سب کی جیت) کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ جس طرح مغرب اور بھارت کی توقعات کے برعکس شاہراہِ دستور سے ایک ٹرمپ نہیں اُبھر سکا اسی طرح ایک مہم جو ٹارزن بھی نہیں اُبھرنا چاہیے۔