بلوچستان میں عام انتخابات 2018ء میں حقِ رائے دہی کا آغاز کوئٹہ میں خودکش حملے سے ہوا، جہاں حلقہ پی بی31کے شہری جو پولنگ اسٹیشن کے باہر انتخابی کیمپوں کے گرد موجود تھے لقمہ اجل بن گئے، متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ نشانہ پولیس کا کانوائے بھی تھا جس میں ڈی آئی جی عبدالرزاق چیمہ شامل تھے۔ پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔ چنانچہ یہ خونیں منظرنامہ انتخابات کے شور وغوغا میں ایسا دب گیا کہ پھر برقی ذرائع ابلاغ پر پٹی تک نہ دیکھی گئی کہ جو مرے وہ کون تھے، کہاں تدفین ہوئی، اور جو زخمی ہوئے اُن کا علاج کہاں اور کیسے ہورہا ہے۔ بعد از انتخابات یہ سب سے بڑا المیہ ہے۔ جس قوم کا مجموعی طرزعمل اس نوعیت کا ہو وہ دہشت گردی اور مشکلات سے کیسے نبرد آزما ہوگی؟ اس سانحے کے بعد نہ عمران خان کو آمد کی توفیق ہوئی، نہ شہبازشریف و بلاول بھٹو آئے۔ نگران وزیراعظم معلوم نہیں کہاں مصروف تھے؟ یہاں تک کہ فوج کے سپہ سالار نے بھی توجہ نہ دی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ دہشت گردوں نے کوئٹہ یا صوبے کے کسی دوسرے مقام کو نشانہ نہیں بنایا ورنہ اس سے بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔دہشت گردی کی ہولناک واردات کے باوجود انتخابات تکمیل کو پہنچ گئے۔
بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 اورصوبائی کی 50 نشستوں پر عوام نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی 51 عمومی نشستیں ہیں۔ سراج رئیسانی کے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے کے بعد اس حلقے پر انتخاب نہ ہوسکا۔ قومی اسمبلی کے کئی حلقوں پر نتائج کے اجراء میں حیرت انگیز طور پر تاخیر ہوئی۔ ان انتخابات میں نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کا صفایا ہوگیا۔ پشتون خوا میپ محض صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ پی بی31 کوئٹہ پر کامیابی حاصل کرسکی۔ خود محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی کے حلقہ 265کوئٹہ سٹی پر شکست کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ اپنے آبائی ضلع قلعہ عبداللہ کی نشست این اے263 پر بھی ناکامی سے دوچار ہوئے۔ ایم ایم اے (جے یو آئی) قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کامیاب ہوکر سرفہرست رہی۔ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی4 اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے 3 نشستیں حاصل کیں۔ خود سردار اختر مینگل این اے 269 خضدار اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی40 خضدار پر کامیاب ہوئے۔ محمد اسلم بھوتانی این اے 272 پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف این اے 265 اور این اے261 جعفرآباد کی نشستیں جیت گئی۔ صوبائی اسمبلی میں BAP نے 15نشستیں حاصل کیں۔ بعد ازاں آزاد امیدواروں ژوب سے مٹھا خان کاکڑ، دکی سے سردار مسعود خان لونی، اور چاغی سے منتخب ہونے والے عارف محمد حسنی نے شمولیت اختیار کرلی۔ یوں یہ جماعت 18کی عددی اکثریت کی حامل ٹھیری ہے۔ یعنی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کے طور پر اُبھری ہے۔ ایم ایم اے (جے یو آئی ف) 8 نشستیں حاصل کرکے دوسری بڑی پارٹی بنی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے 7 امیدوار کامیاب ہوئے۔ تحریک انصاف نے بھی حیران کن طور پر 5 امیدوارکامیاب کرائے۔ سچی بات یہ ہے کہ حلقہ پی بی1موسیٰ خیل کم شیرانی سے اس کے امیدوار سردار بابر خان موسیٰ خیل کا کامیاب ہونا حیرت میں مبتلا کردینے والا ہے۔ بہرحال عوامی نیشنل پارٹی قلعہ عبداللہ کے حلقہ پی بی21 اور حلقہ پی بی23 پر کامیاب ہوئی۔ اسی طرح کوئٹہ کے حلقہ پی بی24 پر بھی اس کا امیدوار کامیاب ہوا، یعنی اس پارٹی نے تین نشستیں حاصل کرلیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے 2 نشستیں حاصل کیں۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی بھی 2 نشستیں جیت کر پہلی بار اسمبلی میں پہنچی ہے۔ نون لیگ کے نواب ثناء اللہ زہری خضدار سے صوبائی نشست پر کامیاب ٹھیرے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی میر نعمت اللہ زہری آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ یاد رہے کہ سابق وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ بھی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ چنانچہ اب مرحلہ حکومت سازی کا ہے جس کے لیے بی این پی، بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) اور تحریک انصاف جتن کررہی ہیں۔ تاہم بی اے پی کی حکومت بننے کے امکانات روشن دکھائی دے رہے ہیں،کیونکہ اب تک عوامی نیشنل پارٹی، بی این پی عوامی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اُس کی حمایت کرچکی ہے۔ ممکن ہے تحریک انصاف بھی اس کے ساتھ شریکِ اقتدار ہو۔ تادم ِتحریر ایم ایم اے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہیں۔ بی این پی اپنی حکومت بنانے کی مساعی کررہی ہے، البتہ سردار اختر مینگل اپنی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے، اور ایسا ممکن نہ ہوا تو شاید وہ بی اے پی کی حکومت کا حصہ بنیں۔ سردار اختر مینگل نے31جولائی کو کوئٹہ میں وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پہلے خود حکومت بنانے کی کوشش کرے گی اور اس سلسلے میں وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں جنہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہے، اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی بیان دیا ہے کہ وہ بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے ہمارا ساتھ دیں گے۔ اگر بی اے پی کو اکثریت حاصل ہے تو بی این پی بھی اقلیتی جماعت نہیں ہے۔ ہمارے بی اے پی کے اندر، باقی جماعتوں اور آزاد ارکان سے بھی رابطے ہیں۔ 1988ء سے پارلیمانی سیاست میں ہوں۔ نمبر گیم میں نمبر تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ بلوچستان میں ایک رکن والی جماعت کا بھی وزیراعلیٰ آیا ہے، ہمارے ارکان کی تعداد تو پھر بھی سات ہے اور ہمارے ساتھ اور بھی ’’سات‘‘ ہیں۔‘‘ سردار اختر مینگل نے یہ بھی کہا کہ ’’1970ء میں جس طرح لوگوں کا جذبہ نیشنل عوامی پارٹی(نیپ) کے لیے تھا اسی طرح2018ء کے انتخابات میں لوگ کوئٹہ سے لے کر حب اور جیونی سے لے کر دالبندین تک بی این پی کے لیے باہر نکلے۔ عوام نے بی این پی کو جو مینڈیٹ دیا وہ انتخابی نتائج میں نظر نہیں آیا۔ بی این پی سے جو مینڈیٹ چھینا گیا وہ بلوچستان عوامی پارٹی کو دیا گیا‘‘۔
بہرحال آئندہ تین چار دن میں مطلع مزید صاف ہوجائے گا۔ ان انتخابات میں ایک خاندان کے دو دو افراد بھی کامیاب ہوئے ہیں، جیسے این اے260 پر مگسی خاندان کے نواب زادہ خالد مگسی اور حلقہ پی بی16پر ان کے چھوٹے بھائی طارق مگسی کامیاب ہوئے۔ نواب بگٹی خاندان کی بھی اسمبلی میں واپسی ہوئی ہے۔ چنانچہ نواب زادہ شاہ زین بگٹی این اے259 اور بھائی گہرام بگٹی پی بی10پر کامیاب ہوئے ہیں۔ گہرام بگٹی نے سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو10ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ این اے 272 پر اسلم بھوتانی اور پی بی49 پر اُن کے بڑے بھائی سردار صالح بھوتانی کامیاب ہوئے۔ نواب ثناء اللہ زہری پی بی38 خضدار اور چھوٹے بھائی نعمت اللہ زہری پی بی 36 سوراب سے جیتے ہیں۔ ژوب کے حلقہ پی بی2 پر آزاد امیدوار مٹھا خان کاکڑ نے 6 بار رکن اسمبلی رہنے والے مسلم لیگ (ق) کے صوبائی صدر جعفر خان مندوخیل کو شکست دی۔ جعفر خان مندوخیل نے شکست کے بعد اپنے بیان میں قرار دیا کہ انہیں اسمبلی میں پنجاب میں پشتونوں پر مظالم کے خلاف آواز اٹھانے، نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت ملک میں موجود نہ ہونے، اور بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل نہ ہونے کی سزا دی گئی۔ خاران کے حلقے پی بی42 پر بی این پی کے سابق سینیٹر ثناء بلوچ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے عبدالکریم نوشیروانی کو شکست دی۔ کریم نوشیروانی اور ان کے بیٹے یہ نشست 1985ء سے اب تک پانچ بار جیت چکے تھے۔ پشتون خوا میپ کے رہنما سابق اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال کو ہرنائی زیارت کی نشست پی بی6 پر بلوچستان عوامی پارٹی کے نور محمد دمڑ نے شکست دی۔
بلوچستان اسمبلی کے نومنتخب ارکان میں 20 ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ پارلیمان کا حصہ بنے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے سب سے تجربہ کار ارکان میں سردار صالح محمد بھوتانی اور نواب ثناء اللہ زہری شامل ہیں۔ دونوں 1985ء سے اب تک ساتویں بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔