جماعت اسلامی اپنی نظریاتی شناخت کی حفاظت کرے گی
انتخابات کے بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا پالیسی بیان
اسلامی پاکستان ایک نظریاتی، اسلامی اور جمہوری جماعت ہے، جو اسلامی نظام اور اسلامی تہذیب کو پُرامن، آئینی، جمہوری اور کُھلی جدوجہد اور رائے عامّ کی تبدیلی کے ذریعے قائم کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
25 جولائی 2018ء کو ملک میں گیارہویں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے دینی سیاسی جماعتوں کے انتخابی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘کے پلیٹ فارم سے، اِن میں حصہ لیا۔ ہم نے ملک بھر سے چُن کر صاف ستھرے، پڑھے لکھے، باکردار، دیانت دار، باصلاحیت اور بے لوث خدمت گزار امیدواران قوم کے سامنے پیش کیے تاکہ آخرت میں ہماری قوم کا کوئی فرد یہ نہ کہہ سکے کہ اُس کے سامنے کوئی بہتر امیدوار جسے وہ ووٹ دے سکے، موجود ہی نہیں تھا۔ ہم اپنی یہ ذمے داری ادا کرکے اپنے رب کے ہاں بری الذمّہ ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
ہمارے عزیز و عظیم ملک میں عام انتخابات کا مسلسل اور بروقت انعقاد ہمارے ملک و ملّت کی سلامتی اور استحکام کے لیے بے حد ضروری بھی ہے، اور خوش آئند بھی۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شُکرگزار ہیں کہ اِن گئے گزرے، اور ہمارے لیے ناموزوں حالات میں بھی ایم ایم اے کو 25 لاکھ سے زائد اور دیگر دینی جماعتوں کو ملاکر، 55 لاکھ سے زائد ووٹوں ملے۔ اِس موقع پر موجود ہر طرح کی ترغیب، لالچ، دھن، دھونس، دباؤ، پروپیگنڈے اور تعصبات کے ماحول میں بھی جنہوں نے ہمیں ووٹ دیا، ہم اُن کے شکر گزار اور احسان مند ہیں۔ ان شاء اللہ، ہم اپنی بساط بھر کوشش کریں گے کہ اُن کی امیدوں پر پورے اُتریں۔
ہماری یہ بھی خواہش اور کوشش رہی ہے کہ تمام دینی سیاسی جماعتیں متحد ہوں تاکہ اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں اُن کی عددی قوت مسلسل بڑھتی رہے۔ ہم آئندہ بھی مِلّی اتحاد و اتفاق کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالیہ انتخابات سے قبل ایک سوچے سمجھے اور طے شدہ منصوبے کے تحت کس طرح ریاستی زور و قوت اور قومی وسائل کا استعمال کرکے سیاسی وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں۔ یک طرفہ اِبلاغی دُھند پھیلا کر، اور میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے سیاسی میدان میں ہیجان برپا کیا گیا۔ Perception-management اور رائے عامہ کی Mis-feeding کی مدد سے من پسند نتائج حاصل کرنے کا بھرپور انتظام کیا گیا۔ اس زبردست منصوبہ بندی اور اِس درجہ اہتمام کی مثال ملنا مشکل ہے۔
اسی طرح قومی سیاسی قیادت کو منظر سے ہٹانے کے لیے الیکشن کے دن، مخصوص حلقوں میں، اور من پسند امیدواروں کو منتخب قرار دلوانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ سیکڑوں پولنگ اسٹیشنوں پر ریاستی اداروں کی ساکھ اور قوت اور سرکاری مشینری کے زور پر پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکالا گیا۔ فارم 45 روک کر، یا غیر معمولی تاخیر کرکے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ یہ تماشا بھی ہوتا رہا کہ کبھی ایک کی، اور کبھی دوسرے کی فتح کا اعلان کیا جاتا۔
یقیناً ہر جگہ ایسا نہیں ہواٍ اِسی لیے عام شہریوں کو اِس طرح کی اندھیر نگری کا مُشاہدہ نہیں ہوسکا۔ لیکن منصوبہ سازوں کی فہرست میں جن حلقوں یا پولنگ اسٹیشنوں کو نشان زَد کیا گیا تھا، وہاں ایسا ہی ہوا۔ وہاں تعیینات پولنگ ایجنٹس اور پولنگ کے عملہ کو دباؤ میں، اور خوف زدہ رکھا گیا۔
جس بُری طرح اور بے ڈھنگے پَن سے مطلوب نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اُس نے انتخاب کے سارے پراسس کو مشکوک، داغ دار اور بے اعتبار کردیا ہے، جو ملک و ملّت کے لیے مُثبت اور صحت مند بات ہرگز نہیں۔
انتخابی عمل میں کی جانے والی جبری بے قاعدگیوں نے خود الیکشن کمیشن، نگران حکومتوں اور ریاستی اداروں کو بھی قومی تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
جماعت اسلامی اپنے مزاج کے لحاظ سے ایک جمہوری، عوامی، اعتدال پسند اور پرامن سیاسی جماعت ہے۔ مَیں اِس کا امیر ہوں، میں نے جلدبازی میں کوئی موقف دیا اور نہ جذباتی بیان بازی کی۔ انتخابات کے بعد پانچ دن تک اپنا موقف پیش نہیں کیا، تاہم حالات پر گہری نظر رکھی، اپنے رُفقاء سے معلومات حاصل کیں، خود اپنے انتخابی حلقے میں بہت کچھ دیکھا اور ذاتی تجربے سے گزرا۔ اِس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں اور قائدین سے رابطہ بھی رکھا۔
29 جولائی کو لاہور میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کیا۔ مجلس عاملہ نے مسلسل سولہ گھنٹے انتخابات، کرم فرماؤں کی کارستانیوں، اعلان شدہ نتائج، اُن کے مضمرات، پیدا شدہ صورت حال اور مستقبل کے حالات پر بھرپور غور و خوض کیا۔
میں آپ کے توسط سےجماعت اسلامی پاکستان اور متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں اور کارکنان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پورے جماعتی وقار، قانون پسندی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاس داری کے ساتھ عام انتخابات میں خوش دِلی سے حصہ لیا، ایک بھرپور انتخابی مہم چلائی، اسلامی و خوشحال پاکستان کے لیے، اپنا پیغام عوام تک پہنچایا، تمام تر مشکلات، درپیش رکاوٹوں، میڈیا کی معنی خیز بے اعتنائی اور اپنے قلیل وسائل کے باوجود حریفوں کا بساط بھر مقابلہ کیا، اُن کی محنت اور کاوش کے نتیجے میں ایم ایم اے نےپورے ملک سے، 25 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔
جماعت اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ نادیدہ قوتوں کی دل چسپی، جانب داری اور مداخلت نے مُلکی رائے عامّہ اور انتخابی فضا کو متاثر کیا۔ رائے عامہ کے تجزیوں میں اگرچہ تحریک انصاف کو فوقیت حاصل تھی مگر اِس قدر بھی نہیں۔
زبان زدِ عام مہربانوں کی غیر ضروری، غیر قانونی، غیر حکیمانہ اور جارحانہ مداخلت نےجیتنے والوں کو بھی پریشان اور شرمسار کردیا ہے۔ جمہوریت کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر جمہوریت کی روح نکالنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ آمریت کے مقابلے میں لنگڑی لولی جمہوریت بھی بہتر ہے۔ ہم عوامی رائے کا احترام کرتے ہیں، اس لیے انتخابات 2018ء پر اپنے شدید تحفظات کے باوجود ہمارا موقف ہے کہ جمہوریت کے تسلسل، پارلیمان کی عمل داری اور سول حکومت کی برقراری کے لیے نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ قوم کے بہت بڑے حصّے نے ”تبدیلی“ اور ”کرپشن سے نجات“ کے بیانیہ کو تسلیم اور عمران خان صاحب کے ”اسلامی، جمہوری اور فلاحی پاکستان“ کے وعدے پر اعتبار کیا ہے، اب وہ بجا طور پر عمل درآمد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارا عزم ہے کہ ہم جتنے بھی ہیں، پارلیمان کے اندر اور باہر سیاسی نظام کے استحکام کے لیے کام کریں گے اور تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ حکومت کے ہر اچھے اقدام کی حمایت کریں گے، نئی حکومت سے چاہیں گے کہ وہ اپنے اعلان کردہ منشور خصوصاً سو دن کے اپنے پروگرام پر عمل درآمد کرے۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان صاحب نے، اپنے پہلے خطاب میں ملک کو ”مدینہ جیسی اسلامی ریاست“ بنانے کا خوش کُن اعلان کیا ہے، قوم اُس کو عملی صورت میں دیکھنے کی خواہش مند اور منتظر ہے، وہ یہ توقع رکھتی ہے کہ جناب عمران خان ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے اور اسلامی و فلاحی ریاست کے زریں اصولوں کے نفاذ کے لیے، فوری اور ضروری اقدامات کریں گے۔
عوام کے مسائل کے حل، استحصال اور سود پر مَبنی مَعاشی نِظام کو بدلنے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد، معاشرے میں بے غیرتی، بے حیائی اور فحاشی کے دروازے بند کرنے اور ہر قسم کی کرپشن کے خاتمے کے لیےجلد عملی اقدامات کریں گے۔
بے روزگاری، بیماری، جہالت اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے تیز رفتاری سے کام ہوگا۔ ہماری قومی خودمختاری میں بیرونی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اندرونی و بیرونی قرضوں سے، اور خاص کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چُنگل سے ملک و قوم کی جان چھڑائیں گے۔
عمران خان صاحب نے کشمیر کی آزادی، اور بھارت سے بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے، ہم اُس کا خیرمقدم کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ بھی یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر بھارت سے تجارت کا فائدہ، صرف بھارت ہی کو ہوگا۔ اِسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ یہ مذاکرات کشمیری حریت پسند قیادت کو شامل کیے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکیں گے۔
جماعت اسلامی کی قیادت اس بات پر یکسو ہے کہ ہم پورے وقار کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں گے۔ ”مخالفت برائے مخالفت“ کا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ مگر حکومت کے کسی بھی غیر قانونی، غیر جمہوری، عوام دشمن، اور اسلامی اَقدار کے منافی اقدام اور فیصلوں کی مخالفت کریں گے۔ ہم ”منصفانہ اور سب کے احتساب“ کے مطالبے سے بھی دست بردار نہیں ہوں گے۔
میں آپ کے توسط سے اسلام پسند اور محب وطن پاکستانیوں، متحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی کے ذمے داروں، کارکنوں اور بہی خواہوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعت اسلامی اللہ اور اُس کے محبوب ؐ کے بتائے ہوئے طریقوں پر ریاستی سطح پر بھی عمل درآمد، اور اسلامی نظام اور معاشرے کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی، اپنی امتیازی حیثیت اور نظریاتی شناخت کی حفاظت کرے گی، اپنی داخلی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے احتساب و اصلاح کے نظام کو مزید فعال اور مؤثر بنائے گی، اپنی پالیسی سازی، حکمتِ عملی اور اقدامات کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاداری اور اِطاعت شعاری کے تابع رکھے گی، اپنے کارکنوں کو کسی بھی حال میں تنہا نہیں چھوڑے گی اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔