۔ 2018ء کا انتخاب کئی لوگوں کی نیندیں اڑا چکا ہے اور کئی ابھی تک خوابوں کی دنیا میں ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو بزعم خود انتخاب جیت چکے ہیں اور کسی نے ان کے کان میں کہا ہے کہ آپ تو جیت چکے تھے آپ کو فلاں ابن فلاں نے ہرادیا ہے اور یہ شخصیات خوابوں سے نکل نہیں پارہی ہیں۔ سیاستدانوں کے خواب علیحدہ ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے خواب علیحدہ، ایک کسان نفسیات کے ماہر ڈاکٹر کے پاس گیا اور اسے بتلایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں اپنے کھیت میں گھاس کھا رہا ہوں ،ڈاکٹر نے کہا اس طرح کے خواب آتے ہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کسان نے ڈاکٹر سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب جب میں خواب سے بیدار ہوا تو اپنی آدھی چٹائی کھا چکا تھا اب اگر ہارنے والے سیاستدانوں کو خواب میں اپنے بھرے ہوئے ڈبے نظر آرہے ہیں تو کیا کریں، الیکشن میں کئی دفعہ ایک شخص مسلسل ہارتا ہے اور پھر جیت جاتا ہے اس طرح کئی بار ایک پارٹی یا شخص مسلسل انتخاب جیتتا ہے اور پھر ہار جاتا ہے، نہ ہار مسلسل ہوتی ہے اور نہ جیت، پارٹیوں کو اپنا تجزیہ کرنا چاہیے، غور و فکر کرنا چاہیے، ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ جیتنے کے بعد پارٹی کے وزراء نے اپنے ورکروں کو کبھی اہمیت ہی نہیں دی، وہ ہوا کے گھوڑوں پر سوار تھے ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہیں شکست ہوسکتی ہے، اب جو شکست ہوئی تو سارا ملبہ کسی اور پر ڈال رہے ہیں کہ فلاں نے ہرادیا ہے، ہارنے والوں سے پوچھنا چاہئے کہ آپ نے ان پانچ سالوں میں کبھی اپنے ورکروں اور ہمدردوں کے ساتھ کوئی کھلی نشست کی ہے کبھی ان کو احتساب کا موقع فراہم کیا ہے اگر یہ وزیر اپنے آپ کو ورکروں کے سامنے پیش کرتا تو اسے پتہ چل جاتا کہ ورکر کیا سوچ رہا ہے لیکن اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں نے جیتنے کے بعد ورکروں کو گھاس بھی نہیں ڈالی ہے، پارٹیوں کی شکست میں ورکروں کا انتقام پوشیدہ تھا پارٹیاں اپنے اپنے منظور نظر لوگوں کے درمیان گھوم رہی ہوتی ہیں اگر پارٹیاں ہر چھ ماہ کے بعد حلقہ کے ورکروں کا کھلا کنونشن منعقد کرتیں تو انہیں شکست کا منہ دیکھنا نہ پڑتا، اقتدار کا نشہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ سر اتر جاتے ہیں لیکن نشہ نہیں اترتا۔ ایران میں جب انقلاب کا طوفان برپا تھا تو امریکی صدر جمی کارٹر شاہ کے ساتھ کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا کہ قوم آپ کے ساتھ ہے اور اس وقت رضا شاہ پہلوی اور کارٹر کی آنکھوں سے آنسو گیس کے دھوئیں سے آنسو بہہ رہے تھے اس وقت تہران آگ اور خون میں ڈوبا ہوا تھا اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ شاہ ایران سے بھاگ رہا تھا اور انقلاب کا بانی امام خمینی ایران کی طرف محو پرواز تھا ۔ شکست خوردہ پارٹیوں اور لیڈروں کو تلخ حقائق کا جائزہ لینا چاہئے اور وزیروں کو ورکروں کے عوامی دربار میں کھڑا کردینا چاہئے ہر سیاسی پارٹی کا ورکر تو آئینہ ہوتا ہے اور آئینہ جھوٹ نہیں بولتا اس طرح ورکر کبھی جھوٹ نہیں بولتا اس کو بولنے کا موقع تو دیں تو معلوم ہوجائے کہ حقائق کتنے تلخ ہوتے ہیں۔
مرحوم بھٹو کا ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ذہین شخص تھا بلوچستان کے دورہ پر آیا تو اس نے عوامی عدالت لگائی گورنر خان قلات میراحمد یار خان مرحوم، سردار دودا خان زرکزئی اور جام غلام قادر آف لسبیلہ بھی موجود تھا یہ پیپلز پارٹی کے ورکروں کا کھلا کنونشن تھا یہ کہانی پیپلزپارٹی کے ایک شریک محفل نے سنائی اس نے کہا کہ بھٹو صاحب اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے اور وزراء اور وزیراعلیٰ اسٹیج پر جلوہ افروز تھے ۔ ایک ورکر نے بولنا چاہا تو اس کو اجازت ملی اور کھل کر بولے۔ پیپلزپارٹی کا اس دور کا ورکر بڑا بے باک تھا ۔ خضدار کے کنونشن کا جہاں ورکروں کی عدالت لگی ہوئی تھی یہ اجلاس ایک گھنٹہ کا نہ تھا بلکہ یہ کوئی چھ یا آٹھ گھنٹوں پر محیط تھا، ورکر سردار دودا خان زہری ، خان قلات ، وزیراعلیٰ جام غلام قادر اور ورزیروں کی پگڑیاں اچھال رہے تھے اور بھٹو نے ایک ورکر کو بھی بولنے سے نہیں روکا اور خاموشی سے سنتے رہے اور کنونشن میں صرف پانی پیا جارہا تھا نہ کھاتا تھا نہ ریفریشمنٹ تھی یہ بھٹو تھا جس کو اس کا ورکر آج بھی یاد کرتا ہے اور اسی ورکر کی بدولت بے نظیر اور آصف زرداری اقتدار میں جلوہ گر ہوئے۔ آج یہ سوال ان سب سے کرنا چاہتا ہوں جو مذہبی پارٹیاں ، سیکولر پارٹیاں، قوم پرست پارٹیاںہیںکیا وہ اپنے ورکروں کی عدالت لگا سکتے ہیں بھٹو نے تو دور اقتدار میں لگائی اور وزراء موجود تھے اور لطف تو اسی وقت تھا جب ایک وزیر یا وزیراعلیٰ تخت پر جلوہ فگن ہو اور اس کے سر میں اقتدار کا نشہ چڑھا ہو اور اب تو وزیراعلیٰ ہو وزیر ہو یا مشیر پھر اقتدار سے اترنے کے بعد نشہ ہرن ہوگیا ہے بلکہ صورت مظلوم سی بنالی ہے کہ کوئی اس سے پوچھ نہ سکے۔ اب تو پارٹیوں کی توپیں خاموش ہیں اور ان سے صرف دھواں اٹھ رہا ہے شکست نے ہوش و ہواس اٹھا دیئے ہیں، جنگ میں جب شکست ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں۔ Guns are silent””