حضرت ماہرالقادری (مرحوم) پر یہ مصرع صادق آتا ہے کہ ’’ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں‘‘۔ انھوں نے اپنے رسالے ’فاران‘ میں متعدد کتابوں پر تبصرے کیے ہیں اور کسی کو بخشا نہیں ہے۔ انھوں نے ابوالاثر حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی ہی کیا، سید سلیمان ندوی کی پکڑ بھی کی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ماہرالقادری کی کتابیں ’’ہماری نظر میں‘‘ (دو جلدیں)، اور ’’یادِرفتگاں‘‘ (دو جلدوں میں) جناب طالب الہاشمی نے مرتب کی اور ان کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ لیکن کتابوں پر تبصرے میں طالب ہاشمی کی کتاب ’’سیرتِ عبداللہ بن زبیرؓ‘‘ میں غلطیوں کی نشاندہی کی ہے، اور طالب ہاشمی نے اسے بھی مولانا ماہرالقادری کے ’’فاضلانہ تبصرے‘‘ میں شامل کیا ہے۔ یہ امر قابلِ تعریف ہے۔ زبان و بیان پر گرفت ماہرالقادری کا حصہ ہے۔ یہ لکھ کر کہ ’’زبان اور پیرایۂ زبان دونوں خوب ہیں‘‘ اس جملے کی پکڑ کرتے ہیں کہ ’’انھوں نے اپنی زندگی راہِ حق میں وقف کی ہوئی تھی‘‘۔ زبان کے اعتبار سے صحیح تر اندازِ بیان یہ ہے ’’وقف کررکھی تھی یا وقف کردی تھی‘‘۔ ایک اور جملہ ’’اس واقعہ سے بھی کئی لوگ حضرت عثمانؒ سے بگڑ گئے‘‘۔ یہاں ’کئی‘ کی جگہ ’بعض‘ یا ’متعدد‘ لکھنا تھا۔ ’’یزید کہنے کو تو یہ الفاظ کہہ گیا لیکن بعد میں سوچ آئی‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’بعد میں سمجھ آئی کہ محل تھا، سوچ فکر کو کہتے ہیں اور سمجھ فہم و عقل کو۔‘‘
ماہرالقادری نے جو تصحیح کی ہے اس سے قارئین کو بھی فائدہ ہوگا۔ طالب ہاشمی نے لکھا ’’انھوں نے اس میںشرقی و غربی دو دروازے رکھائے‘‘ غلط نہیں ہے، مگر ’رکھ دیے‘ یا ’بنوائے‘ ہوتا تو عبارت چست ہوجاتی۔ ’’مختار کے لشکر کو راستے میں ملو‘‘ یہاں ’کو‘ کی جگہ ’سے‘ کا محل تھا۔ ’’سال میں ایک عطا کی جگہ دو عطائیں دینے کی رسم ڈالی‘‘۔ عطا کی جمع ’عطائیں‘ یا ’عطائوں‘ اردو میں نہیں آتی۔ ’عطا‘ کی جگہ ’عطیہ‘ لکھتے اور اس کی جمع عطیے۔ ’’ان میں سے بھی اکثر نے ارادہ کیا ہوا تھا‘‘۔ ’ارادہ کر رکھا تھا‘ زیادہ صحیح اور فصیح ہے۔ ’’زندگی کے کئی شب و روز اکٹھے گزار دیے تھے‘‘۔ ’کئی‘ یہاں کھٹکتا ہے۔
طالب ہاشمی ہی کی ایک اور کتاب ’’ملک شاہ سلجوقی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرالقادری لکھتے ہیں کہ ’’جناب طالب ہاشمی کی زبان منجھی ہوئی بلکہ ٹکسالی زبان ہے، اردو کے وہ مستند اہلِ قلم ہیں‘‘۔ لیکن اس کے بعد اس ٹکسال کے چند سکوں کو کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ مثلاً ’’ترازو اس نے شاہی خزانے میں جمع کرا دیا‘‘۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی ترازو کو مذکر لکھا ہے مگر ترازو مونث ہے۔ یہ صحیح ہے کہ لغت میں ترازو مونث ہی ہے اور یہ فارسی کا لفظ ہے، لیکن عوام کی زبان پر مذکر ہے جیسے ’’انصاف کا ترازو‘‘۔
ماہر القادری نے بھی ’طلبہ‘ کو جگہ جگہ ’طلبا‘ لکھا ہے، جب کہ طلبا طالب کی نہیں ’طلیب‘ کی جمع ہے۔ ایک کرم فرما غلام سرور صاحب نے ماہرالقادری کی کتابیں ہدیہ کی ہیں جن کا مطالعہ جاری ہے اور بزرگوں کی گرفت کرنے کی خطا ہم سے بھی سرزد ہوئی ہے۔ آخر ماہرالقادری نے بھی تو یہ کام کیا ہے۔ انھوں نے زبان و بیان کی جن غلطیوں کی نشاندہی کی ہے اُن کا حوالہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم جیسے لوگ ان غلطیوں سے باز رہیں۔ خود اپنی اصلاح کے لیے ماہرالقادری کا تذکرہ جاری رہے گا۔
ایک ٹی وی چینل کے مستقل مبصر، غالباً چودھری غلام حسین نام ہے، انھوں نے سیاسی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹی وی پر چلنے والے ’’ٹکرز‘‘ کا حوالہ دیا اور مزید وضاحت کی کہ پنجابی میں انہیں پٹیاں کہتے ہیں۔ حضرت یہ لفظ اردو میں عام ہے اور یہ پنجابی سے مخصوص نہیں ہے۔ اس کی اصل تو ہندی ہے اور یہ ’پٹی‘ ہندی ہی سے اردو اور پنجابی میں آئی ہے۔ چودھری صاحب اگر صرف ’ٹکر‘ کا ترجمہ پیش کردیتے تو بھی ناظرین سمجھ جاتے۔ اصل میں ایسے بے شمار الفاظ ہیں جو ہندی یا سنسکرت سے پنجابی، اردو، سندھی، سرائیکی یا برعظیم کی دیگر زبانوں میں شامل ہیں، کیونکہ سنسکرت ہی اس خطے کی اصل زبان تھی۔ اردو اور پنجابی میں زیادہ فرق نہیں، صرف لہجے کا فرق ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس لفظ میں ٹ، ڑ وغیرہ آئے اس کی اصل ہندی ہے جیسے پٹی یا پٹیاں۔ اردو میں تو اس کا بڑی کثرت سے استعمال ہے۔ پٹی پڑھائی جاتی ہے، پٹی باندھی جاتی ہے آنکھوں پر بھی، سر پر تیل وغیرہ سے بال جمانے کو پٹی بنانا اور خواتین کے لیے مانگ پٹی کرنا بھی عام ہے۔ پلنگ کی پٹی بھی ہوتی ہے، اسی سے پٹی پکڑ لینا کا محاورہ ہے یعنی اتنا بیمار ہوجانا کہ پلنگ سے اٹھ نہ سکے۔ اس پٹی کے اور بھی کئی معانی ہیں مثلاً گائوں کا چھوٹا حصہ، کاغذ یا کپڑے کی چوڑی پٹی (لمبی دھجی)، ایک قسم کی دستار کی بندش، ایک قسم کی مٹھائی کی قلمیں، گزک کی لمبی پٹی، تختی، لوح، گھوڑے کی لمبی اور سیدھی دوڑ، کاغذ کی وہ رنگین دھجی جو کنکوے میں آڑی ڈال دیتے ہیں۔ حاشیہ، کنارہ، بہکاوا، چغلی، غیبت، بانس یا لکڑی کا پتلا اور لمبا ٹکڑا وغیرہ… اس کے اتنے معانی ہیں کہ کالم شاید اسی پر ختم ہوجائے۔
محترم شفق ہاشمی نے نوجوان محقق عبدالخالق بٹ کے جواب میں مزید وضاحت بھیجی ہے جو درج ذیل ہے:
’’گزشتہ شمارے میں ایک ’’نوجوان محقق‘‘ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس ضمن میں عرض ہے کہ عربی الاصل الفاظ جس طرح اردو میں لکھے جا رہے ہیں، وہ قابلِ گرفت نہیں، اور نہ میں نے اُس اندازِ تحریر کو غلط قرار دیا تھا۔ ہاں، میرے نزدیک بہتر صورت وہی ہے جس کا میں نے اظہار کیا اور جس پر میں خود کاربند ہوں۔
سیدنا ابوبکرؓ کے حوالے سے یہ درست ہے کہ بارگاہِ رسالتؐ سے انھیں عبداللہ نام عطا ہوا تھا، مگر وہ کنیت جس سے وہ معروفِ خاص وعام ہیں اُسے ان کا نام تصور کیا جانا کیا غلط ہے؟ ان کا لقب الصدیق جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عطا کردہ ہے ان کی ذاتی وجاہت اور صدق و صفا کا بھرپور عکاس ہے۔ اونٹوں کے علاج یا دیکھ بھال کے معاملے میں وہ اپنے ہم عصر رفقاء سے منفرد تو نہ تھے کہ وہ ان کی وجۂ شہرت ہوتا۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وساطت سے امتِ مسلمہ کی ’’نصف دین‘‘ تک رہنمائی کیا شفق ہاشمی کی ذہنی اختراع ہے؟ ایک معروف حدیث کی رو سے، جسے گرچہ بعض حضرات نے ضعیف گردانا ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’خُذُوا نصفَ دینکِم عن ہذا الحُمَیراء‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کا مقام روایت حدیث میں سب سے بلند ہے کہ اُن سے 5374 احادیث مروی ہیں، مگر تفقّہ فی الدین اور دِرایتِ حدیث میں آپ اُس مقام پر فائز نہیں جو سیدہ عائشہ صدیقہ الحمیراء کا تھا، جبکہ روایت کے میدان میں بھی اُن سے 2210 احادیث مروی ہیں۔
آخر میں اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے جو پہلے بھی کرچکا ہوں کہ خاکسار علم و اد ب کا کوئی ’’محقّق‘‘ یا مورخ نہیں بلکہ صرف زبان و ادب کا ایک طالب علم ہے۔
والسلام
احمد امام شفق ہاشمی‘‘
پچھلے شمارے میں عبدالخالق بٹ کی تحریر کے آخر میں وللہ اعلم کے بجائے وللہ عالم شائع ہوا ہے۔ قارئین خود ہی اس کو ٹھیک کرلیں۔