برسوں پہلے ندیمؔ ہاشمی کا شعر میں نے کہیں پڑھا تھا، آج جب عارف شفیق کے کالموں کا مجموعہ ’’کراچی کی آواز‘‘ مجھے ملا تو بڑی دلچسپی سے اسے پڑھا اور ندیم کا یہ شعر میرے اندر گونجنے لگا ؎
قید کرلو حسین لمحوں کو
زندگی فیصلے بدلتی ہے
سرپھرا عارف شفیق اس شہر کی دھول بالوں میں سجائے، اس کی گلیوں میں پھیلی سرخی، اس کی شاموں کے کرب اور اس پر مسلط طویل تاریکی میں چمکنے والے اِکا دُکا جگنو پکڑنے میں سرگرداں ہے۔ وہ حسین لمحوں کو لفظوں میں محفوظ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔
اپنی مٹی میں کھلتے گلابوں کی سرخی اور ان کی خوشبو کو لفظوں میں ڈھال کر انہیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے، یہ خوشبو اب ’’کراچی کی آواز‘‘ بن کر مہک رہی ہے۔
نذیر لغاری نے کہا تھا ’’عارف شفیق ادب کی دنیا میں سیاست کا واقعہ نگار ہے، اس کی ادبی واقعہ نگاری اور مجلسی واقعہ نگاری میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے، میں اس پر دہرے پن کا الزام نہیں لگا رہا، وہ اپنی ادبی واقعہ نگاری میں اپنے قلم کو ہنٹر بنا لیتا ہے اور جھوٹ کو، مکر کو، بے ایمانی، ریا کاری، بدنیتی اور فریب کو مخصوص کوڑوں سے لہولہان کرتا ہے‘‘۔
پھر مرے مقابل اک ظالموں کا لشکر ہے
پیچھے کیا ہٹوں گا میں پیچھے تو سمندر ہے
خود مرے قبیلے میں اتنے میر و جعفر ہیں
میرے اپنے لوگوں کی آستین میں خنجر ہے
میرا ہی لہو ہے جو بہہ رہا ہے سڑکوں پر
قتل کا مرے الزام اس لیے مجھ پر ہے
فاضل جمیلی نے گواہی دی ’’عبداللہ شاہ غازیؒ کے شہر سے محبت نے عارف شفیق کو شہری شعور کا شاعر بنادیا ہے، جب وہ بازاروں کو مقتل بنتے اور مکانوں کو مقبروں میں تبدیل ہوتے دیکھتے ہیں تو ردعمل میں اس طرح کی تشکیک میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کا اظہار سندھی زبان کے بے مثال افسانہ نگار امر جلیل نے قلندرؒ کے مزار کو سیہون سے اٹھا کر لاہور لے جانے کے حوالے سے اپنے ایک افسانچے میں کیا ہے۔ عارف شفیق کا دکھ بھی امر جلیل سے ملتا جلتا ہے جس کا اظہار وہ اس طرح کرتا ہے
کراچی شہر کی رونق کو لوٹنے والے
جو بس میں ہو تو سمندر اٹھا کے لے جائیں ‘‘
عارف شفیق اپنے کالم میں رقم طراز ہیں: ’’میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں اپنے کالموں میں کراچی کی کہانی کے ساتھ ساتھ اپنی کہانی بھی لکھتا رہوں گا لیکن کراچی کی کہانی کے اتنے رنگ ہیں کہ میری کہانی ان رنگوں میں کہیں گم ہوتی جارہی ہے۔ اس کا سبب شاید یہ بھی ہو کہ اصل کہانی تو اس شہر کراچی کی ہے، میں تو صرف اس کہانی میں ایک کردار ہوں جو اس شہر کی ترجمانی کرتا ہے۔
میرا ہر ایک لفظ تیرا ترجماں
اے کراچی میں تری آواز ہوں
کراچی کی کہانی کے اہم کردار تو وہ اہم شخصیات ہیں جنہوں نے اس شہر کو بنانے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علمی، ادبی، تہذیبی اور اخلاقی قدروں کی تعمیر کی، جس سے ایک پُرامن، انصاف پسند، مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ کیونکہ میری کہانی کے مرکزی کردار ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین ہیں جنہوں نے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی ’’کلاچی‘‘ کو روشنیوں کے صنعتی شہر ’’کراچی‘‘ میں تبدیل کیا۔‘‘
آج ’’کراچی کی آواز‘‘ میں اس شہر کے بلا تفریق ہر باسی کی آواز شامل ہے۔ راقم نے اپنی آواز پہچان لی ہے ۔
ایک لمحہ ملا تھا کہنے کو
زندگی بھر کی بات کیا کہتے
آپ بھی ’’کراچی کی آواز‘‘ پڑھیے اور اپنی آواز تلاش کیجیے۔
ادارہ تہذیب کے کشور عدیل جعفری نے اس خوبصورت کتاب کی تقریبِ اجراء کا نہایت عمدہ اہتمام سندھ اسکائوٹس کے آڈیٹوریم میں کیا، جہاں بڑی تعداد میں کراچی کی علمی، ادبی شخصیات نے شرکت کی۔ صدرِ محفل، مہمانِ خصوصی وقت پر تشریف لائے مگر کچھ مقررین کے انتظار کی وجہ سے تقریب تاخیر سے شروع ہوئی۔ کشور عدیل جعفری نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ تہذیب اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ معروف شاعر، ادیب، صحافی اور کالم نگار عارف شفیق کے کالموں کا مجموعہ ’’کراچی کی آواز‘‘ آج آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس کتاب میں موجود مضامین کی خوبصورتی اور ان کی اہمیت کا تقاضا تھا کہ اس کی رونمائی (تقریب اجراء) بھی شایانِ شان ہو، لہٰذا ہم نے اپنے طور پر جو کوشش کی ہے آپ یقینا اسے سراہیں گے۔ اس موقع پر ہم نے خصوصی مجلہ بھی شائع کیا ہے جو آپ کے پاس یادگار رہے گا۔ عارف شفیق نے کراچی کی شاید پچاس سالہ ادبی تاریخ کو اس کتاب میں خوبصورتی سے سمیٹ دیا ہے جس پر وہ ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے تمام مہمانوں کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کی محبتیں، خلوص اور آپ کے ساتھ کی وجہ سے ہمیں آگے بھی بہتر سے بہتر کام کرنے کا حوصلہ ملتا رہے گا۔ معروف صحافی علاء الدین ہمدم خانزادہ نے مختصر مگر خوبصورت گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیفیات جو ہم پر طاری ہوتی ہیں وہی عارف شفیق کی آواز ہیں۔ اس شہر میں جہاں کتاب کے لیے لوگوں کے پاس وقت نہیں، وہاں عارف شفیق نے ہمیں کتاب کی صورت میں ’’کراچی کی آواز‘‘ دی ہے، جو کراچی کی ہی نہیں ہمارے دلوں کی بھی آواز ہے۔ ان کے کالموں میں کبھی رنجور، کبھی خوبصورت کراچی نظر آتا ہے۔ مختلف ادوار کو قلمبند کرکے انہوں نے قابلِ ستائش کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے خوبصورت انداز میں دعوتِ فکر دی ہے کہ ہم بھی کراچی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس موقع پر انہوں نے کراچی کے حوالے سے خوبصورت نظم سنائی۔ قائداعظم رائٹرز گلڈ کے بانی معروف صحافی جلیس سلاسل نے کہا کہ ’’مجھے تقریب شروع ہونے سے پانچ منٹ قبل عارف شفیق نے حکم دیا کہ مجھے بھی ان سے متعلق کچھ کہنا ہے۔ میں نے اپنے استاد محترم آغا شورش کاشمیری سے خطابت کا فن نہیں سیکھا، اس لیے مجھے جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ پہلے لکھ لیتا ہوں، چنانچہ ابھی جو لکھا وہ پیش خدمت ہے۔ عارف شفیق سے میری دوستی قریباً 24 سال سے ہے اور ان کے والد شفیق بریلوی سے تو میرے 1970ء سے قریبی تعلقات رہے اور ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوتا رہا۔ ان کے والد کے ہمراہ مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، بابا ذہین شاہ تاجی اور اُس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور مولانا کوثر نیازی سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ یہاں عارف شفیق سے متعلق صرف ایک بات ببانگ دہل کہوں گا کہ یہ سیکولر اور اشتراکی ذہن رکھنے والا نہیں، اور نہ ہی اسلام اور پاکستانیت کا دشمن ہے۔ میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ اللہ رب العزت پر مکمل یقین رکھتا ہے، اسی لیے اس کے شعری مجموعے کا نام بھی ’’یقین‘‘ ہے، جو اس بات کا بڑا ثبوت ہے۔ اس کو عاشقِ رسول ؐ ہونے پر فخر ہے۔ اس کی شاعری میں جرأت، صداقت یوں ہے کہ اس نے برسوں پہلے کہا تھا ؎
مجھے نسبت ہے محمدؐ سے، نہیں دنیا کا خوف
گر ٹکرائی بھی گردش تو اس کو چکر آئے گا
اور یہی شعر میری 1995ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’ٹیبل ٹاک‘‘ کے صفحہ اول پر انتساب میں شامل ہے جو میں نے اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کیا ہے۔
ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ عارف شفیق کا ایک خاندانی پس منظر ہے۔ سچ بولنے پر اس نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا، سچ کے معاملے پر وہ اپنے آباء کی روایات پر تاحال قائم ہے، یعنی سچ سب کے سامنے۔ جبکہ اس عہد میں جھوٹ سب کے سامنے اور سچ چھپ کر بولا جاتا ہے۔ جہاں اچھائی برائی سے ڈرتی ہے وہاں سچ اور نیکی کا کس طرح فروغ ممکن ہے! اس کے کالموں کا مجموعہ سچ کا اشتہار ہے۔ اس کی شاعری طبقاتی سماج کا وہ سچ ہے جسے ہم مزاحمتی شاعری سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہے جس کی ذات اور اظہار دونوں سے معاشرے کی ترجمانی جاری و ساری ہے۔ ادبی منظرناموں سے بات اٹھاکر اسے تہذیبی و ثقافتی سطح پر تاریخی تناظر میں دکھانا اس کا خاص وصف ہے۔ اُس میں بلوچستان پر نورا مینگل کی نظم ہو جسے آغا گل کا تاریخی کڑوا سچ قرار دیا گیا ہے۔ یہی معاملہ مہاجر، کراچی اور پاکستان کا ہے۔ مہاجر قوم پرست نہیں وطن پرست ہیں۔ ’’کراچی کی آواز‘‘ میں سچ کا مقامی بیانیہ بھی شامل ہے۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی معروف صحافی انور سن رائے نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے کتاب پڑھنا خاصا دشوار تھا۔ کراچی کے بارے میں اب اتنی کتابیں آچکی ہیں کہ شاید ہی کوئی کہہ سکے کہ میں نے تمام کتابیں پڑھی ہیں۔ عارف شفیق سر سے پائوں تک غیر متعصب آدمی ہے۔ اس نے بلا امتیاز دیگر مفکرین کے خیالات بھی قلمبند کیے ہیں۔ اس کے کالموں میں لالو کھیت کی آواز نمایاں ہے۔ لالوکھیت کسی زمانے میں اردو ادب کا مرکز تھا، میں خود وہاں کئی سال رہا۔ عارف شفیق نے اس شہر کے موسموں پر لگنے والے زخموں بلکہ اس کی بہاروں کو بھی بیان کیا ہے۔ اس کے کالموں میں صحافیانہ بصیرت ہی نہیں شعری اور ادبی بصیرت بھی شامل ہے۔ میں اسے سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔
اس موقع پر عارف شفیق نے کہا کہ وہ 1990ء سے کالم نگاری کررہے ہیں، انہوں نے ’’قومی اخبار‘‘، ’’جرات‘‘، ’’ایکسپریس‘‘، ’’اخبارِ جہاں‘‘ میں بہت عرصے تک کالم نگاری کی۔ کالم نگاری اور شاعری ان کی زندگی کا مقصدِ حیات ہے۔ صدرِ محفل نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ ’’مہاجر‘‘ ایک اچھا لفظ ہے، اس کو تعصب کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔ میں نے کتاب پڑھی، اس میں کہیں آنسو ہیں تو کہیں مسکراہٹیں۔ یہ اس طرح کہانی سناتے ہیں کہ اس میں افسانے، شاعری اور صحافت کا مزا آتا ہے۔ میں نے جب ان کالموں کو پڑھا تو مجھے لگا کہ میں قرۃ العین حیدر کا ناول یا افسانہ پڑھ رہا ہوں۔ ان کے کالموں کی کہانی طلسم ہوشربا سے بڑی کہانی ہے، پہلی جلد انہوں نے لکھ لی ہے، دوسری آئندہ کی کہانی آنے والے لکھیںگے۔ اس موقع پر انہوں نے عارف شفیق کی کتاب سے ایک کالم بطور اقتباس پڑھ کر سنایا۔ تقریب کی خوبصورت نظامت کرتے ہوئے راشد نور نے کہا کہ ’’شہرِ آشوب لکھنے میں عارف شفیق پیش پیش رہے ہیں‘‘۔ معروف شاعر رونق حیات کا منظوم خراجِ عقیدت، سعد الدین سعد ؔنے پیش کیا۔
تُو نے جو بھی لکھا ہے وہ عارفؔ
ترجمہ سچ کے دائروں کا ہے
تُو سوا سچ کے کچھ نہیں لکھتا
تیرا بے باک ہے قلم تجھ کو
خوف کوئی ہے اور نہ ڈر کوئی
شعر تیرے سماج کی تصویر
نشر تیری محبتوں کی نظیر
تقریب میں بڑی تعداد میں اربابِ دانش نے شرکت کی۔ تمام مہمانوں کے لیے پُرتکلف عشائیہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ میری نشست کے قریب ڈاکٹر معین الدین احمد، نسیم انجم، حجاب عباسی، صدف بنتِ اظہار، اختر سعیدی، حلیم انصاری، خالد انور اور نثار احمد نثارؔ تشریف فرما تھے۔