نام کتاب : مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں
مصنف : محمد یوسف بھٹہ
صفحات : 368 قیمت: 355 روپے
ناشر : ادارہ معارف اسلامی منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ پوسٹ کوڈ: 54790
فون : 35419520-4،042-35252475
فیکس : 042-35252194
ای میل : imislami1979@gmail.com
ویب گاہ : www.imislami.org
تقسیم کنندہ : مکتبہ معارف اسلامی، ملتان روڈ، لاہور
فون : 35419520-4،042-35252419
مولانا مودودیؒ پر لکھی گئی کتب میں یہ کتاب ’’مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘‘ سب سے اعلیٰ وارفع ہے، پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک اہلِ علم کی مرتبہ کتاب پڑھ رہے ہیں جو جناب محمد یوسف بھٹہ نے مرتب کی تھی اور 1955ء میں اس کتاب کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ دوسرا ایڈیشن 1983ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کی داستان سناتے ہوئے یوسف بھٹہ صاحب لکھتے ہیں:
’’1955]ء میں[ راقم الحروف نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے متعلق یہ کتاب، محب مکرم عبدالرحیم صاحب کی تحریک پر مرتب کی تھی، پھر انہی کی مساعی سے یہ طباعت و اشاعت کے مراحلِ دشوار سے گزری۔ میں اُن کا احسان مند بھی ہوں اور شکر گزار بھی۔
کتاب پسند کی گئی اور پہلا ایڈیشن جلد ہی فروخت ہوگیا۔ اسی دوران میں برادرِِ عزیز سید نقی علی نے کئی بار کتاب کی طبع ثانی کے لیے اصرار کیا اور پیش کش بھی ]کی[، مگر طبیعت مائل نہ ہوئی۔ وقت گزرتا رہا تاآں کہ محترم مولانا خلیل احمد حامدیؔ صاحب منیجنگ ڈائریکٹر ادارہ معارف اسلامی، منصورہ لاہور کے فرستادہ سلیم منصور خالد صاحب اگست 1983ء میں غریب خانے پر تشریف لائے اور ’’مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘‘ کی طباعتِ ثانی کے علاوہ راقم الحروف کی انگریزی کتاب ’’اقبالؒ اور مودودیؒ‘‘ (Iqbal and Moudodi) اور اسی سلسلے کی دوسری کوششوں سے متعلق گفت و شنید کی اور ضروری امور طے ہوئے۔ اسی عرصے میں حضرتِ نعیم صدیقی صاحب کا گرامی نامہ، مرقومہ 26 ستمبر 1983ء وصول ہوا اور ان کے یہ الفاظ احقر کے لیے موجب افتخار ہوئے:
’’آپ کی مرتبہ کتاب… ’’مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘‘ میری رائے میں مولانا کے بارے میں لکھی ہوئی تمام کتابوں سے فائق ہے‘‘۔
دیباچہ طبع اول میں محمد یوسف بھٹہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ میری زندگی کا ایک یادگار واقعہ ہے کہ مجھ پر متکلم اسلام، مولانا مودودی کے افادات کا اثر ایسے نازک اور پُرخطر وقت میں ہوا جب کہ لادین تعلیمی ماحول اور مستشرقین کی کتابوں کے مطالعے کی وجہ سے اسلام کی ’’ہیئتِ کلّی‘‘ مجھے بہت ہی ناپسندیدہ دکھائی دینے لگی تھی۔ خاص طور پر اسلام میں جہاد کی جو گھنائونی اور خون آشام نقاشی ان علم نوازانِ جُہل کار نے کی ہے، اس سے طبیعت میں سخت خلجان پیدا ہوا تھا۔ اصل حقیقت کو جاننے کے لیے میں نے ایک جاں بلب پیاسے کی طرح اردو اور انگریزی میں اہلِ علم مسلمانوں کی ہر اُس تحریر کو پڑھ ڈالا جس تک میری رسائی ہوسکی، لیکن کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے کسی کی تحریر بھی میرے خلجان کو رفع نہ کرسکی، اور نہ اس سیاہ کاری کا مداوا کرسکی جس سے مشرق شناسانِ غرب نے اسلام کو داغ دار کرنے کی مشئوم کوشش کی تھی، تاہم یہ میری اپنی کم علمی اور کوتاہ رسی تھی ورنہ علمائے کرام اور اصحابِ فکر و نظر کے یہاں اس طرح کے مواد کی کمی نہ تھی۔
1935ء کا زمانہ تھا اور ایسے نازک موقع پر جب کہ میں کفر والحاد کے چہ بچے میں گرنے ہی والا تھا کہ میرے دوست نے مجھے مولانا مودودی کی غالباً اوّلین تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے مطالعے کا مشورہ دیا۔ اس کتاب کے مطالعے نے میرے فکر و تصور کا نقشہ ہی بدل دیا۔ میں تو اسے تائیدِایزدی سمجھتا ہوں اور اسی لیے مودودی صاحب سے زیادہ اس ذاتِ پاک کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے اسلام پر استقامت بخشی اور مودودی صاحب کو بے راہوں کو راہ پر لانے کی قابلیت عطا کی‘‘۔
حکیم مشرق (علامہ محمد اقبال) نے ]بڑے آدمیوں اور رہنمائوں[ کی شناخت کا ایک ذریعہ بتایا ہے، وہ کہتے ہیں ؎
زندئہ یا مردئہ یا جاں بلب
از سر شاہد کن شہادت را طلب
شاہدِ اوّل شعورِ خویشتن
خویش را دیدن بنورِ خویشتن!
شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے
خویش را دیدن بنُورِ دیگرے
شاہدِ ثالث شعورِ ذاتِ حق
خویش را دیدن بنُورِ ذاتِ حق
ان اشعار کا مفہوم یہ ہے:
تم زندہ ہو یا مردہ ہو یا جاں بلب قریب المرگ ہو
یہ جاننے کے لیے تین گواہوں سے گواہی طلب کرو
پہلا گواہ اپنے شعور کو بنائو یعنی
خود کو دیکھنا اپنے نور سے
دوسرا گواہ دوسروں کے شعور یا نظر سے دیکھنا
یعنی خود کو دیکھنا دوسروں کے نور و نظر سے
تیسرا گواہ شعورِ ذات ِحق ہے
خود کو دیکھنا ذاتِ حق کے نور سے
(ترجمہ از مدیر)
یعنی… آدمی کو پہچاننے کے لیے ان تین شہادتوں کی ضرورت ہے:
-1 شعورِ خویشتن آدمی اپنی نظر میں کیا ہے؟
-2 شعورِ دیگرے آدمی دوسروں کی نگاہوں میں کیا ہے؟
-3 شعورِ ذاتِ حق آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیا مقام رکھتا ہے؟
اسی ذریعے سے بیسویں صدی میں ہندو پاکستان کی ایک اہم شخصیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو سمجھنے کے لیے یہ حقیر پیش کش کی ہے۔‘‘
مرتب کتاب کو مولانا مودودیؒ پر کتاب لکھنے کی تحریک ممتاز صحافی علی سفیان آفاقی کا مولانا مودودی سے ایک انٹرویو دیکھ کر ہوئی جو جنوری 1955ء میں ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ لاہور میں شائع ہوا تھا۔
’’کتاب کے پہلے حصے: ’’اپنی نظر میں‘‘ تمام تر وہ تحریریں اور اقتباسات ہیں جو مولانا مودودی کے خود اپنے قلم کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ تحریریں اور اقتباسات ایک خاص ترتیب کے ساتھ جمع کیے گئے ہیں۔ ان میں معنوی اور منطقی ربط کے علاوہ ایک زمانی تسلسل بھی ہے جس سے مولانا مودودی کی ذہنی پرداخت کے مختلف مدارج اور افکار و تصورات کے نشووارتقا کی کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ یہ ’’اپنی نظر‘‘ کا اساسی اور غیر منفک عنصر ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ مولانا مودودی اپنی زندگی کے ایام و سنین میں کس حیثیت اور کس رفتار سے آگے بڑھے ہیں اور وہ اس سفر میں کن مراحل سے گزرے ہیں۔ ان اقتباسات سے فکر و عمل کے علاوہ زبان اور قدرتِ تحریر کی رفتارِ ترقی کا بھی اندازہ نمایاں طور پر کیا جاسکتا ہے۔
اس کتاب کا دوسرا جز ’’دوسروں کی نظر میں‘‘ ہے۔ اس حصے میں وہ مقالات و مضامین درج کیے گئے ہیں جو دوسروں نے لکھے ہیں۔ ان ’’دوسروں‘‘ میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جنہیں مودودی صاحب کے ’’اپنے‘‘ کہا جاسکتا ہو۔ اس جز کے مندرجات میں آپ کو موافق، مخالف پہلوئوں کے علاوہ بے لاگ اور غیر جانب دار اظہارِ رائے بھی ملے گا۔
یہ کتاب کا چوتھا ایڈیشن ہے۔ اشاعت اوّل ستمبر 1980ء، اشاعت دوم 1984ء، اشاعت سوم اکتوبر 1989ء، اشاعت چہارم مارچ 2018ء… یعنی تیسری اشاعت کے 29 سال بعد یہ چوتھی اشاعت بازار میں آئی ہے۔ اس پر افسوس یا خوشی کا اظہار کیا جائے؟ کتاب کا پہلا حصہ علامہ کے شعر سے شروع ہوتا، عنوان ہے ’’اپنی نظر میں‘‘
شاہدِ اوّل شعور خویشتن
خویش را دیدن بنُورِ خویشتن
اس حصے میں مولانا کے قلم سے ان حالات و خیالات کو پیش کیا گیا ہے۔ میرا بچپن، خود نوشت حالات، شخصیت چند اشارے فکر و شخصیت کا ماحول، فکر و نظر 1920ئتا 1924ء، نسبت اوّل بالآخر 1926ء تا 1939 کے عنوانات کے تحت۔
دوسرا حصہ ’’دوسروں کی نظر میں‘‘ ہے۔ یہ علامہ کے درج ذیل شعر کا عکس ہے:
شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے
خویش را دیدن بنُورِ دیگرے
دوسروں کی نظر میں
’’چند نقوش‘‘، از: ماہر القادری۔ ’’ایک رفیق کے تاثرات‘‘، از: ملک غلام علیؒ‘‘، مولانا مودودیؒ اپنے گھر میں‘‘، از: بیگم مودودیؒ، ’’قید و بند کی منزلیں‘‘، از: نعیم صدیقیؒ
وہبی شخصیت، سیفٹی ایکٹ، مارشل لا، شاہی قلعے میں، سنٹرل جیل، فوجی عدالت، شاہی مہمان،سزا، مولانا اصلاحی، کوٹھی ٹوٹ گئی، سرِ راہے، چرخہ، کھری کھری، مجلسِ مشاورت، دلیل کے بجائے کورٹ مارشل،اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، لطیفہ گوئی، مجھے دنیا بھول نہیں سکتی، منزلِ جاناں،
’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، اپنے ہاتھ کے نقوش میں‘‘، از: ایم اے ملک۔ سید مودودی کے ہاتھ کا اسکیچ‘‘، ’’چند تصریحات‘‘
’’من ھو مودودی‘‘، از: علامہ محمد البشیر ابراہیمی۔ ’’ابوالاعلیٰ مودودی ایک انقلابی مفکر‘‘، از: نعیم صدیقیؒ۔
بڑے آدمی، اس شخصیت کا عنوان، مربوط اور جامع مفکر، اسلام کا تعارف بحیثیت نظام و تحریک، مسلم قوم پرستی اور اسلام میں تفریق و تمیز،اجتماعی تقاضے کا تجزیہ،فکری استقلال کا داعی، ذہن کا حسن تربیت، مودودی ایک وسطی مقام
’’ابن تیمیہ کا رنگ‘‘،از: ڈاکٹر عطاء الرحمن ندوی۔ ’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی‘‘،از: شورش کاشمیری۔ ’’سحر طراز مونشیو مودودی‘‘، از: رشید احمد۔ ایم اے (پیرس)۔ ’’شخصیت جس سے ہم متاثر ہوئے‘‘، از: شیخ احمد ظفرؔ
کتاب بہت عمدہ کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ اس قابل ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ قیمت بہت مناسب ہے۔ خود مطالعہ کریں، دوستوں کو ہدیہ کریں، لائبریریوں میں رکھوائیں۔
کتاب : شخصیات
مصنف : مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
مرتب : سمیع اللہ بٹ، خالد ہمایوں
صفحات : 312
قیمت :ٍ 300روپے
ناشر : البدر پبلی کیشن
پتا : فرسٹ فلور، ہادیہ حلیمہ سینٹر، اردو بازار لاہور
اس کتاب میں حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی مختلف شخصیات پر تحریریں جمع کردی گئی ہیں۔ ملک غلام علیؒ معاونِ خصوصی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’جو لوگ علم و ادب اور فکر و نظر میں کوئی حقیقی اور ناقابلِ فراموش کارنامہ سرانجام دیتے ہیں اُن کی قلمی کاوشیں بالعموم دو اجزاء میں منقسم ہوجاتی ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جسے صاحبِ قلم ایک مرتبہ لکھ لینے کے بعد خود ہی اس پر نظر ثانی کرتا ہے اور اسے مناسب ترتیب کے ساتھ کتابی شکل میں طبع کرادیتاہے۔ دوسرا حصہ وہ ہوتاہے جو زبان یا قلم سے نکل کر ایک بار تو چھپ جاتاہے، مگر دوبارہ مصنف کی طرف سے اسے پلٹ کر دیکھے جانے کی نوبت نہیں آتی۔ ایسی تحریریں طاقِ نسیاں پر رکھ کر بھلا دی جاتی ہیں اور عام طور پر مقدم الذکر قسم کی نگارشات کے انبار میں دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔
ایسی تحریرات کے گوشہ خمول میں رہ جانے کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں، بسا اوقات صاحبِ تحریر انہیں مستقل یا عمومی افادیت کا حامل نہیں سمجھتا، بعض اوقات مصنف اپنی پختہ رائے ظاہر کرنے کے لیے جس تحقیق و تدقیق اور رکھ رکھاؤ کے جس معیار کا عادی ہوتا ہے ایسی قلم برداشتہ یا فی البدیہہ تحریر اُس کی اپنی نظر میں اس معیار سے فرو تر ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اہلِ قلم کو اپنے علمی و فکری مقاصد سے اتنا شدید انہماک ہوتا ہے کہ وہ شخصیات، وفیات یادِ رفتگان کی قبیل کے عنوانات کے تحت شاذو نادر ہی لب کشائی کرتے ہیں اور احیاناً کرتے بھی ہیں تو اتنے مختصر انداز میں کرتے ہیں کہ انہیں یہ احساس دامن گیر رہتا ہے کہ حق ادا نہیں ہوسکا۔ بعض اوقات مصنف کے گوناگوں مشاغل اور اس کے صبر آزما عملی مجاہدات اسے مہلت ہی نہیں دیتے کہ وہ اپنی ہر کہی ہوئی بات پر نظرثانی کرے اور اسے تصحیح و تکمیل اور ترتیب و تہذیب کے بعد لائقِ اشاعت بنائے۔
لیکن اس طرح کے ’’متروکاتِ سخن‘‘ کے معاملے میں جو نقطہ نظر مصنف کا ہوتا ہے، یا جو داخلی و خارجی موانع اسے درپیش ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ علمی نوادر کے متلاشی اور شائقین بھی اس نقطہ نظر کے حامل ہوں، یا اسی قسم کی رکاوٹیں ان کی راہ میں بھی حائل ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ صاحبِ تحریر جن تحریروں کو ’’بے رنگ‘‘ سمجھ کر نظرانداز کررہا ہے، کچھ دوسرے لوگ جو مصنف کے مداح اور شیدائی ہیں انہیں ان فراموش کردہ شذرات میں بھی ’’نقش ہائے رنگا رنگ‘‘ دکھائی دیں۔ مولانا مودودی ؒ کی قلمی تخلیقات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ان کی بہت سی نگارشات ایسی ہیں جو ایک دفعہ ان کے قلم سے نکل چکی ہیں مگر ان کی نگاہِ بازگشت سے محروم ہیں۔ تاہم ان کے بعض قدردانوں نے بڑی جستجو اور تفحص کے بعد اس طرح کے گم شدہ اور بکھرے ہوئے رشحاتِ قلم کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کی چند مساعی پہلے بھی ہوچکی ہیں۔ اب اس سلسلے کی مزید کوشش یہ زیر نظر مجموعہ ہے جسے بعض عزیز نوجوانوں۔۔۔۔ سمیع اللہ بٹ صاحب، سلیم منصور خالد صاحب، خالد ہمایوں صاحب۔۔۔۔۔ نے بڑی محنت سے یکجا کیا ہے۔ یہ بعض تاریخی شخصیتوں کی سیرت و سوانح کے اجمالی جائزوں اور خاکوں پر مشتمل ہے جنہیں مولانا مدظلہ نے وقتاً فوقتاً سپردِ قلم فرمایاہے۔
مجھے امید ہے کہ اہلِ ذوق اس کا خیر مقدم کریں گے اور اللہ نے چاہا تو مولانا محترم کی ہر دیگر تحریر کی طرح ان کے یہ قلمی نقوش و آثار بھی تشنگانِ علم کی تسکین و آسودگی کا باعث بنیں گے۔‘‘
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔ پروف کی کچھ اغلاط رہ گئی ہیں، امید ہے اگلے ایڈیشن میں درست کردیا جائے گا۔
خوبصورت سرورق سے آراستہ ہے۔