گاہے گاہے باز خواں ،کامیابی اور ناکامی کی حقیقت

مرحوم شورش کاشمیری نے پاکستان میں 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پہلے انتخابات کے نتائج کے صدمے سے متاثر ہوکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو ایک انتہائی جذباتی خط تحریر کیا تھا۔ اس خط کا جواب سید مودودی نے 19دسمبر 1970ء کو تحریر کیا جو شورش کاشمیری کے پرچے ہفت روزہ چٹان میں نمایاں طور پر شائع ہوا۔ مولانا نے انتخابی مہم اور انتخابی نتائج پر سرسری تبصرہ کرنے کے ساتھ اصولی باتیں اُن لوگوں کے سامنے پیش کی تھیں جو حق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اس تاریخی خط کو قارئین فرائیڈے اسپیشل کی یاددہانی اور تذکیر کے پیش کررہے ہیں۔ ] ادارہ[
’’حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجائے خود حق ہے۔ وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے، کیونکہ اس کا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے۔ دنیا کا ماننا یا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔ اگر دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا۔ مصائب حق پر نہیں بلکہ اہلِ حق پر آتے ہیں، لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انہیں بہرحال حق ہی پر قائم رہنا اور اسی کا بول بالا کرنے کے لیے اپنا سارا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے وہ مصائب میں تو مبتلا ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ’’ناکام‘‘ کبھی نہیں ہوسکتے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انبیاء ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ساری عمر دینِ حق کی طرف دعوت دینے میں کھپادی اور ایک آدمی بھی ان پر ایمان نہ لایا۔ کیا ہم انہیں ناکام کہہ سکتے ہیں؟ نہیں۔ ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انہیں رد کردیا اور باطل پرستوں کو اپنا رہنما بنایا۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں، اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں۔ لیکن لوگوں کا رد و قبول ہرگز حق و باطل کا معیار نہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریںکھاتی رہے، ہمارا کام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلانا ہی ہے، اور ہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم اس سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔ خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔ اس احسان کا شکر یہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں۔‘‘
]مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ حصہ دوم، ص 257 تا 259)

صبح

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندئہ مومن کی اذاں سے پیدا

-1 ایک صبح وہ ہے جس سے آنے والی کل اور آج پیدا ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں، یہ صبح جو کبھی آج کی شکل اختیار کرتی ہے اور کبھی آنے والی کل کی، کہاں سے پیدا ہوتی ہے۔
-2 وہ صبح جس سے وجود کا شبستان لرزتا ہے، جس سے زندگی کے اندھیرے میں اُجالا ہوتا ہے، ایمان والے بندے کی اذان سے پیدا ہوتی ہے۔
مراد یہ ہے کہ ایک صبح اس کائنات کی ہے، جسے عرفِ عام میں صبح کہتے ہیں اور وہ سورج کے طلوع سے نمودار ہوتی ہے، اگرچہ اس کی اصلیت کے متعلق کسی کو صحیح علم نہیں۔ یہی صبح کائنات کے اندھیرے کو زائل کرکے ہر جگہ روشنی پھیلاتی ہے۔ دوسری صبح وہ ہے جس سے انسانی زندگی کے اندھیرے میں اُجالا ہوتا ہے۔ اس صبح کا سرچشمہ مومن کی اذان ہے۔ یعنی جب مومن کی زبان سے کلمۂ حق بلند ہوتا ہے تو یہ صبح نمودار ہوجاتی ہے۔ افراد و اقوام میں اسی صبح زندگی کی تازہ روح دوڑ جاتی ہے جس طرح ہر صبح کائنات میں ایک حرکتِ عام پیدا کردیتی ہے۔