امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو پاکستان کی نئی حکومت کو ممکنہ بیل آئوٹ پیکیج دینے کے سلسلے میں متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے سی این بی سی کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ آئی ایم ایف کو چینی قرض ادا کرنے کے لیے پاکستان کی نئی حکومت کو فنڈ نہیں دینا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ پاکستان کے متوقع نئے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہے لیکن چینی قرض ادا کرنے کے لیے پاکستان کو بیل آئوٹ دینے کا کوئی جواز نہیں۔ پومپیو نے کہا کہ کوئی غلطی نہ کریں، ہم لوگ آئی ایم ایف پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہ کیا کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ٹیکس کے ڈالر اور اس کے ساتھ منسلک امریکی ڈالر کو جو کہ اس کا حصہ ہیں، چین کے قرض دہندوں یا خود چین کو دئیے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اتوار کو فنانشل ٹائمز نے خبر دی تھی کہ پاکستان کے سینئر مالی اہلکار نئی حکومت کے لیے 12 ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج جیسے آپشن پر غور کررہے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق آئی ایم ایف کی ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ہم بس اتنی تصدیق کرسکتے ہیں کہ ابھی تک ہمارے پاس پاکستان سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے اور ہمارے کسی بھی اہلکار سے کسی ممکنہ ارادے کے بارے میں بات چیت بھی نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان اپنے کرنسی کے بحران سے نکلنے کی جدوجہد میں ہے جو کہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں 1980ء سے آئی ایم ایف کے 14 مالی پروگرام چل چکے ہیں جن میں 2013ء میں تین سال کے لیے لیا جانے والا 6.7 ارب ڈالر کا قرض بھی شامل ہے۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے پاکستان کی درآمدات مہنگی ہوتی جارہی ہیں جب کہ برآمدات نیچے آرہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے پاس صرف 20 ارب ڈالر کے زرِ مبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس دو ماہ کی برآمدات کے پیسے نہیں رہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی روپے کی قدر میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔ پچھلے ایک سال میں ڈالر کے مقابلے پر روپے کی قدر 20 فیصد گر چکی ہے جب کہ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق اس میں مزید دس فیصد کمی ہوگی۔ ادھر چین نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے متعلق معاملات پر پاکستان مناسب طریقے سے نمٹ لے گا، آئی ایم ایف کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں، اسے ڈکٹیشن کی ضرورت نہیں، چین جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے لیے اوبور منصوبے میں امریکہ سمیت تمام ممالک کو شراکت داری کی دعوت دیتا ہے۔
ایران نے امریکی صدر کی ملاقات کی پیشکش مسترد کردی
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں بڑے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں اٹلی کے وزیراعظم گیوسپی کانٹے کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں ایک صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ ملنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ملنے اور اُن سے بات چیت میں یقین رکھتا ہوں، خاص طور پر جب آپ جنگ، قحط، ہلاکتوں اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں بات کررہے ہیں، آپ کو ملنا چاہیے، ملنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ صدر نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان سے براہِ راست بات چیت کا حوالہ دیا۔ انہوں نے روس کے صدر ولادی میر پ؎یوٹن کے ساتھ اپنی ملاقات کو بھی ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے دیے جانے والے بیان کے بعد ایرانی صدر کے مشیر حامد ابو طالبی نے ٹوئٹ کے ذریعے جواب میں کہا کہ ’جوہری معاہدے میں واپسی‘ اور ’ایرانی حقِ خود ارادیت‘ کو تسلیم کرنے کے بعد ہی ملاقات کی راہ ہموار ہوسکے گی۔
پاسپورٹ کا ظہور کب ہوا اور یہ سرکاری دستاویز میں کیسے تبدل ہوگیا؟
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حالیہ دور کے پاسپورٹ سے ملتی جلتی دستاویز کا سب سے پہلا تذکرہ 450 قبل مسیح کے قریب ملتا ہے جب فارسی سلطنت کے شہنشاہ اردشیر اوّل نے اپنے وزیر اور معاون نحمیا کو سوشہ شہر سے کوچ کرکے جنوبی فلسطین کے علاقے یہودیہ کا رخ کرنے کی اجازت دی۔ فارس کے شہنشاہ نے اپنے معاون کو ایک خط دیا تھا جس میں دریائے فرات کے دوسرے کنارے پر واقع علاقوں کے حکمرانوں سے درخواست کی گئی تھی کہ نحمیا کی نقل و حرکت کو آسان بنایا جائے۔ کئی پرانی دستاویزات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ پاسپورٹ کا لفظ قرونِ وسطیٰ سے وابستہ ہے۔ اُس زمانے میں اجنبی افراد کو شہروں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کے لیے مقامی حکام سے ایک اجازت نامے کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ ساحلی شہروں میں بھی بندرگاہوں میں داخلے کے وقت ملتی جلتی دستاویزات طلب کی جاتی تھیں۔
اکثر تاریخی ذرائع کے نزدیک برطانیہ کا بادشاہ ہنری پنجم وہ پہلی شخصیت ہے جس نے ہم عصر پاسپورٹ سے ملتی جلتی دستاویز پر انحصار کیا۔ برطانیہ کے بادشاہ نے 1414ء میں جاری آیک آرڈیننس (Safe Conducts Act 1414) کے ذریعے غیر ملکی اراضی پر اپنے شہریوں کی نقل و حرکت کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے ایک دستاویز فراہم کی جاتی جس سے اُن کی شناخت اور اصلی ملک کا ثبوت ملتا تھا۔ اس دوران 1435ء سے 7 برس تک اس آرڈیننس پر عمل معطل رہا۔ بعد ازاں 1442ء کے قریب اس پر دوبارہ عمل درآمد شروع ہوگیا۔ سال 1540ء میں ایک نئی قرارداد کی بنیاد پر سفری دستاویزات کا اجرا پریوی کونسل کا کام بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی پاسپورٹ کا لفظ پھیلنا شروع ہوگیا۔ بعد ازاں 1794ء میں دفتر خارجہ کے عہدے داران کو پاسپورٹ کے اجرا کی ذمے داری دے دی گئی۔
برطانیہ کے سب سے پرانے پاسپورٹ کی تاریخ 1636ء ہے جب برطانیہ کے بادشاہ چارلس اوّل نے اُس سال Sir Thomas Littletonکو سمندر پار اراضی کی جانب سفر کی اجازت دی جہاں اُس زمانے میں براعظم امریکہ میں انگریزی کالونیاں ہوتی تھیں۔ بعد ازاں ریل کی پٹریوں کے پھیل جانے اور انیسویں صدی کے آخری نصف اور بیسویں صدی کے اوائل میں مختلف ملکوں کے درمیان طویل سفر میں استعمال ہونے کے سبب یورپ کے درمیان سفر کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بھڑکنے کے ساتھ ہی صورتِ حال تبدیل ہوگئی اور اکثر ممالک نے مسافروں کے لیے سیکورٹی وجوہات کے پیش نظر پاسپورٹ پر انحصار لازم قرار دیا، اس لیے کہ جاسوسی اور تخریب کاری کے خطرے سے بچائو کے لیے آنے والوں کی شہریت جاننا ضروری ہوگیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے اختتام کے بعد دنیا کے مختلف بڑے ممالک ’’عالمی طاقتوں‘‘ نے پاسپورٹ پر انحصار کیا۔
سال 1920ء کے قریب لیگ آف نیشنز (اقوام متحدہ کے قیام سے قبل بین الاقوامی تنظیم) نے ایک اجلاس منعقد کیا جس کے دوران پاسپورٹ کے لیے معیاری ہدایات جاری کی گئیں جو اُن معیارات سے بہت حد تک ملتی ہیں جن پر آج انحصار کیا جا رہا ہے۔
ادھوری فتح
تحریک انصاف کی فتح ادھوری ہے۔ پارٹی ان خوبیوں اور خصائل سے محروم ہے جو مستقل طور پر فروغ کے ضامن ہوتے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ تنظیم ناقص ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اس کے لیڈر لڑتے جھگڑتے اور سازشوں میں لگے رہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ الیکشن 2018ء میں اس کی فتح کن عوامل سے پھوٹی ہے، وہ اگر ایک منظم جماعت ہوتی تو دوسروں کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ اگر امیدواروں کے انتخاب کا کوئی مؤثر نظام وضع کرلیا ہوتا تو ٹکٹوں کی تقسیم میں اس قدر حماقت کا مظاہرہ نہ ہوتا۔ مثلاً سرگودھا کے ممتاز کاہلوں کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جاتا اور اس کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو پانچ میں سے تین سیٹوں پر کامیابی کا امکان تھا۔ بالکل برعکس پے بہ پے پارٹیاں بدلنے والی ڈاکٹر نادیہ کو نوازا گیا` ممتاز کاہلوں کو کھیل سے نکال دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ کی پانچ سیٹیں ہار دی گئیں۔ علاقے کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے پورا ایک دن سرگودھا میں بسر کیا تھا، اور تحریری طور پر اپنی رائے گوش گزار کردی تھی۔
اتوار کی صبح لاہور میں پی ٹی آئی کے ایک نومنتخب ایم پی اے کو غنڈہ گردی پر گرفتار کرلیا گیا۔ وہ پہلے سے ہی بدنام تھا۔ پارٹی میں ایسے عناصر اور بھی ہیں۔
حقیقی خلوص محض ایک طرزِ فکر کا نام نہیں۔ مقصد سے واقعی جو محبت کرتا ہے وہ ایثار کرے گا، ریاضت میں لگا رہے گا۔ سیاست میں ایسے لوگوں کا فقدان ہے۔ الیکشن میں پی ٹی آئی کی برتری دراصل نوازشریف اور زرداری کی ناکامی ہے۔ خلق ان سے اکتا چکی تھی۔ شخصی اندازِ حکومت اور کرپشن۔
(ہارون رشید۔ دنیا،30جولائی 2018ء)
حکمران اور عوام
ہمارے ہاں ایک بہت ہی جلیل القدر حکمران ہوئے ہیں، جنہیں مورخین نے خلفائے راشدہ کے بعد انہی کی صف میں شامل کیا ہے اور جنہوں نے بہت کم عرصے کے لیے حکومت کی، یہی دو ڈھائی سال، مگر ہماری تاریخ پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے کہ اہلِ نظر نے انہیں مجددین میں شامل کیا، بلکہ اسلامی تاریخ کا پہلا مجدد قرار دیا۔ حضرت عمر بھی عبدالعزیزؒ، امام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے ساتھ بلکہ سب سے پہلے ان کا نام لکھا جاتا ہے۔ اس وقت ان کی شخصیت پر ایک کتاب میرے سامنے ہے۔ اس میں ایک باب کھلا پڑا ہے۔ اس باب میں بنوامیہ کے تین نامور ترین خلفاء کے عہد کا موازنہ بہت دلچسپ پیرائے میں کیا گیا ہے۔ اس میں جو اصول بیان کیا گیا ہے، وہ بہت عدیم المثال ہے۔ ولید، سلمان اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے ادوار کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ولید بن عبدالمالک عمارات وغیرہ کا بانی اور شوقین تھا۔ جب لوگ اس کے زمانے میں ملتے تھے تو ایک دوسرے سے صرف عمارات کا حال پوچھتے تھے۔ اس طرح سلمان بن عبدالمالک کھانے پینے اور نکاح کرنے والا بادشاہ تھا۔ اس کے زمانے میں لوگ صرف شادیوں اور لونڈیوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ جیسا حکمران ہوتا ہے، لوگ اُس کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ عوام وہی ہوتے ہیں مگر حکمران کے بدل جانے سے ان عوام کا شعور بھی بدل جاتا ہے۔ اس طرح عمر بن عبدالعزیزؒ مسندِ خلافت پر بیٹھے، ان کے دورِ حکمرانی کا بنیادی ستون روحانیت تھا۔ ہمارے اقبالؒ نے بھی آج کے عہد میں طرزِ حکمرانی کے مثالی ماڈل کو روحانی جمہوریت کہا ہے۔ بتایا جاتا ہے اُس زمانے میں لوگ ملتے تو پوچھتے: رات کو کون سا وظیفہ پڑھا ہے؟ قرآن کب ختم کیا؟ کتنا باقی ہے؟ اس ماہ کتنے روزے رکھے؟ غرض اس طرح کی باتیں جو اُس زمانے میں روحانیت کے طرزِعمل کے قریب تر تھیں۔ ڈرو نہیں، میں آپ کو مُلّا نہیں بنا رہا۔ مطلب یہ کہ ہر عہد کا مزاج اُس عہد کے حکمران کے مزاج سے متعین ہوتا ہے۔ آج ہم اقبال کی روحانی جمہوریت کے لیے خلفائے راشدہ کے دور کو اگر زندہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا طرزِ زندگی پاکیزہ، نفیس اور دلربا ہونا چاہیے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے باب میں یہ بھی درج ہے کہ نظام حکومت چلانے کے لیے ان کے کچھ مصاحب تھے، یعنی ساتھی تھے جو انہیں امورِ سلطنت میں مشورہ دیتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ مل کر رعایا کے معاملات پر غور کیا کرتے تھے۔ اس لیے عرض کررہا ہوں کہ کسی لیڈر کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ اپنے لیے کسی عمدہ ٹیم کا انتخاب کرے، کیونکہ اس سے اُس کی شخصیت بھی بنتی ہے، پھر اُس لیڈر کی شخصیت کا اثر پوری قوم پر پڑتا ہے۔ اُس وقت اسے رعایا کہتے تھے، آج کل عوام کہا جاتا ہے۔ میں نے آسانی کے لیے قوم لکھ دیا ہے۔ اُس وقت نظام حکومت اور تھا، آج اور ہے۔ تب خلافت تھی، اب جمہوریت ہے، مگر ایک بات ناقابلِ مبدل ہے، وہ یہ کہ حکمرانی اچھی ٹیم کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اگر کوئی لیڈر یا حکمران اپنی ٹیم کا انتخاب غلط کرتا ہے تو اُس کی اس انتخاب میں ایک غلطی بھی دوررس نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف میں تو اتنے متنوع عناصر شامل ہوگئے ہیں کہ یہ انقلاب بھی لاسکتے ہیں اور تباہی بھی۔
(سجاد میر۔ 92نیوز،31 جولائی2108ء)
اہلیت اور نااہلیت
۔1937ء کا سال ہندو پاکستان کے مسلمانوں کے لیے اتھاہ مایوسیوں، ناامیدی اور حوصلہ شکنی کا خوفناک سال تھا۔ انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندہ قیادت مسلم لیگ کو صرف چار فیصد ووٹ ملے تھے، اور بعد ازاں سات صوبوں میں کانگریس نے اپنی حکومتیں بناکر مسلمانوں کو اقتدار میں شرکت اور قومی دھارے سے نکال باہر کیا تھا۔ مسلمانوں کی رائے عامہ نے ذہنی شکستگی اور نامرادی کا شکار ہوکر ہمیشہ کے لیے ہندو غلامی کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا۔ اس دور کے تجزیہ نگاروں، دانشوروں اور چھوٹے چھوٹے سیاسی رہنمائوں نے امید کے چراغ بجھا دیئے تھے۔ ایسے میں قدرت نے تاریکی میں امید کی شمع روشن کی اور قائداعظم کو روشنی کا مینار بناکر قیادت سونپ دی۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد نے مسلمانوں کے تیقن کو زندہ کیا اور مسلمان عوام اپنی منزل کے شعور اور جوش و جذبے سے مالامال ہوکر ہرقسم کی قربانی اور ایثار کے لیے تیار ہوگئے۔ اندھیرے چھٹ گئے، امید کے چراغ جلنے لگے۔ یہ چراغ تیقن کے تھے اور اللہ سبحانہٗ تعالیٰ پر پختہ یقین کی غمازی کرتے تھے۔
قرآن مجید کا فرمان ہے: انسان کو اپنی نیتوں کا پھل ملتا ہے۔ چنانچہ نیت کامیابی کی کنجی ہے اور اللہ پاک نیت کو بہترین جانتے ہیں۔ قدرت جب انقلاب، تبدیلی اور بہتری لانا چاہتی ہے تو بظاہر ایک گناہ گار اور گناہوں میں لتھڑے انسان سے بھی کام لے لیتی ہے بشرطیکہ اس کی نیت میں خلوص ہو۔ قدرت جب چاہتی ہے تو نااہل کو اہل بنادیتی ہے اور خام منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اس لیے امید کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اللہ پاک سے بہتری مانگتے رہو اور اپنی دعا پر یقین رکھو۔ پختہ یقین کے ساتھ کوشش اور جدوجہد جاری رکھو کہ حرکت کے بغیر برکت پیدا نہیں ہوتی۔انتخابات ہوچکے۔ قوم اپنا فیصلہ سنا چکی۔ فیصلہ قبول اور مسترد کرنے والے محاذ آرائی کے محاذ کھول رہے ہیں۔ ملک شدید مالی بحران میں مبتلا ہے۔ معاشی صورت حال کبھی بھی اتنی مایوس کن نہیں تھی۔ لیکن آپ دیکھیں گے کہ اسی مایوس کن صورت کی زمین میں امید کے پھول کھلیں گے۔ جب حکومت کرپشن سے پاک ہوگی تو نہ صرف بیرونِ وطن پاکستانی وطن میں سرمایہ کاری کے لیے آئیں گے بلکہ بہت سے ممالک صنعت کاری اورسرمایہ کاری کے ارادے سے یہاں آئیں گے۔ سعودی عرب، چین اور کئی دوست ممالک مدد کے لیے لپکیں گے۔ ارادے نیک ہوں اور نیت عمل سے ظاہر ہورہی ہو تو قدرت بھی مہربان ہوجاتی ہے۔ اگر مستقبل کے حکمرانوں نے نیک نیتی سے ملک و قوم کی خدمت نہ کی تو وہ بھی کوڑے دان کا کوڑا بن جائیں گے۔ میرے اس حُسنِ ظن کی بنیاد تیقن پر ہے، اور مجھے ذات ِباری تعالیٰ کے انصاف پر پختہ یقین ہے۔ رسّی دراز ہوتی ہے اور دیر ضرور ہوتی ہے، لیکن یہ دیر اندھیر نہیں بلکہ روشنی کا چراغ جلاتی ہے۔ذرا تدبر کی آنکھ کھولو، غور کرو اور واقعات کے طویل سلسلے پر نگاہ ڈالو۔ آپ کو قدم قدم پر عبرت کا سامان نظر آئے گا اور حالات کے پسِ پردہ قدرت کا فیکٹر کام کرتا دکھائی دے گا۔
(ڈاکٹر صفدر محمود۔ جنگ،31جولائی 2018ء)