کراچی انتخابات، نتائج میں تاخیر، تحفظات اور سوالات

ڈاکٹر اسامہ شفیق
پاکستان میں 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف نشاندہی کررہی ہیں۔ یہ بے ضابطگیاں کیا ہیں، ذرا ایک نظر ان پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے لیے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ریٹائرڈ) سردار رضا خان نے پاک فوج کی مدد طلب کی۔ اس ضمن میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ فوج کا کردار شروع میں سیکورٹی تک محدود تھا، لیکن 25 جولائی کو محسوس یہ ہوا کہ یہ عمل سیکورٹی سے زیادہ ہوگیا۔ صبح سے میڈیا کے نمائندوں نے دہائی دینا شروع کی کہ میڈیا کو پولنگ اسٹیشنوں میں داخل ہونے نہیں دیا جارہا۔ اے آر وائی کراچی کے رپورٹر فیض اللہ خان نے فیس بک پر پوسٹ کی کہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ کارڈ کے باوجود پولنگ اسٹیشن میں داخلے کی اجازت نہیں تو پھر کارڈ کیوں جاری کیا گیا؟ سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کو موبائل فون اندر لے جانے کی اجازت نہیں تھی، ووٹرز کو تلاشی کے بعد موبائل باہر رکھ کر جانے کے بعد ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ ان حالات میں پولنگ جاری رہی، تاہم اچانک اکثر مقامات پر شام کے قریب پولنگ ایجنٹ کو تبدیل کرنے سے انکار کردیا گیا، جب کہ یہ انتخابی عمل کا حصہ ہے کہ امیدوار کسی بھی وقت اپنا ایجنٹ تبدیل کرسکتا ہے۔ کراچی کے کئی پولنگ اسٹیشنوں پر یہ شکایات ہیں کہ پولنگ ایجنٹ کی تبدیلی کو روک دیا۔ شام چھے بجے پولنگ کے اختتام پر گنتی کا آغاز ہوا تو پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور متحدہ مجلس عمل کے مطابق کراچی کے کئی پولنگ اسٹیشنوں سے ایجنٹوں کو دھکے دے کر باہر نکال دیا گیا۔ اکثر مقامات پر گنتی ایجنٹوں کی موجودگی میں ہوئی لیکن ان کو الگ بٹھا دیا گیا اور پریزائیڈنگ کے عملے نے ان کی گنتی کی۔ اس دوران فوجی جوان تک معلومات حاصل کرتے رہے۔ حلقہ این اے 256 کراچی وسطی نارتھ ناظم آباد بلاک آئی میں واقع ابراہیم علی بھائی اسکول کے پولنگ اسٹیشن پر بار بار فوجی آکر ووٹوں کی تعداد پارٹی کے لحاظ سے معلوم کرتے اور فون پر کسی اور کو دیتے رہے۔ فیڈرل بی ایریا این اے 252 کے ایک ہی پولنگ اسٹیشن میں مرد بوتھ کا تو نتیجہ دے دیا گیا لیکن خواتین کا نتیجہ دینے سے انکار کردیا گیا۔ گنتی کی سست روی اور نتائج میں تاخیر کے بعد کراچی سمیت پورے ملک میں سادہ پرچوں پر رزلٹ ایجنٹوں کو تھما دیے گئے، جب کہ الیکشن قوانین کے مطابق نتائج کا اجرا صرف فارم 45 اور 46 پر ہی ممکن ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی نے لکھا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 13 کے تحت ریٹرننگ افسران انتخابی نتائج ہر صورت رات 2 بجے سے پہلے الیکشن کمیشن کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ ان نتائج کو الیکشن کمیشن فوری طور پر سنانے کا پابند ہے، تاکہ نتائج میں کسی رد و بدل اور دھاندلی کے امکان کو ختم کیا جاسکے۔ قواعد کے مطابق اگر کوئی ریٹرننگ افسر کسی وجہ سے الیکشن کا نتیجہ رات دو بجے تک الیکشن کمیشن کے حوالے نہیں کرتا تو اُسے شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ نتیجے میں تاخیر کی وجہ غیر تسلی بخش ہونے کی صورت میں آر او کے خلاف کارروائی کے علاوہ الیکشن کا نتیجہ بھی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ الیکشن 2018ء کی رات دو بجے الیکشن کمیشن کے اپنے اعلان کے مطابق اُسے ریٹرننگ افسران کی جانب سے صرف 30 فیصد نتائج موصول ہوسکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تک ایک بھی مکمل نتیجہ نہیں سنایا ہے۔
معروف صحافی طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹ میں ایسے ہی رزلٹ کی تصویر عوام کے سامنے پیش کی ہے۔ غیر معمولی تاخیر اور نتائج فارم 45-46 پر نہ دیے جانے پر سیاسی جماعتوں نے رات دس بجے ردعمل کا آغاز کیا۔ ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے الزام عائد کیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا ہے، اسی طرح پیپلزپارٹی کی شیری رحمن اور متحدہ مجلس عمل کے حافظ نعیم الرحمن نے بھی یہی بات کی۔ دل چسپ امر یہ تھا کہ ایک جانب سیاسی جماعتیں نتائج میں تاخیر پر پریس کانفرنس کررہی تھیں تو دوسری جانب ٹی وی آدھے پاکستان کے نتائج جاری کرچکا تھا، جب کہ سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹس کے پاس موبائل فون بھی موجود نہیں تھے تو یہ نتائج پولنگ عملے یا الیکشن کمیشن نے میڈیا کو دیے؟ یا سیکورٹی پر مامور فوجی جوانوں نے؟ پولنگ اسٹیشنوں میں دورانِ گنتی جب کہ نہ تو کسی کو اندر جانے کی اجازت تھی اور نہ ہی باہر جانے کی، تو اسی طرح اتنے اچھے انتظامات والے الیکشن میں پولنگ عملے کو دورانِ تربیت جب کہ فارم 45-46 بھرنے کی تربیت بھی دی گئی تھی، تو ان کو فارم 45-46 کیوں نہیں دیے گئے؟ ملک کے بیشتر حلقوں میں رات دو بجے کے بعد تک گنتی مکمل نہیں ہوئی تھی، جب کہ گزشتہ انتخابات میں یہ عمل چار سے پانچ گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا تھا، جب کہ شرح ووٹ بھی وہی تھی تو اس غیر معمولی تاخیر کی کیا وجہ ہے؟ اگر نتائج کی ترسیل کا موبائل فون سسٹم (RTS) دبائو کی وجہ سے کام نہیں کررہا تھا تو کیوں نتائج فارم 45-46 پر سیاسی جماعتوں کو صبح تک جاری نہیں کیے گئے؟ اتنی تاخیر کی وجہ سے سیاسی جماعتوں نے باقی ماندہ پولنگ اسٹیشنوں سے اپنے ایجنٹس کو بغیر نتائج حاصل کیے رات دو، تین بجے تک نکال لیا۔ اب جب کہ سیاسی جماعتوں کے سامنے نتائج فارم 45-46 پر جاری نہیں کیے گئے تو ان کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ الیکشن کمیشن کی جانب سے قائم کردہ مانیٹرنگ روم کہ جس سے ملک کے تمام پولنگ اسٹیشنوں اور بوتھ کی کیمروں کے ذریعے مانیٹرنگ کی جارہی تھی وہ الیکشن کمیشن کے عملے کے بجائے سیکورٹی فورسز کے قبضے میں کیوں تھا؟
ایک معروف سیاسی رہنما نے بتایا کہ الیکشن سے قبل تین ٹی وی چینلز نے ان سے الیکشن ٹرانسمیشن میں شرکت کے لیے وقت لیا تھا جیسا کہ ہر انتخابات میں لیا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد اچانک ملک کے تمام چینلز سے سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ختم کرکے ٹرانسمیشن میں اپنے ہی ماہرین کو بٹھا دیا گیا۔ الیکشن 2018ء، اور نتائج میڈیا کوریج کے حوالے سے سوالات بہت سنجیدہ ہیں کیونکہ اس میں تین آئینی ادارے الیکشن کمیشن، فوج اور عدلیہ براہِ راست سوالات کی زد میں ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج میں تاخیر اور اس پر اٹھنے والے سوالات کے جوابات دینا تینوں اداروں کا فرض ہے، کیونکہ اب تک ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سمیت آٹھ سیاسی جماعتیں نتائج کو مسترد کررہی ہیں۔ میڈیا کی خاموشی بھی ماحول میں پراسراریت پیدا کررہی ہے۔ پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا آزادانہ کردار ادا کرے، اور آئینی ادارے اپنے اوپر اٹھنے والے سوالات کا جواب دیں، ورنہ 1970ء کے انتخابی نتائج ملک کو توڑنے اور 1977ء کے نتائج پر احتجاج مارشل لا پر منتج ہوا کہ جس سے ملک کی جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہ ہوسکا۔

حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی کے رابطے

پاکستان تحریک انصاف نے 5 سیاسی جماعتوں کو حکومت سازی کے لیے دعوت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے حکومت سازی کے لیے ابتدائی مشاورت مکمل کرلی ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ عمران خان نے سینئر پارٹی رہنمائوں کے ساتھ حکومت سازی پرمشاورت کی جہاں پنجاب میں حکومت سازی کے لیے آزاد امیدواروں کے ساتھ رابطوں کا فیصلہ کیا گیا، جبکہ پی ٹی آئی قیادت کا بلوچستان عوامی پارٹی کو دعوت دینے کا فیصلہ بھی سامنے آیا ہے۔ابتدائی مشاورت میں بی این پی، جی ڈی اے اور مسلم لیگ (ق) کو خوش آمدید کہنے کا فیصلہ کیا گیا، جبکہ پی ٹی آئی سندھ کے لیے ایم کیو ایم سے بھی ملاقات کرسکتی ہے۔

فارم 45 کیا ہے؟

پاکستان کی تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے فارم 45 نہ ملنے کی شکایت کی ہے۔ لیکن یہ فارم ہوتا کیا ہے؟
فارم 45 اور فارم 46 کا کردار پولنگ کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ کسی بھی پولنگ اسٹیشن کا پریزائیڈنگ افسر ووٹ ڈالنے کے عمل کے خاتمے کے بعد گنتی کا عمل امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں شروع کرتا ہے۔گنتی کے مکمل ہونے پر پریزائیڈنگ افسر ہر پولنگ ایجنٹ کو گنے گئے ووٹوں کی تعداد فارم 45 میں لکھ کر اپنے دستخط اور انگوٹھے کے نشان کے ساتھ جاری کرتا ہے۔ اس پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط بھی ہونے چاہئیں۔
ہر پولنگ اسٹیشن سے یہ فارم اکٹھے کرکے مجموعی نتیجہ مرتب کیا جاتا ہے۔ فارم 46، موصول ہونے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد، استعمال شدہ، مسترد شدہ کی تفصیل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پریزائیڈنگ افسر یہ دونوں فارم یا فہرستیں پولنگ اسٹیشن کے کسی واضح مقام پر آویزاں کرنے کا پابند ہوتا ہے تاکہ عام لوگ اسے دیکھ سکیں۔ یہی دو فارم فوراً الیکشن کمیشن بھیج دیے جاتے ہیں۔

لیاری سے متحدہ مجلس عمل کے سید عبدالرشید کامیاب

لیاری سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار سید عبدالرشید کا کہنا تھا کہ اس بار لیاری کے انتخابی نتائج حیران کن ہوں گے اور یہاں سے ایم ایم اے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی، اور اب خبر یہ ہے کہ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری سے پی پی کو شکست ہوگئی ہے، مجلس عمل کے امیدوار سید عبدالرشید کامیاب ہوگئے ہیں۔ شاندارکامیابی پر لیاری کے مختلف علاقوں میں ایم ایم اے کے کارکنان جشن منارہے ہیں اور لیاری کی فضا تکبیر کے نعروں سے گونج رہی ہے۔ مختلف برادریوں، سیاسی و سماجی رہنمائوں، اہم شخصیات و معززینِ علاقہ نے الیکشن میں کامیابی پر سید عبدالرشید کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے علاقے کی بہتری کے لیے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انتخاب سے قبل پی پی جنوبی کے صدر خلیل ہوت کا دعویٰ تھا کہ حلقے میں پیپلزپارٹی کا کسی جماعت سے دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کا مقابلہ متحدہ مجلس عمل سے متوقع ہے۔ اور پھر یہی ہوا۔ مقابلہ ہوا اور سید عبدالرشید کامیاب ہوگئے۔ صوبائی نشست پر الیکشن لڑنے والے جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا ہے کہ لیاری بہت باصلاحیت لوگوں کا علاقہ ہے لیکن اس علاقے میں بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے، یہاں پر منشیات فروشوں نے بھی بے روزگار لوگوں کو استعمال کیا ہے، جب کہ لیاری کے لوگ فٹبال، کرکٹ، باکسنگ، جمناسٹک اور سائیکلنگ میں نہ صرف دلچسپی بلکہ اچھی خاصی مہارت بھی رکھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے حکومتی سطح پر ان کی کوئی سرپرستی نہیں ہوتی۔ اس وقت لیاری میں تقریباً 5 ہزار لوگ فٹبال کھیلنے والے ہیں اور 25 ہزار کے قریب ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنی نوجوانی یا عمر کے کسی حصے میں فٹبال کھیلی ہے لیکن یہاں کا بہت بڑا ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے۔ سید عبدالرشید لیاری کے عوام کے لیے پُرعزم ہیں اور ان کے لیے اکک مستقل پروگرام رکھتے ہیں، خاص طور پر لیاری میں بہترین اور معیاری تعلیم کی ضرورت ہے، وہ اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
یہاں کے عوام 15۔ 20 سال سے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، یہاں انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، سیوریج لائنیں ٹوٹی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے گلیوں میں گندا پانی موجود رہتا ہے۔ سید عبدالرشید کے مطابق پانی اور بجلی کے مسائل حل کرنا تو بنیادی طور پر بلدیاتی نمائندوں کے کام ہیں لیکن صوبائی سطح پر جو کردار ادا کرسکے، کریں گے۔ لیاری کے ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچائیں گے اور اسپورٹس اینڈ کلچر پر لیاری میں خصوصی طور پر کام کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی گزشتہ کئی برسوں سے لیاری میں کئی پروجیکٹس پر کام کررہی ہے، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت لیاری کے 10 ہزار شہریوں کا مفت علاج کرایا، لیاری میں جماعت اسلامی کے 4 میڈیکل سینٹر کام کررہے ہیں، اس کے علاوہ تین یوٹیلٹی اسٹور اور 5 آر او پلانٹ بھی جماعت اسلامی کے تحت کام کررہے ہیں جس سے روزانہ 7 ہزار گھروں کو پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ علاقے میں ایک ایجوکیشن پروٹیکشن سینٹر کے ساتھ یتیم بچوں کی کفالت کا ایک سینٹر بھی چل رہا ہے جس میں 450 سے زائد بچوں کی کفالت کی جا رہی ہے، اس سینٹر میں آنے والے بچوں کے پہلی جماعت سے 12 ویں تک کے تعلیمی اخراجات جماعت اسلامی برداشت کرتی ہے۔ جب اقتدار کے بغیر اتنے کام کرسکتے ہیں تو پھر وسائل کے ساتھ اور بہت بڑے بڑے کام کیے جاسکتے ہیں۔