۔25 جو لائی کو خیبر پختون خوا میں ہونے والے عام انتخابات کے غیر حتمی نتائج نے تمام تجزیوں اور اندازوں کو غلط ثابت کردیا ہے، البتہ ان انتخابات… جن کو شاید وطن عزیز کے متنازع ترین انتخابات گردانا جارہا ہے… کے حوالے سے یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ آیا سوائے پاکستان تحریک انصاف کے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے بقول ان میں بڑے پیمانے پرنہ صرف دھاندلی ہوئی ہے بلکہ عام انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل سے لے کر احتساب اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے جو عمومی فضا بنانے کی کوشش کی گئی اس کو دیکھتے ہوئے ان انتخابات پر انگلیاں اٹھنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ انتخابات کے اب تک جو غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق غیر متوقع طور پی ٹی آئی نے اپ سیٹ کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی 39 نشستوں میں سے 30 ،اور صوبائی اسمبلی کی 98 نشستوں میں سے 66 پرکامیابی سمیٹتے ہوئے بڑا بریک تھرو کیا ہے، بلکہ اگر اس کامیابی کو صوبے کی سیاسی تاریخ میں ایک بڑے اپ سیٹ سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے بارے میں خیال تھاکہ وہ خیبر پختون خوا میں پانچ سال تک حکومت کرنے کے بعد صوبے کی عمومی سیاسی روایات کے مطابق حالیہ انتخابات میں اپنا مینڈیٹ برقرار نہیں رکھ سکے گی، لیکن اب سامنے آنے والے نتائج نے ان تمام اندازوں اور تجزیوں کو غلط ثابت کردیا ہے اور پی ٹی آئی کا جادو 2013ء سے بھی بڑھ کر سرچڑھ کر بولا ہے، کیونکہ اسے اپنی قومی اور صوبائی اسمبلی کی سابقہ نشستوں کے علاوہ اُن نشستوں پر بھی کامیابی ملی ہے جنہیں اے این پی، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن) اورجمعیت (ف) کی روایتی نشستیں کہا جاتا تھا۔ خاص طور پر ہزارہ ڈویژن مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا جہاں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی جاوید مرتضیٰ عباسی، سابق وفاقی وزیر سردار محمد یوسف کی نشستیں پکی سمجھی جاتی تھیں جن پر اب پی ٹی آئی کے امیدواران کامیاب ہوگئے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں ہونے والے اپ سیٹس میں سب سے بڑا اپ سیٹ بنوں سے سابق وفاقی وزیر اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کی عمران خان کے ہاتھوں این اے 35 اور پی کے 90 پر پی ٹی آئی کے عدنان خان کے ہاتھوں شکست ہے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کی ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 38 اور 39 پر پی ٹی آئی کے امیدواران علی امین گنڈاپور اور شیخ یعقوب سے شکست کو بھی ایک بڑا سیاسی اپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے۔ اسی طرح این اے 3 سوات پر شہبازشریف، اور این اے 2 سوات پر امیرمقام کی شکست کے ساتھ ساتھ این اے 8 ملاکنڈ ایجنسی پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ایم ایم اے کے صوبائی صدر مولاناگل نصیب خان کی شکست بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خیبر پختون خوا میں الٹنے والے دیگر بڑے بڑے سیاسی برجوں میں تین دیگر برج اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کا این اے 24 چارسدہ سے پی ٹی آئی کے امیدوار فضل محمد کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا ہے، جبکہ این اے 23 چارسدہ سے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپائو کا پی ٹی آئی کے ایک گمنام امیدوار انورتاج اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیرسراج الحق کا این اے 7 لوئر دیر سے پی ٹی آئی کے بشیرخان، اور این اے 5 اپردیر پر جماعت اسلامی کے سابق پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اﷲ کا اپنے کزن صاحب زادہ صبغت اﷲ جو حال ہی میں جماعت اسلامی سے ناراض ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا ہے۔
خیبر پختون خوا میں بعض نامور جماعتوں کے اپنے مخصوص اور معلوم پاکٹس ہیں، جن میں جمعیت (ف) کا اثر صوبے کے جنوبی اضلاع، اے این پی کا وسطی اضلاع، جماعت اسلامی کا ملاکنڈ کے شمالی اضلاع اور مسلم لیگ (ن) کا ہزارہ ڈویژن میں ہے، لیکن حالیہ نتائج نے پی ٹی آئی کی جیت کی صورت میں ان تمام صف بندیوں اور مضبوط پاکٹس کی روایات کو درہم برہم کردیا ہے، البتہ یہاں یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ آیا یہ سیاسی کایاپلٹ فطری ہے، یا پھر اس کے پیچھے بھی وہی روایتی فارمولا اور ہتھکنڈا استعمال ہوا ہے جس کا ہماری انتخابی تاریخ میں بالعموم اور حالیہ انتخابات میں بالخصوص بہت شور رہا ہے۔ حالیہ انتخابات میں بالخصوص قبل از انتخابات کے سیاسی تجزیوں کے بہت زیادہ برعکس کوئی نتیجہ سامنے آیا ہے تو وہ ایم ایم اے کی خیبر پختون خوا میں بدترین شکست ہے، جس میں شامل دو بڑی اور اہم جماعتوں جمعیت (ف) اور جماعت اسلامی کی 2013ء کے انتخابات میں 25 نشستیں تھیں جو اب اتحاد کے باوجود سکڑ کر10 رہ گئی ہیں، جس میں زیادہ خسارے کا سامنا جماعت اسلامی کو کرنا پڑا ہے جسے اپنے مخصوص حلقوں دیربالا، دیرپائین اور بونیر میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور قومی وطن پارٹی کو بھی 2013ء کی نسبت عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، البتہ اے این پی اپنی گزشتہ پانچ حاصل کردہ نشستوں میں معمولی اضافے کے ساتھ آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنی پوزیشن نسبتاً بہتر بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، جس میں ایک نمایاں ترین نشست پشاور پی کے 70کی وہ اکلوتی نشست ہے جس پر اے این پی کے سابق ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی خوشدل خان ایڈووکیٹ کے ہاتھوں پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر شاہ فرمان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، البتہ شاہ فرمان جنہیں عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے، ایک دوسرے صوبائی حلقے پی کے 71 سے کامیاب ہوگئے ہیں۔ پشاور کے حوالے سے یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ یہاں سے صوبائی اسمبلی کے ایک متذکرہ بالاحلقے پی کے 70 کے سوا صوبائی اسمبلی کی 14 میں سے 13 اورقومی اسمبلی کی پانچوں نشستوں پر پی ٹی آئی کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے۔
خیبر پختون خوا میں سامنے آنے والے نتائج پر دھاندلی کے شدید اور سنجیدہ الزامات کی بحث سے قطع نظر ایک بات واضح ہوکر سامنے آئی ہے کہ خیبر پختون خوا کے ووٹرز نے ایک بار پھر ملک میں ٹرینڈ سیٹر کا کردار ادا کرتے ہوئے الیکشن سے پہلے ہونے والے تمام تجزیوں اورآراء کو نہ صرف غلط ثابت کردیا ہے، بلکہ خیبر پختون خوا کے ووٹرز نے سابقہ تمام روایتی جماعتوں کو مسترد کرتے ہوئے تبدیلی کے نام پر پی ٹی آئی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس نے جہاں صوبے میں اثررسوخ رکھنے والی تمام روایتی سیاسی جماعتوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا، وہیں یہ پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ ساتھ صوبے کے ووٹرزکی سیاسی بصیرت کا بھی ایک بڑا امتحان ہے۔ لہٰذا حالیہ انتخابات کے نتائج کئی حوالوں سے آنے والے دنوں میں ملکی سیاست پر بالعموم اور خیبر پختون خوا کے سیاسی حالات پر بالخصوص انتہائی اہم اثرات مرتب کریں گے۔