فریحہ عامر
درخت زندگی کی علامت اور زمین کا زیور ہیں۔ کہتے ہیں، ملک سونے اور چاندی کے بغیر ترقی کرسکتا ہے لیکن جنگلات کے بغیر نہیں۔ ہم زندہ رہنے کے لیے جو سانس لیتے ہیں، وہ درختوں کی ہی مرہونِ منت ہے، یعنی ہماری زندگی کی سانسیں درختوں کی وجہ سے چل رہی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا جس دن ان درختوں کے وجود سے خالی ہوگئی وہ دن انسان کا آخری دن ہوگا۔
جنگلات صرف انسانی زندگی کے لیے ہی اہم نہیں ہیں، بلکہ جانوروں کی بقاء کے لیے بھی ضروری ہیں۔ جنگلی حیوانات کے لیے جنگلات اور یہ درخت خوراک اور تحفظ مہیا کرتے ہیں۔ ان ہی جنگلات کی بدولت ہماری طبی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان سے جڑی بوٹیاں، عمارتی لکڑی اور جلانے والی لکڑی حاصل ہوتی ہے۔ جنگلات آب وہوا کو تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور اب پوری دنیا میں یہ تبدیلی بڑی تیزی سے رونما ہورہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 2050ء تک 6 ارب لوگ شہروں میں آباد ہوں گے اور کنکریٹ کنسٹرکشن کی وجہ سے شہری علاقوں میں خالی جگہوں پر درخت اور پودے لگانے کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ درخت اور ان کی ٹھنڈی چھائوں ماحول کو خوبصورت اور خوشگوار بنانے میں اہم کردار کرتی ہے، لیکن تمدن کی ترقی نے خوبصورت اور خوشگوار ماحول کو ختم کرکے انسان کو فطرت سے دور کردیا ہے، انسان نے اپنے ہاتھوں قدرتی ماحول کو تباہ کرکے اپنی بربادی کا سامان کیا ہے۔ اب کرۂ ارض کے موسم میں بڑی تیزی سے غیر متوقع تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ ایک طرف جہاں انٹارکٹیکا کے برف زار پگھل رہے ہیں اور دنیا کے بعض حصوں کے زیرآب آنے کے خطرات پیدا ہوچکے ہیں وہیں دوسری جانب کئی خطوں میں بارشوں کی کمی اور آبی وسائل کی کمیابی جیسے مسائل کے باعث خشک سالی اور غذائی قلت کے آثار پیدا ہوگئے ہیں، لیکن سب سے بڑا خطرہ خود انسانی صحت اور بقاء کے لیے پیدا ہوچکا ہے۔
پاکستان بھی موسم کی تبدیلی کے باعث تیزی سے متاثر ہورہا ہے۔ موسم کی خراب صورتِ حال کی وجہ سے سیلاب کے خطرات میں دگنا اضافہ ہوگیا ہے۔ پرانے وقتوں میں دیہی علاقوں میں سرسبز لہلہاتے کھیت کھلیان اور درخت روح کو تازگی بخشتے تھے، لیکن اب دیہاتوں میں بھی وہ چیز باقی نہیں رہی۔ کیکر، شیشم، شہتوت اور پیپل کے جو درخت نظر آجاتے تھے وہ اب ناپید یا شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہوچکے ہیں، اور اسی وجہ سے شہری اور دیہی سطح پر ماحول میں تبدیلی آتی جارہی ہے، اور ماہرین کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی ایک اہم وجہ پہاڑوں پر درختوں کی کٹائی ہے جس سے بیشتر بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کینسر، ملیریا، اسہال اور دمہ وغیرہ جیسی بیماریوں کے علاوہ غذائی کمی کے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے، جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال 60 ہزار افراد الٹراوائلٹ شعاعوں کی وجہ سے جِلدی بیماریوں کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے صحت کے امور سے متعلق ادارے ڈبلیو