ملک میں گیارہویں عام انتخابات مکمل ہوئے، نومنتخب قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیاں ایک بار پھر وجود میں آگئی ہیں۔ اب ملک میں صدارتی انتخاب ہوگا اور اس کے بعد خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوگا۔ اب تک ملنے والے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی میں تحریک انصاف دیگر جماعتوں پر برتری حاصل کرچکی ہے، 342 کے ایوان میں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے 171 ووٹ چاہئیں، لیکن تحریک انصاف تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا اسے مسلم لیگ(ق)، بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان)، جی ڈی اے اور آزاد امیدواروں کو ساتھ ملاکر حکومت تشکیل دینا ہوگی۔
حالیہ انتخابات میں مرکز اور صوبوں میں ملاجلا مینڈیٹ سامنے آیا ہے، تاہم سندھ میں پیپلزپارٹی کے پاس اکثریت ہے، لہٰذا وہ کسی سودے بازی کے بغیر حکومت سازی کرسکتی ہے۔ کے پی کے میں تحریک انصاف ایک بار پھر حکومت بنائے گی اور اِس بار اسے حلیفوں کے دبائو سے آزاد رکھا گیا ہے۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی حلیف جماعتوں کے ساتھ حکومت بنائے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اگرچہ اکثریت میں ہے تاہم اسے حکومت سازی کے لیے ایک بڑے امتحان سے گزرنا ہوگا، لیکن شہبازشریف کے پاس ایک ایسی حکومت ہوگی جس کی ڈوریاں حلیف جماعتوں کے پاس ہوں گی۔
حالیہ انتخابات کے حوالے سے اطمینان بخش بات یہ رہی کہ کوئٹہ کا واقعہ چھوڑ کر ملک میں مجموعی طور پر انتخابات پُرامن ماحول میں ہوئے، تاہم پولنگ عملے کی رفتار سارا دن سست رہی۔ عملہ ’’گوسلو‘‘ پالیسی پر کاربند نظر آیا۔ خوش آئند بات یہ بھی رہی کہ بروقت انتخابات ہوگئے لیکن شفاف، غیر جانب دارانہ، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا وعدہ توقع کے مطابق پورا نہیں ہوسکا۔ جو پیا من بھائی وہی دلہن کہلائی والی صورتِ حال ہے۔ تحریک انصاف کے سوا دیگر تمام سیاسی جماعتیں انتخابی عملے کی جانب سے فارم پینتالیس پر تصدیق شدہ نتیجہ نہ دینے کا گلہ کررہی ہیں، ان سب کا مؤقف ہے کہ امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کو سادہ کاغذ پر نتیجہ دیا گیا ہے۔ بیشتر مقامات سے یہ شکایت ملی ہے کہ پولنگ ایجنٹس کو نتیجہ دیے بغیر ہی باہر نکال دیا گیا۔ یہ صورتِ حال الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے لیے اچھی نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ کیا ماضی کی طرح دھرنے ہوں گے؟ شکایت کرنے والی تمام جماعتیں مل کر کوئی لائحہ عمل بنائیں گی؟ یا انفرادی طور پر کوئی سودا طے کرلیں گی؟ جو بھی ہو، صورت حال جلد سامنے آجائے گی۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کے ذہنوں میں یہی سوال ہے کہ جس الیکشن کمیشن کو انتخابی اصلاحات کے ذریعے آئین کی چھتری تلے بااختیار بنایا گیاوہ کس حد تک بااختیار ثابت ہوا ہے؟ وہ عمران خان کو بیلٹ پیپر کی حساسیت قائم رکھنے پر مجبور نہیں کرسکا کہ انہوں نے سب کے سامنے مہر لگائی۔ اگرچہ سامنے آنے والی دیگر شکایات کے مقابلے میں یہ بہت معمولی بات ہے لیکن یہ عمل ایک ایسے رہنما کی جانب سے جو دوسروں کو قانون قاعدے کی پابندی کا درس دیتا ہے، مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ اس عمل پرالیکشن کمیشن کیوںخاموش ہے۔ اگر اس کو دبائو کے ماحول میں ہی کام کرنا تھا تو انتخابی اصلاحات کے لیے طویل مشق کرنے کا فائدہ کیا تھا! اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر سیاسی جماعتوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ انتخابی نتائج تسلیم نہ کیے جائیں تو ملک میں ایک نئی سیاسی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ الیکشن کمیشن کو یہ مطالبات سنجیدگی سے لینا ہوں گے، کیونکہ عوامی سطح پر سمجھا جارہا ہے کہ شاید تحریک انصاف کو کامیاب کرانے کے لیے مسالہ کچھ تیز لگ گیا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ ہمیں معلق پارلیمنٹ نہیں چاہیے، موجودہ ملکی حالات میں انتخابات کے نتیجے میں اگر معلق پارلیمان بنتی ہے تو یہ ملک کے لیے بڑی بدقسمتی ہوگی، ہماری اولین ترجیح ملک کی معاشی صورتِ حال کو بہتر کرنا ہے، مخلوط حکومت کمزور ہوتی ہے۔ اب یہ سوال کہ اُن کا مخاطب کون تھا؟ اس کی وضاحت تو وہ خود ہی کرسکتے ہیں۔
انتخابی عمل مکمل ہوجانے پر آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف عبدالغفور نے الیکشن 2018ء میں ووٹ ڈالنے والے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے کے سربراہ نے کہا کہ ’’عوام نے بدنیتی پر مبنی ہر قسم کا پروپیگنڈا مسترد کردیا ہے، دنیا نے پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے عوام کی محبت دیکھ لی‘‘۔ ان کا بیان فورسز کے کردار کے حوالے سے اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، تاہم سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں اور الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو جس طرح کے نتائج آئے ہیں یہ تو پہلے سے ہی معلوم تھے، یوں انتخابی نتائج نے کوئی اپ سیٹ نہیں کیا۔ مرکز اور صوبوں میں ایسا مینڈیٹ آیا ہے کہ اب انتخابی عمل میں شریک بڑی سیاسی جماعتیں شکایات کے باوجود ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے خاموش ہوسکتی ہیں، لیکن اگر وفاداریاں تبدیل کرانے کی کوشش ہوئی تو اس پر ایک بڑا ردعمل بھی آسکتا ہے۔ اس ردعمل کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اب پارلیمنٹ میں جس کو جو مینڈیٹ ملا ہے اُسے نہ چھیڑا جائے تو بہتر ہوگا۔ دوسری صورت میں شاکی سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج مسترد کرنے کا فیصلہ بھی کرسکتی ہیں، ایسا ہوا تو ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ شکایات پر غور کرے گا۔ یہ اچھا فیصلہ ہے۔
اگر سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے انتخابی نتائج پر غور کیا جائے تو چند کلیدی سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آنا بہت ضروری ہے، کہ ایوان کی 272 نشستوں میں سے کتنی نشستیں پارلیمنٹ میں پہنچنے والی سیاسی جماعتوں کے اپنے ہاتھ میں ہیں، کتنی ہیں جو کنٹرولڈ ہیں۔
آئینی لحاظ سے براہِ راست انتخاب کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں اور غیر مسلم ارکان کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی میں آئیں گے۔ سیاسی جماعتیں اپنی مخصوص نشستوں کی فہرستیں پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جمع کروا چکی ہیں۔ 342کا ایوان مکمل ہونے کے بعد آئین کی شق 91(2)کی رو سے الیکشن منعقد ہونے کے اکیسویں روز قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا، تاہم صدر یہ اجلاس پہلے بھی بلا سکتا ہے۔ اُس روز سب سے پہلے نومنتخب اراکین اسمبلی حلف اٹھائیں گے، پھر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا، یہ انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔ آئین کی شق 226کہتی ہے کہ ماسوائے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے، آئین کے تحت تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے۔ اسپیکر کے انتخاب کی اہم بات یہ ہے کہ اگر اس مقابلے میں دو امیدوار ہوں گے تو زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا اسپیکر منتخب ہوجائے گا، اور اگر ووٹ برابر ہوں گے تو دوبارہ ووٹنگ ہوگی تاوقتیکہ دونوں میں سے ایک جیت نہ جائے، البتہ اگر دو سے زیادہ امیدوار ہوئے تو پھر جیتنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ باقی تمام امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرے۔ یہ تو ہوئی آئینی بات۔ پارلیمانی جمہوریت کی روایت البتہ یہ ہے کہ اگر ایوان کی اکثریت کا علم ہوجائے تو عموماً جیتی ہوئی جماعت کے خلاف اسپیکر کا امیدوار کھڑا نہیں کیا جاتا تاکہ غیر جانب داری کا تاثر قائم رہے اور وہ پانچ برس ایوان کو چلا سکے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے فوراً بعد وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔ یہ انتخاب خفیہ رائے شماری سے نہیں ہوگا۔ آئین کی شق91(4)کے تحت قومی اسمبلی کی کُل نشستوں کے اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا وزیراعظم ہوگا۔ گویا جسے ملک کا وزیراعظم بننا ہے اُس کو 342کے ایوان میں 172ووٹ حاصل کرنے ہیں۔ براہِ راست نشستیں چونکہ 272ہیں، تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ اگر کوئی جماعت انتخابات میں 137نشستیں جیت لیتی ہے تو بغیر کسی تردد کے اپنا وزیراعظم منتخب کروا لے گی۔ اگر دو سے زائد جماعتیں وزارتِ عظمیٰ کا اپنا اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں اور اُن میں سے کوئی ایک بھی 172ووٹ حاصل نہیں کرپاتا تو پھر اگلا رائونڈ ہوگا جس میں اوپر کے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا، اور زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا وزیراعظم منتخب ہوجائے گا چاہے اُس نے 172ووٹ حاصل نہ کیے ہوں۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسپیکر سے لے کر وزیراعظم تک کی تمام ووٹنگ اور گنتی اُن اراکین اسمبلی کے درمیان ہوگی جو اُس وقت موجود اور حاضر ہوں گے۔ آئین کی سب سے اہم شق 63Aہے، جس کے تحت اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی پوزیشن کے برخلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، مگر اس سے پہلے پارٹی کے سربراہ کو اُسے اظہار وجوہ کا نوٹس دینا ہوگا اور بعد ازاں الیکشن کمشنر کو لکھ کر دینا ہوگا کہ اس کی رکنیت منسوخ کی جائے۔ اِس دوران اُس رکن کا ووٹ البتہ گنا جا چکا ہوگا، وہ رد نہیں ہوگا۔ اس طرح جو لوگ پارٹی پوزیشن کے برخلاف ووٹ ڈالیں گے وہ اپنی محنت سے جیتی ہوئی نشست کی قربانی دے کر یہ کام کریں گے۔ اس لیے اِس حماقت کا امکان کم ہے۔
انتخابات کے نتائج آچکے ہیں، تاہم ان پر بحث کرنے سے قبل ان امور پر بات کرنا ضروری ہے کہ ملک کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟ اس کے بعد ہی نومنتخب پارلیمنٹ کے بارے میں بات ہوسکتی ہے کہ یہ قومی مسائل حل کرنے میں کتنی معاون ثابت ہوگی۔ پاکستان اس وقت پانی کی کمی کے بحران، کمزور معیشت اور خارجہ امور میں ہمیں امریکی دبائوکا سامنا ہے۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ، افغانستان میں امریکی مفادات اور اس خطے میں چین کی معاشی منڈی میں توسیع اور سی پیک کے منصوبوں کے لیے پاکستان کے حقیقی مفادات کا دفاع کرنے والے فکری سوچ پر مبنی فیصلوں اور اقدامات کے لیے کمزور سیاسی قیادت دستیاب ہے۔ انتخابی نتائج نے بھی یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہ صورتِ حال فیصلہ سازوں کے لیے تو سازگار ہے مگر ملک کے لیے نہیں۔
انتخابات میں مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان مقابلہ تھا، ان میں سے کسی کو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میسر تھی، کسی کے پاس میڈیا کمپین کے لیے پیسہ نہیں تھا، کوئی جیل میں تھا اور کسی کے لیے کچھ رعایت کا معاملہ تھا۔ حالیہ انتخابات میں ایک بات جو ابھر کر سامنے آئی وہ الزامات کی سیاست تھی۔ یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ آگے بڑھے گا اور پارلیمنٹ اس الزامی کشکمش میں جکڑ کر رہ جائے گی۔ تاہم ہمیں بیرونی محاذ پر اس وقت جن خطرات اور مسائل کا سامنا ہے اُن میں اس خطے میں امریکی اثرات اور واشنگٹن دہلی گٹھ جوڑ ہمارے اسٹرے ٹیجک ایشوز کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول ایٹمی ٹیکنالوجی میں باہمی تعاون کا سو سالہ معاہدہ کررکھا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کو بھاری پانی کے لیے رعایت مل رہی ہے اور امریکہ ایٹمی سپلائی کے لیے پاکستان پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ امریکہ کا یہ امتیازی سلوک اس لیے بھی ہم پر بہت گراں ہے کہ پاکستان نے اپنا سب کچھ دائو پر لگایا اور افغانستان کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کیا، مگر اس کا صلہ نہیں ملا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے لیے امریکی رعایتیں امریکی پالیسی کا حصہ ہیں۔ امریکہ بھارت معاہدے کے بعد یہ پاکستان میں منتخب دوسری قومی اسمبلی ہے، لیکن گزشتہ پارلیمنٹ میں پاک بھارت مسائل اور اس خطے میں امریکہ کے امتیازی رویوں پر کبھی بحث نہیں ہوئی۔ ساڑھے تین سال ملک میں کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا، خارجہ امور کے لیے معاونِ خصوصی اور مشیر خارجہ کے ذریعے کام چلایا گیا۔ نئی حکومت میں یہ اہم شعبہ نظرانداز ہی رہے گا یا ہمیں ایک مضبوط سفارت کاری نظر آئے گی ابھی اس پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہمارے حکمرانوں میں ایک نفسیاتی نقص ہے، جس پاکستانی حکمران کے کندھے پر امریکی صدر ہاتھ رکھ کر بات کرے وہ حکمران خود کو عقلِ کُل سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اب امریکہ اُس کا سرپرست بن گیا ہے۔ حقائق یہی ہیں کہ امریکہ کے مفادات پورے کرتے چلے جائیں تو وہ راضی رہتا ہے، انکار کردیں تو آنکھیں پھیر لیتا ہے، اب بھی ایسا ہی ہوگا۔ جنوب ایشیا کے لیے امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ دبائو بڑھانے کے لیے امریکہ آنکھیں دکھانا شروع کردے اور بھارت لائن آف کنٹرول پر ہمارے لیے خطرات پیدا
کردے۔ نومنتخب حکومت کے سامنے دو ٹاسک ہیں: خارجہ امور اور اندرونی سلامتی۔ خارجہ محاذ پر جنوب ایشیا میں امن قائم کرنے، مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل، اس خطے میں امریکی مفادات کے مقابلے میں پاکستان کے حقیقی مفادات کا تحفظ اہم اور بنیادی نکات اور امور ہیں، جب کہ اندرونی سلامتی کے لیے معیشت مضبوط اور نیکٹا کے کردار کو فعال بنانا ہوگا۔ ایک اطلاع ہے جس کی سفارتی ذرائع بھی تصدیق کرتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات کے لیے نئی کوششوں کا آغاز ہونے جارہا ہے، اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اس کے اثرات ظاہر ہوجائیں گے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ انہیں چین کے مقابلے میں یہاں سرمایہ کاری کے زیادہ مواقع ملیں۔ اب اسلام آباد کی نومنتخب حکومت پر منحصر ہے کہ وہ فیصلہ پاکستان کے حق میں کرتی ہے یا واشنگٹن کی سرمایہ کاری کے لیے بلا شرط کھلا میدان فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں اپنے لیے سرمایہ کاری کے بہترین مواقع حاصل کرنے کی غرض سے امریکی صدر نے اسلام آباد میں اپنے سفیر ڈیوڈ ہل کا سفارتی درجہ بلند کرکے انہیں بھارت اور پاکستان کے تعلقات اچھے بنانے کی ہدایت کی ہے تاکہ اسلام آباد کو لالی پاپ دیا جائے کہ امریکہ اسلام آباد کا کتنا خیر خواہ ہے۔
انتخابات سے تین روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار کی ایک تقریب سے خطاب کیا اور عدلیہ، عدلیہ کے فیصلوں، عدلیہ کی انتظامی امور میں نظروں سے اوجھل رہنے والی حقیقی مداخلت کے نکات پر کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ شائع ہوئے اور نہ نشر کیے جاسکے، تاہم فیس بک اور ٹوئٹر کی زبان سے پوری دنیا نے سنے۔ اس خطاب کے بعد ملک کی بار ایسوسی ایشنز میں ایک نئی تقسیم سامنے آگئی ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے خطاب کے بعد اٹھنے والے سوالات اور معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، ان کی رائے ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس سطح کے معزز جج کی جانب سے الزامات درست ثابت ہوگئے تو عام انتخابات 2018ء متنازع ہوجائیں گے اور عالمی برادری انتخابی نتائج قبول نہیں کرے گی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس اسی لیے 27 جولائی کو طلب کیا ہے جس میں مستقبل کی حکمت عملی طے کی جائے گی، انتخابی نتائج پر بھی غور ہوگا۔ کیونکہ ملکی بار ایسو سی ایشن سمجھتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی کتربیونت کی گئی، قد نکالنے والی جماعتوں کو کاٹ چھانٹ کر چھوٹا کیا گیا، اب سیاسی جماعتوں میں سے کوئی قومی لیڈر تلاش کرنا مشکل ہوجائے گا، کوئی سیاسی لیڈر پورے قد سے کھڑا ہوا نظر نہیں آسکے گا۔2018ء کے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اس کے لیے تجربہ گاہ ثابت ہوسکتی ہے۔ بڑی جماعتوں سے الیکٹ ایبلز کے پرواز کرکے دوسری جماعتوں کے استھانوں پر ڈیرے ڈال لینے سے یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ آنے والے دس پندرہ برسوں میں کسی جماعت کو ملک گیر قومی سیاسی جماعت ہونے کا زعم نہیں رہے گا۔ سیاسی جماعتوں میں پھر چھلنیاں لگیں گی، ان کے بطن سے شخصیات الگ ہوں گی اور نئی جماعتیں جنم لیں گی۔ سیاسی جماعتوں کی یہ کتر یبونت ملک میں لیڈرشپ کا خلا پیدا کرے گی۔ 71 سال پہلے جس مسلم لیگ نے پاکستان بنایا تھا، اب ڈیڑھ درجن مسلم لیگی جھنڈوں اور جھنڈیوں سے لیس ہے۔ تاہم ان میں سے نظریۂ ضرورت کے تحت جو بھی مسلم لیگیں پیدا ہوئیں بعدازاں وہ دوسری جماعتوں میں ضم ہوکر نابود ہوگئیں۔ پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہوا ہے، اس کی بنیادیں اکھڑچکی ہیں، ایم کیو ایم کا بھی زور ٹوٹ چکا ہے اور تین بڑی تنظیمیں ایم کیوایم کہلا رہی ہیں۔ چمک، پارٹی میں موروثیت اور مطلق العنانیت اور ٹکرائو سیاسی جماعتوں کے اندر بغاوت پھوٹنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کی تقسیم کی بنیاد الیکٹ ایبلز کی دراندازی کے بعد رکھی جاچکی ہے۔ جس جماعت میں بھی مختلف الخیال شخصیات مفادات کی بنیاد پر اکٹھی ہوجائیں، ان میں جماعتی یکجہتی قائم نہیں ہو سکتی اس تناظر میں دیکھا جائے تو 2023ء کے قومی انتخابات میں جن سیاسی جماعتوں کو الیکشن لڑایا جائے گا، ان کی آبیاری ہوچکی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے بعد الطاف حسین اور پھر نوازشریف کا انجام اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اگلے پانچ برسوں میں سیاسی جماعتوں کے ’’قد کاٹھ‘‘ کا تعین کرنے کے لیے الیکٹ ایبلز سے کیا کام لیا جاتا ہے، اور کیا سیاسی جماعتوں کو کانٹ چھانٹ کر اُن سے قومی مفادات پورے کرائے جاسکیں گے!
عام انتخابات: شکوک و شبہات کے سائے
ملک میں ہونے والے 11 ویں عام انتخابات پر شکوک و شبہات کے سائے منڈلا رہے ہیں اور پولنگ ختم ہونے کے تقریباً 13 گھنٹے بعد بھی الیکشن کمیشن نتائج جاری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا نے صبح چار بجے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 11 کا نتیجہ سنایا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر کوئی اور نتیجہ اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ متعارف کروائے جانے والے نظام میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوئی۔ صحافیوں کے بار بار پوچھنے پر چیف الیکشن کمشنر نتائج کا وقت دینے میں ناکام رہے۔ تاہم سیکریٹری الیکشن کمیشن فتح بابر نے ’چند گھنٹوں‘ میں غیر سرکاری حتمی نتائج جاری کرنے کا اعلان کیا، تاہم چار گھنٹے بعد بھی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ ایک کے سوا کوئی نتیجہ نہیں دکھا رہی۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کام کرنا چھوڑ گیا ہے جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر فتح یعقوب نے سسٹم بیٹھ جانے کا اعتراف کیا کہ سازش نہیں ہوئی محض سسٹم بیٹھا ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں میں سے پہلے کیا ہوا؟ سازش ہوئی یا پہلے سسٹم بیٹھا۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں صوبائی الیکشن کمشنرز کے ذریعے تمام پریزائیڈنگ افسران کو مینوئل طریقے سے فارم 45، ریٹرننگ افسران تک پہنچانے کا حکم دیا ہے کہ یہ محض سسٹم کی خرابی ہے اور دنیا بھر میں رزلٹ تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایک نیا سوال پیدا ہوگیا کہ الیکشن کمیشن حکام کے اس بیان کے بعد میڈیا پر بتائے جانے والے نتائج بھی مشکوک ہوگئے؟ میڈیا بھی سندھ اور پنجاب کی بیشتر نشستوں کے نتائج بتانے سے قاصر نظر آتا ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 دیے بغیر باہر نکالنے کے الزامات کو مسترد کردیا اور کہا کہ اگر کسی کے پاس نتائج روکنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں تو پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں بتایا جائے کہاں کہاں پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالا گیا، اگر فارم 45 کے حوالے سے کوئی شکایات ہیں تو الیکشن کمیشن کے نوٹس میں لائی جائیں۔ پنڈی اور لاہور میں رزلٹ نہیں دیا جا رہا، یہ بات درست نہیں۔ لاہور اور راولپنڈی کے ڈی آر اوز سے بات کی اور ری چیک کیا، جب کہ فیصل آباد کے ڈی آر او سے بھی رابطہ کیا گیا، مگر ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی‘‘۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ فارم 45 سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن سے بھی لے سکتی ہیں، اگر کسی کو فارم 45 نہیں مل رہا تو متعلقہ پولنگ اسٹیشن کا بتایا جائے، جب کہ کوئی گڑبڑ ہو ہی نہیں رہی ہے تو ثبوت کہاں سے آئیں گے۔ جبکہ انتخابی عمل کاجائزہ لینے والے یورپی یونین کے مبصرین سمیت دیگر اداروں کے نمائندوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں سو سے زیادہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر رسائی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے تحفظات
مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، پی ایس پی، اے این پی، تحریک لبیک اور ایم ایم اے نے انتخابی گنتی کے عمل پر شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں کہ شام 6 بجے پولنگ ختم ہونے کے بعد 7 بجے ابتدائی نتائج آنا شروع ہوگئے تھے، تاہم 30 حلقے ایسے ہیں جہاں سے 11 بجے کے بعد بھی کسی پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ سامنے نہیں آیا، بعض شہروں میں تو نتائج روک لیے گئے۔ اس صورت حال پر سیاسی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا ہے، جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن نے ان کے خدشات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو شکایت ہے تو الیکشن کمیشن کو بتائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما رضا ربانی، شیری رحمان اور تاج حیدر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے گنتی کے عمل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ دوسری جانب تحریک لبیک نے انتخابی نتائج پر احتجاج کرتے ہوئے دھرنوں کی کال دے دی ہے ان تاثرات سے انتخابی عمل کاجائزہ لینے والی این جی او نے بھی اتفاق کیا ہے۔