تحریر: مناظر احسن گیلانی
انتخاب و تلخیص: محمود عالم صدیقی
وہ روز، روزِقیامت سے کم نہ تھا
جب لوگوں نے دیکھا کہ ان کا محبوب اللہ کا برگزیدہ بندہ بیڑیوں میں جکڑا سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے، وہ جس نے اندھیری رات کے بھٹکے گمراہوں کو سیدھا راستہ دکھایا، جس نے ان کے دلوں کی سیاہی دھوتے دھوتے اپنے ہاتھ شل کرلیے، آج وہی زنجیروں میں جکڑا ظالم حاکم کے دربار میں لے جایا جا رہا ہے۔ شمشیر بکف سپاہیوں کے ہجوم میں آہنی حلقوں میں جکڑا عزم و استقلال کا مجسمہ بنا ہوا ہے۔ لوگوں میں ضبط کا یارا نہ رہا تھا۔ حلق میں پھنسی چیخیں نکلیں تو فضا آہ و زاری کے شور سے گونج اٹھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔
دیوانہ وار ہجوم آپ کی مدد کو بڑھا، لیکن سپاہی بھی غافل نہ تھے۔ آتشیں ہتھیاروں سے لیس تھے۔ انھوں نے مظاہرین کو، جوش میں آئے عقیدت مندوں اور ارادت مندوں کے ہجوم کو روکنے کے لیے دور دور تک ایک آتشین لکیر کھینچ دی۔
لوگ چلاّ چلاّ کر پکار رہے تھے: اے حق پرست، تیرا سربلند رہے گا۔ جابر سلطان تجھے نہ جھکا سکیں گے۔ تُو آج بھی سرفراز ہے، کل بھی تیرا اقبال بلند رہے گا۔ تجھے ایذا پہنچانے والے خود اپنے قتل نامے تیار کربیٹھے ہیں۔ تیرا لہو اپنا حساب لے گا۔ ہم بدقسمت تیرے ہمراہ نہ چل سکے۔ آزمائشوں میں تیرا ساتھ نہ دے سکے، مگر ہمارا دل تیرے ہمراہ ہے۔ تیرے ابدی جلال کی کیا شان ہے، اس سے ناآشنا بدقسمت اور بدنصیب ہیں‘‘۔
o ہر ایک فانی ہے ماسوائے اللہ کے
قیدی نے زور سے پکار کر کہا’’ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ میرے مرنے کے بعد اپنے گھروں کو ہرگز ماتم کدہ نہ بنالینا، کیونکہ ایسا ہونا ہے۔ ہر چیز فانی ہے، اسے فنا ہونا ہے… سوائے خدا کی ذات اور اس کے کلام کے، جو لافانی ہے۔ میں کلام اللہ کا پرچار کرتا رہوں گا، چاہے میرا جو بھی حشر ہو۔‘‘
ابھی آپ کو مزید کچھ کہنا تھا، مگر ہمراہ سپاہی ہجوم کے تیور بھی خوب جان رہے تھے۔ وہ ڈر رہے تھے۔ انھیں اندیشہ تھا کہ کہیں اس حق پرست کے لفظوں کی حرارت سے بغاوت کے شعلے نہ بھڑک اٹھیں۔ تاریخ کا یہ عجیب و غریب انداز ہے کہ جب بھی مرہم کی تلاش میں کسی فقیرراہ نشین کے گرد زخم خوردہ انسانوں کی بھیڑ لگی ہے، ایوانِ حکومت میں زلزلہ آگیا ہے اور فوری طور پر یہ تاثر لیا گیا ہے کہ حاکم وقت کے خلاف منصوبہ سازی کی جارہی ہے۔ آج بھی اسی انداز میں تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔
آج جس شخص کو پابہ زنجیر کیا گیا تھا اسے لوگ دیوانگی کی حد تک چاہتے تھے۔ جب انھیں خبر ہوئی کہ ان کا پسندیدہ انسان اپنی حق گوئی کے جرم میں خلیفۂ وقت کے ظلم وستم کا نشانہ بننے والا ہے تو وہ دنیا کے سارے کام چھوڑ کر اس حالت میں باہر نکل آئے کہ ان کی آنکھیں اشک بار تھیں اور چہرے حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ خلیفہ کے حاشیہ برداروں کو قیدی کی عظمت اور ہردل عزیزی کا اندازہ نہ تھا۔ وہ اسے محض ایک فاقہ کش عبادت گزار سمجھتے تھے۔ مگر آج ایک گوشہ نشیں مفلس کے نام لیواؤں کا ہجوم دیکھ کر ان پر دہشت طاری ہوگئی تھی۔ انجامِ کار خلیفہ کے مسلح سپاہیوں نے انسانوں کے سیلاب کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔
دونوں ہاتھوں سے محروم ایک اور قیدی!
اب وہ نسبتاًایک پُرسکون شاہراہ سے گزر رہے تھے۔ اچانک ایک قیدی نے دوسرے قیدی کو دیکھا۔ اسے بھی چند سپاہی کھینچتے ہوئے لیے جا رہے تھے۔ دونوں قیدی تھے مگر ان کی منزلیں مختلف تھیں۔ ایک کو دربارِ خلافت میں پیش ہونا تھا اور دوسرے کو عدالت میں۔ ناگہاں دوسرا قیدی چیخا ’’رک جاؤ، مجھے اس شخص سے ایک ضروری کام ہے‘‘۔ سپاہی ٹھیر گئے۔ چند لمحوں بعد پہلا قیدی نزدیک آگیا۔ دوسرے قیدی نے سپاہیوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا ’’میں اس کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتا ہوں۔ اگرچہ میری طرح یہ بھی مجرم ہے لیکن میرے اور اس کے جرم میں بڑا فرق ہے۔‘‘
سپاہیوں نے اسے غور سے دیکھا ’’کیا تُواس شخص کو جانتا ہے؟‘‘ لہجہ انتہائی تحقیر آمیز تھا۔ ’’یہ خلیفہ کا معتوب ہے، اس کے ساتھ کوئی محبت سے پیش نہیں آسکتا۔‘‘
’’اسے کون نہیں جانتا!‘‘ دوسرے قیدی نے کہا۔ ’’ہم سب اس کے علم کے سائے میں جیتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ مڑا ’’میں آپ کے مقدس ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتا ہوں مگر قانون کے محافظوں کی نظر میں میرے ہونٹ اس قابل نہیں۔‘‘
پہلے قیدی نے اپنے مخاطب پر نظر ڈالی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے محروم تھا۔ ’’آپ مجھے نہیں جانتے، میں بغداد کا مشہور ڈاکو ابوالہیشم ہوں۔ میری پیٹھ پر بے شمار کوڑوں کے نشانات ہیں۔ میرے دونوں ہاتھ کاٹ دیے گئے ہیں اور میں جرم کی زندہ علامت بن کر رہ گیا ہوں۔ میری سیاہ بختی کا یہ عالم ہے کہ مجھے دیکھتے ہی لوگ میرے گناہوں کی حقیقت جان لیتے ہیں۔ قانون چاہتا ہے کہ میں آئندہ کے لیے توبہ کرکے عام انسانوں کی قطار میں شامل ہوجاؤں، لیکن مجھے انفرادیت کی زندگی پسند ہے، اگر یہ لوگ میرے دونوں پاؤں بھی جسم سے علیحدہ کردیں تو میں بستر پر لیٹے لیٹے یہ تمنا کرتا رہوں گا کہ کاش میں اس قابل ہوتا اور ایک بار پھر یہ جرم کرسکتا‘‘۔ اتنا کہہ کر ابوالہیشم نے اس قیدی کی طرف دیکھا جس کی گرفتاری پر حکومتِ وقت نے اپنی پوری توانائی صرف کردی تھی۔
’’میری یہ استقامت شیطان کی راہ میں ہے، مگر آپ منزلِ حق کے مسافر ہیں۔ میں نے صرف اپنی ذات کو ہلاک کیا ہے لیکن آپ کی لغزش ساری دنیا کو تباہ کرڈالے گی۔ خدا آپ کے قدموں کو آزمائش کے راستے میں جمادے کہ آپ اہلِ دل کی آخری امید ہیں‘‘۔ جوشِ جذبات میں ابوالہیشم جاتے جاتے مڑا، ’’امام! خدا حافظ‘‘۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
بغداد کا رسوائے زمانہ قزاق جاچکا تھا مگر فضا میں اس کے الفاظ کی گونج اب بھی باقی تھی۔ قیدی کے چہرے پر کئی رنگ ابھر کر ڈوب چکے تھے اور اب وہ پہلے سے زیادہ پُرسکون نظر آرہا تھا۔ سپاہیوں کو بھی ایک ڈاکو کی جرأت کا مظاہرہ دیکھ کر شرمندگی کا احساس ہورہا تھا، مگروہ خلیفہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے تھے۔ انھیں بہرحال اس شخص کو زنجیریں پہناکر دربار میں حاضرکرنا ہی تھا جس نے ایک آمر کا حکم ماننے سے صاف انکار کردیا تھا۔
آخر وہ سنگین لمحہ آ پہنچا۔ دربار میں بیڑیوں کی جھنکار سنائی دی۔ خلیفہ نے نظریں اٹھاکر دیکھا۔ قیدی سامنے کھڑا تھا۔ سپاہیوں کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی جیسے وہ کسی ناقابلِ تسخیر دشمن کو شکست دے کر لوٹے ہوں۔
’’بے خبر عوام تمھیں اپنے روحانی پیشوا کا درجہ دیتے ہیں، مگر تم مذہبی آداب سے اس حد تک ناآشنا ہوکہ اپنے امیر کو سلام تک نہیں کیا‘‘۔ خلیفہ نے قیدی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ طنز کا نشتر تھا۔
’’سلام ایک کلمۂ خیر ہے‘‘۔ قیدی نے باوقار لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں ظلم اور جہل پر سلامتی نہیں بھیج سکتا۔‘‘
اقتدار کی پیشانی پر ابھرنے والی شکن گہری ہوچلی تھی مگر خلیفہ نے بڑی ہوشیاری سے جذبات پر قابو پالیا۔ وہ اپنے فیصلے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا تھا۔ ’’دربار کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ تمھیں خلیفہ کے احترام کو ملحوظ رکھنا چاہیے تھا‘‘۔ اس نے دوسرے انداز سے گرفت کی۔
’’سرجھکانے کو احترام نہیں کہتے‘‘۔ قیدی کے لہجے کی بے باکی بدستور تھی۔ ’’وہ جو شہنشاہوں کا شہنشاہ تھا اس نے بھی ایسے کافرانہ احترام کا حکم نہیں دیا۔ پھر میں کون ہوں کہ اس بدعت کو جائز قرار دوں!‘‘
خالق کا کلام کس طرح مخلوق ہوسکتا ہے؟
’’ہمیں تمھاری یہ گستاخیاں بھی گوارا ہیں اگر تم قرآن کو مخلوق تسلیم کرلو‘‘۔ خلیفہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہا تھا مگر اس نے اتمامِ حجت کی خاطر اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
’’خالق کا کلام مخلوق کس طرح ہوسکتا ہے؟‘‘ قیدی نے اپنی دلیل پیش کردی۔
’’یہ سب علم وفضل کی آخری منزل تک پہنچ چکے ہیں‘‘۔ خلیفہ نے اُن علماء کی طرف اشارہ کیا جو اس کے عقیدے کو تسلیم کرچکے تھے اور نتیجتاً دربار کی آراستہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
قیدی نے ان فاضل شخصیتوں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی جن کا خلیفہ نے حوالہ دیا تھا۔
’’جب یہ قرآن کو علی الاعلان مخلوق کہتے ہیں تو پھر تمھارے علم کا کس دنیا سے تعلق ہے؟ کیا ان کی رائے سند کا درجہ نہیں رکھتی؟‘‘ خلیفہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ اب آہستہ آہستہ اُس کے ارادے بے نقاب ہوتے جارہے تھے۔
’’مجھے ان حضرات کی علمی فضیلت پر کوئی شک نہیں‘‘۔ قیدی کا تحمل قابلِ دید تھا۔ ’’مجھے اس کا بھی اعتراف ہے کہ میں دنیا میں سب سے کم علم انسان ہوں، مگر قرآن کو مخلوق تسلیم نہیں کرسکتا۔وہ حیی قیوم کا کلام ہے، اسے کسی حال میں بھی موت نہیں چھو سکتی‘‘۔ بالآخر قیدی نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس نے کسی عالم کی تضحیک نہیں کی تھی۔ بس اپنا نقطہ نظر واضح الفاظ میں بیان کردیا تھا۔
’’میں تم پر اپنے بیٹے سے بھی زیادہ مہربان ہوسکتا ہوں اگر تم قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کرلو‘‘۔ خلیفہ نے قیدی کو اسیر کرنے کے لیے نیا دام پھیلایا تھا۔ اس جال کے پھندے بظاہر ریشم سے بھی زیادہ نرم تھے مگر حقیقت میں ان کی سختی کے آگے آہنی حلقے بھی ہیچ تھے۔ ’’میں اپنے ہاتھ سے تمھاری بیڑیاں کاٹوں گا‘‘۔ خلیفہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’پھر تم مملکتِ اسلامیہ کی سب سے محترم شخصیت بن جاؤ گے‘‘۔ اقتدار نے ایک بوریا نشیں کو سب سے بڑی پیش کش کردی تھی۔ ’’مجھے اپنی حیثیت کا اندازہ ہے۔ میں اس قدر عزت افزائی کو کس طرح برداشت کرسکوںگا؟‘‘ قیدی نے بے نیازی کے ساتھ تمام عنایات کو ٹھکرادیا۔
خلیفہ کے چہرے سے اخلاق کا مصنوعی خول اترگیا
’’پھر ایسے عاقبت نااندیش کو ہلاکت سے کوئی نہیں بچا سکتا‘‘۔ خلیفہ کے چہرے پر پڑا ہوا تہذیب و اخلاق کا خول اتر گیا۔ اس نے شدید حالتِ غضب میں تازہ دم جلادوں کو ہاتھ کا اشارہ کیا۔ طاقت ور بازو بلند ہوئے۔ سفاکی کی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ دربار کی ساکت فضاکوڑوں کی آواز سے لرزاں تھی۔ قیدی کی پشت پر تازیانے برس رہے تھے۔
’’اے دلوں کے تھامنے والے تُو نے اپنے بندوں سے اسی دن کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے میرے نفس کے حوالے نہ کر۔ میری دستگیری فرما۔ میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ آج کے دن مجھے تنہا نہ چھوڑ‘‘۔ کوڑوں کی خوفناک آوازوں میں قیدی کی صدائیں بھی شامل تھیں۔ جس کی تمام عمر پرستش کی تھی آج وہ اسی ذات کو پکار رہا تھا۔ مزاجِ شاہی اور برہم ہوگیا۔ تشدد کی لَے اور تیز ہوگئی۔
خلیفہ کا خیال تھا کہ وہ مسلسل ضربوں کی تاب نہ لاکر سرجھکا دے گا، مگر قیدی ایک بار پھر اپنے معبود سے سرگوشیاں کررہا تھا ’’زمین و آسماں فانی، مکین و مکاں فانی، تُو باقی، تیرا کلام باقی، تُو بھی جلیل و جمیل، وہ بھی جلیل و جمیل‘‘۔ آمرِ وقت ان کلمات کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ پھر انسانی قہر و غضب نے وحشت کا رنگ اختیار کرلیا اور جبرو ستم حد سے گزرگئے۔ جلادوں نے اپنے فن کے مظاہرے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ قیدی اپنے خون میں نہا چکا تھا۔ تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ قیمتی پتھروں پر انسان کا ارزاں لہو بہہ رہا تھا۔ پھر بھی وہ اپنے قدموں پر کھڑا رہا۔ مگر کب تک؟ ناتوانی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ قوتِ ارادی زائل ہونے لگی۔ بالآخر وہ سرِدربار بے ہوش ہوگیا۔
خلیفہ کو یقین تھا کہ قیدی اب زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہ سکے گا۔ جلاد اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کررہے تھے۔ کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔ خلیفہ کے اشارے پر اس کے سامنے پانی سے بھرا ہوا برتن پیش کیا گیا۔پیاس کی شدت سے قیدی کی زبان خشک ہوچکی تھی۔ اس نے پانی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر دوسرے ہی لمحے ہاتھ کھینچ لیا۔ ’’میں روزے سے ہوں‘‘۔ دربار میں زخمی کی باوقار آواز گونجی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ زمین سے اٹھ کر کھڑا ہوا، خلیفہ کی جانب بے نیازانہ دیکھا، اہلِ دربار کی کیفیات کا جائزہ لیا، پھر جلادوں سے پوچھا ’’کیا وقت ہوا ہے؟‘‘
’’ظہر کا…‘‘ جواباً کہا گیا۔
’’مجھے نماز کی مہلت دی جائے‘‘۔ قیدی نے درخواست کی۔ اس موقع پر اُس کا لہجہ نرم ہوگیا تھا۔ خلیفہ نے اجازت دی۔ زخمی نے اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لی۔ وہ عام دنوں میں بہت سکون سے اپنے خالق کی عبادت کیا کرتا تھا مگر آج اس کی جسمانی حرکات میں اضطراری کیفیت تھی۔ عملِ نماز معمول سے نسبتاً تیز تھا۔ شاید اس خیال سے کہ کہیں خلیفہ اور درباری اس کے صبر وسکون کو تاخیری حربوں کا نام نہ دے دیں، وہ اپنی فطر ت کے خلاف جلد بازی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ قیدی نے نماز ختم کی۔ بہت مختصر دعا مانگی اور سیدھا کھڑا ہوگیا۔ سجدے کے بعد فرش پر ہاتھوں کے خوں رنگ نشانات ابھر آئے تھے۔
’’تم لوگ اپنا کام جاری رکھو‘‘۔ قیدی جلادوں سے مخاطب ہوا۔ ’’میں اپنا فرض ادا کرچکا ہوں، تم بھی اپنا فرض پورا کرو، فرض کی تکمیل ہی اقرارِ بندگی ہے۔‘‘
ایک درباری عالم کی گرفت
اس سے پہلے کہ خلیفہ جلادوں کے لیے مشقِ ستم کا نیا حکم جاری کرتا، ایک درباری عالم درمیان میں بول پڑا ’’جب تمھاری نماز ہی ادا نہیں ہوئی تو پھر فرض کی ادائیگی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟‘‘ بغداد کا مشہور فقیہ، ایک لہولہان قیدی سے مخاطب تھا۔ ’’تم نے اُس وقت نماز ادا کی جب تمھارے پورے بدن سے خون بہہ رہا تھا۔ شرعی مسئلے کے اعتبار سے نہ تمھارا وضو برقرار رہا اور نہ جسمانی طہارت، پھر کیسی نماز تھی؟‘‘
خلیفہ اور دیگر اکابرینِ دربار، قیدی کی اس گرفت پر مسکرانے لگے۔ ان کے خیال میں وہ موت کے خوف سے بدحواس ہوگیا تھا اور پھر اس نے اسی دہشت کے عالم میں نماز ادا کرلی تھی۔ قیدی کی اس غلطی نے خلیفہ کے کام کو مزید آسان بنادیا تھا۔
’’میں فقہ کے مسائل نہیں جانتا‘‘۔ قیدی کی آواز بدستور پُرسکون تھی۔
پھر تمھیں کس نے مسندِ امامت پر بٹھایا ہے؟‘‘ دوسرا فقیہ تیز لہجے میں بولا۔
’’میں آج تک کسی مسند پر نہیں بیٹھا‘‘۔ قیدی اب تک روایتی تحمل کا مظاہرہ کررہا تھا۔ ’’میں صرف ایک خاک نشیں ہوں اور خاک ہی میری مسند ہے۔‘‘
’’چرب زبانی تمھاری غلطی کی پردہ پوشی نہیں کرسکتی‘‘۔ پہلے فقیہ نے قیدی کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا، اور پھر فوراً ہی اپنی اس نکتہ طرازی کی داد پانے کے لیے خلیفہ کی طرف دیکھا۔ آمرِ وقت اطمینان سے بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ قیدی کے زخمی جسم پر لپٹی ہوئی زنجیروں کے آہنی حلقے اور بھی تنگ ہوتے جارہے تھے۔
’’تمھیں اس کا پورا اختیار ہے کہ تم میرے ہر فعل میں خامیاں تلاش کرو‘‘۔ قیدی کا لہجہ تلخیوں اور نفرتوں سے پاک تھا۔ ’’میں اپنے عمل کی وضاحت کرنے سے قاصر ہوں، مگر میں نے وہی کیا جس کا سبق مجھے فاروق اعظم ؓ نے دیا۔ میرا امیر نمازِ فجر کے دوران زخمی ہوا اور اسی حالت میں اپنے فرض کو تکمیل تک پہنچایا‘‘۔ قیدی نے اپنی نماز کو درست ثابت کرنے کے لیے حضرت عمرؓ کے لازوال عمل کا سہارا لیا تھا۔ جب دلیلِ آفتاب روشن ہوئی تو سطحی علم کے سارے چراغ بجھ گئے۔ خلیفہ حیران و پریشان تھا اور درباری فقیہوں کے چہرے مسخ ہوکر رہ گئے تھے۔
وہ آمرِ وقت، خلیفہ معتصم باللہ تھا۔ اور قیدی حضرت امام احمد بن حنبل ؒ تھے جن کے خون سے تاریخِ اسلام کا اہم ترین باب لکھا گیا۔