جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں اس وقت تک اگرچہ تمام غیر حتمی نتائج سامنے نہیں آسکے، مگر قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے تحریک انصاف نے تقریباً 115سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ مقابلے کا اصل میدان پنجاب تھا، جہاں سیاست کے دو اہم فریق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ تھا۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ جو جماعت پنجاب کا انتخابی معرکہ جیت لیتی ہے وہی پنجاب سمیت مرکز میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف اور عمران خان کی سیاسی توجہ کا مرکز پنجاب ہی تھا۔ پنجاب 1985ء کے انتخابات سے 2013ء کے انتخابات تک عمومی طور پر نوازشریف یا مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔ 2002ء سے 2008ء تک بھی یہ مسلم لیگ(ق) کے نام پر چودھری برادران کے کنٹرول میں تھا۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان اپنی سیاسی مقبولیت کی وجہ سے یہ تاثر دے رہے تھے کہ وہ ان انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو شکست دیں گے، مگر انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ اب 2018ء کے میں پنجاب میں حیران کن طور پر تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واضح، جب کہ صوبائی اسمبلی میں اچھی خاصی تعداد میں نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں سے کون پنجاب میں صوبائی حکومت بناسکے گا۔ تحریک انصاف کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ مرکز اور خیبر پختون خوا سمیت پنجاب میں بھی اپنی حکومت بناسکے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کے لیے تحریک انصاف آخری حد تک جانے کی کوشش کرے گی۔ پنجاب میں عمومی طور پر کچھ سیاسی تجزیہ نگار یہ رائے دے رہے تھے کہ پنجاب کی قومی اسمبلی کی 141نشستوں پر مسلم لیگ (ن) ہی کامیابی حاصل کرے گی۔ ان کے بقول پنجاب میں نوازشریف کے بیانیہ کو ہی مقبولیت حاصل ہوگی۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ ووٹر نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن یہ تمام تر تجزیے غلط ثابت ہوئے، کیونکہ یہ بات واضح تھی کہ پنجاب کی انتخابی سیاست کے تناظر میں نوازشریف کا بیانیہ ووٹر تو دور کی بات، خود ان کی اپنی جماعت میں بھی قبولیت حاصل نہیں کرسکا تھا۔ خود نوازشریف کے بھائی شہبازشریف بھی نوازشریف کے بیانیہ کے مخالف تھے۔ اسی طرح انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کے مضبوط امیدواروں کی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت نے بھی مسلم لیگ (ن) کو خاصا کمزور کیا۔ حالانکہ دلیل دی جارہی تھی کہ ووٹرز طاقت ور الیکٹ ایبلزکو بھاری مارجن سے شکست دیں گے، اورکہا جارہا تھا کہ ووٹر خاصا باشعور ہے، وہ نوازشریف کو ووٹ دے کر جمہوریت اور جمہوری بالادستی کو یقینی بنائے گا۔ لیکن ایک بار پھر یہی ثابت ہوا کہ آج بھی پنجاب کی سیاست میں الیکٹ ایبلز ہی اصل طاقت ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ خود عمران خان نے بھی ان ہی الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملا کر بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان نے پنجاب میں نوازشریف کی بالادستی کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود تحریک انصاف ہی آزاد امیدواروں کی مدد سے پنجاب میں بھی حکومت بنالے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور فیصل آباد میں تحریک انصاف نے واضح کلین سویپ کرکے مسلم لیگ (ن) کا صفایا کردیا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے پنجاب میں چودھری نثار سمیت ٹرک کے نشان پر لڑنے والے آزاد امیدواروں کو اسٹیبلشمنٹ کی جماعت قرار دیا تھا، لیکن نتائج نے ثابت کیا کہ یہ محض الزام تھا اور یہ گروپ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ حیران کن طور پر سابق وزیر داخلہ چودھری نثار بھی اپنی برتری قائم نہیں کرسکے۔
تحریک انصاف نے خیبر پختون خوا میں بھی بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کرکے اپنے سیاسی مخالفین مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بری طرح شکست دی۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ یہاں تحریک انصاف دوبارہ حکومت بنائے گی۔ جبکہ اس سے پہلے کوئی بھی جماعت اقتدار کے بعد جیت کا عمل برقرار نہیں رکھ سکی تھی۔ اس طرح تحریک انصاف نے نئی سیاسی تاریخ رقم کی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت کئی بڑے نام وہاں شکست کھا گئے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کسی کے لیے حیران کن نہیں۔ سبھی کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی وہاں جیتے گی، مگر اس کی سیاسی برتری کچھ کم ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی سطح پر تحریک انصاف نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ کراچی، جہاں خیال تھا کہ ایم کیو ایم زیادہ نشستیں حاصل کرلے گی، مگر یہاں تحریک انصاف نے زیادہ نشستیں حاصل کرکے سندھ اور کراچی کی سیاست میں اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ بلوچستان میں بھی وہاں نئی بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی سمیت کئی دیگر جماعتوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔
تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی سطح پر واضح برتری حاصل کرکے مرکز میں حکومت بنانے کی طرف بڑی پیش رفت کرلی ہے اور امید ہے کہ اب عمران خان کے وزیراعظم بننے میں کوئی بڑی رکاوٹ موجود نہیں، اسی طرح تحریک انصاف ان انتخابات کے نتائج کے بعد ایک قومی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس کی ہر صوبے میں سیاسی نمائندگی موجود ہے۔ یہ جو کہا جارہا تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک معلق پارلیمنٹ اور ایک کمزور مخلوط حکومت بنانا چاہتی ہے، وہ غلط ثابت ہوا۔ اسی طرح ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اوران کے اتحادیوں کے بیانیہ کے مقابلے میں صرف عمران خان کا بیانیہ ہی کامیاب ہوا ہے۔ عمران خان نے بنیادی طور پر کرپشن، بدعنوانی اور بری طرزِ حکمرانی سمیت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مافیا کے گٹھ جوڑ پر تنقید کرکے کامیابی حاصل کی۔ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں لوگوں نے کرپشن کے خلاف عمران خان کی جاری سیاست کی حمایت کی ہے۔ اس طرح عمران خان کی مقبولیت کو ہی سیاسی بالادستی حاصل ہوئی ہے۔ عمران خان کی کامیابی ان کے سیاسی مخالفین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، حالانکہ سب نے ان کے خلاف ایک بڑا محاذ بنایا ہوا تھا مگر انہوں نے سب کو ہی شکست دی ہے۔
ان انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی مداخلت، اور تحریک انصاف کو پسِ پردہ قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کیا گیا۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اورکہا ہے کہ پری پول رگنگ کی گئی ہے اور ہم ان نتائج کو قبول کرنے کے بجائے ایک بڑی سیاسی تحریک چلائیں گے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی بھی ہارنے والا اپنی شکست قبول نہیں کرتا۔ میں نے ان ہی صفحات پر لکھا تھا کہ 2013ء میں عمران خان نے انتخابی دھاندلی پر سیاست کی، اور 2018ء میں اُن کے سیاسی مخالفین بھی اپنی شکست پر وہی کچھ کریں گے جو تحریک انصاف نے کیا تھا۔ انتخابی دھاندلی پر طاقت ور آواز مسلم لیگ (ن) کی ہے۔ لیکن کیا اب وہ اس مسئلے پر دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر کوئی بڑی تحریک چلا سکیں گے؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے نون لیگ کے خلاف کوئی سازش کی ہے تو اُس نے پنجاب کی صوبائی نشستوں پر اتنی بڑی تعداد میں کیسے کامیابی حاصل کرلی؟ دراصل مسلم لیگ (ن) اپنی داخلی کمزوریوں کا تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں، کہ پاناما کے مقدمے اور اس میں شریف خاندان کو سزائوں نے اس کی سیاسی مقبولیت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے میڈیا میں بھی پس پردہ قوتوں کی سیاسی مداخلت کا بہت شور ہے، لیکن اس تناظر میں جو ایک بڑا ثبوت پیش کیا جارہا ہے وہ پنجاب میں سابق ارکانِ اسمبلی کی مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت ہے۔ دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ان سابق ارکان کو پس پردہ قوتوں نے دبائو ڈال کر تحریک انصاف میں شمولیت پر مجبور کیا۔ لیکن الیکٹ ایبلز کی سیاست اور خاص طور پر جنوبی پنجاب میں ان الیکٹ ایبلز کے ماضی کے کردار کو نظرانداز کرکے سیاست کی جارہی ہے۔ یہ الیکٹ ایبلز ہمیشہ طاقت میں آنے والی جماعتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اِس بار بھی انہوں نے نوازشریف کو مشکل حالات میں چھوڑ کر تحریک انصاف کی سیاست پر بیعت کی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان الیکٹ ایبلز کے لیے نوازشریف کی جانب سے چلائی گئی بیانیہ کی تحریک کے ساتھ کھڑا ہونا ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ نوازشریف نے جس بے دردی سے عدلیہ اور فوج پر تنقید کی، اس کی وجہ سے ان الیکٹ ایبلز سے یہ توقع رکھنا غلط تھا کہ وہ نوازشریف کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ اسی طرح جو لوگ یہ دلیل دے رہے تھے کہ نوازشریف جمہوریت کی بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں اُن کی خوش فہمی بھی بلاوجہ تھی۔ نوازشریف کا بیانیہ جمہوریت کی بالادستی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی اور خاندانی مفاد کی سیاست کو بچانے کی جنگ ہے۔ اس لیے جو لوگ اب بھی نوازشریف کی سیاست کو سول بالادستی کی جنگ کہہ رہے ہیں وہ اپنی خوش فہمی سے باہر نکلیں اور سمجھیں کہ نوازشریف کی سیاست محض اقتدار اور کرپشن پر مبنی سیاست ہے۔ نوازشریف کی ناکامی کی وجہ جہاں ان کی کرپشن کی سیاست ہے، وہیں سوشل میڈیا پر نئی نسل نے اُن کے خلاف جو بھرپور مہم چلائی اُس نے بھی ان کی ناکامی میں بڑا کردار ادا کیا۔ کاش نوازشریف اپنی ذات کے بجائے اپنی جماعت کی سیاست کرتے تو اُن کا یہ حال نہ ہوتا۔ اسی طر ح جو لوگ شہبازشریف کو نوازشریف کا متبادل کہہ رہے تھے ان کو بھی ناکامی ہوئی، اور نوازشریف کی غیر موجودگی یا اُن کے پاکستان آکر جیل جانے کے باوجود وہ نوازشریف کے بیانیہ کو کوئی تحفظ نہیں دے سکے۔
بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ مرکز، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف اپنی حکومت بنالے گی، پنجاب میں بھی اس کی حکومت بننے کے امکانات جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی بھی مخلوط حکومت ہوگی، لیکن اس کے باوجود ملک کا سیاسی بحران کم نہیں ہوگا۔ کیونکہ عمران خان کے سیاسی مخالفین ایک بڑی مزاحمتی سیاست کو بنیاد بناکر مرکز سمیت صوبوں میں بھی تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دیں گے۔ پنجاب میں اگر تحریک انصاف حکومت بنا لے، تب بھی اسے مسلم لیگ (ن) کی مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک انصاف کی حکومت مرکز سمیت دیگر صوبوں میں اپنے سیاسی مخالفین کی سیاسی حکمت عملیوں کا کیسے مقابلہ کرتی ہے،کیونکہ ان کے لیے بھی اقتدار کے باوجود کوئی اچھی خبریں نہیں اور انہیں مختلف محا ذوں پر سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔