انتخابات کے بعد انتشار کا خدشہ

ملکی تاریخ کے سب سے خونیں انتخابات مکمل ہوچکے۔ نتائج تقریباً تھوڑے بہت وقتی ردو بدل اور ترمیم و اضافے کے ساتھ تقریباً وہی ہیں جن کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا یا اسکرپٹ کے مطابق جن کے امکانات پر مصنوعی انداز میں زور ڈالا جارہا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کو جو کرنا تھا، کرلیا۔ الیکشن کمیشن کو جو ذمے داری اصل فرائض کے علاوہ ملی تھی وہ بھی ادا ہوگئی۔ اب اس ملک کی سیاسی جماعتوں کو جو کچھ کرنا ہے وہ کچھ دن میں سامنے آجائے گا، اور اس کے بعد ملک میں جو ہوگا اُس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے۔ انتخابات سے قبل ملک کی سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف جو کچھ کہہ رہے تھے اور جن خدشات کا اظہار کررہے تھے وہ سو فیصد درست تھے۔ وہ بہت پہلے سے بتا رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دو سو فیصد درست ہے۔ شاید یہی مکافاتِ عمل ہے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ زہر بوکر انگور کاٹ لیں۔ جو کچھ آپ نے اس ملک، اس کی سیاست اور عوام کے ساتھ کیا اُس کا یہ انجام کم تر اور سزا ناکافی ہے۔ وہ آج ماضی کے جس عمل پر پچھتا رہے ہیں بہت جلد جیتنے والی جماعت کو بھی اپنے آج کے عمل پر پچھتانا پڑے گا۔ صرف کردار بدلے ہیں، اس لیے انجام بھی وہی ہوگا،اور شاید اس سے زیادہ تکلیف دہ ہو۔ ابتدائی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی جن 270 نشستوں پر انتخاب ہوا اُن میں سے تادم تحریر 120نشستوں پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کرلی۔ 61 نشستوں پر وہ جیتے جو گزشتہ 35 سال اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کبھی حکومت اور کبھی اپوزیشن کا کھیل کھیلتے رہے، اور 40 نشستوں پر انہیں کامیابی ملی جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے نعرے کے ساتھ وجود میں آئے تھے مگر ٹھوکریں کھا کھا کر اب اسی چوکھٹ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ملک کی انتخابی تاریخ میں 1977ء کے بعد یہ پہلا انتخاب ہے جس کو سیاسی جماعتوں نے مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ 1977ء کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) سجاد احمد جان کی طرح موجودہ چیئرمین الیکشن کمیشن انتخابات کو سو فیصد شفاف قرار دے رہے ہیں، اور ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اسے تاریخ کی بدترین دھاندلی کا عنوان دے رہی ہیں۔ ان انتخابات کو صرف جیتنے والوں یا جنہیں جتوانے کا بندوبست کیا گیا تھا انہوں نے قبول کیا ہے۔ باقی سب نتائج کو مسترد کررہے ہیں۔ تحریک انصاف چونکہ سب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے اس لیے اُس نے نتائج کو تسلیم کرلیا ہے اور اسے عوامی مینڈیٹ کی فتح قرار دیا ہے۔ بلوچستان میں ’’باپ‘‘ کے نام پر چند ماہ قبل بننے والی سیاسی جماعت صوبے میں سب سے زیادہ نشستیں ملنے کے بعد خوش ہے۔ عوامی مسلم لیگ صرف ایک نشست جیت کر اسے عوام کی فتح قرار دے رہی ہے۔ مسلم لیگ (ق) نے بھی انتخابات کو شفاف قرار دیا ہے، اور اس گھمسان کی جنگ میں جیتنے والے آزاد امیدوار زیادہ خوش ہیں کہ اب ان کی قیمت لگنے والی ہے۔ماضی کی حکمران اور مستقبل کی اپوزیشن مسلم لیگ (ن) نے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکالنے اور انہیں فارم 45 نہ دینے پر انتخابات کو مسترد کردیا اور کہا کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر لائحہ عمل طے کریں گے۔ پارٹی ترجمان مریم اورنگزیب نے نتائج تبدیل کرنے کا بھی الزام لگایا۔ مسلم لیگ(ن) نے گنتی کے دوران ہی اپنا ردعمل دے دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ بدترین دھاندلی ہوئی، جہاں ہم جیت رہے تھے وہاں نتائج روکے گئے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے رضا ربانی، شیری رحمن اور تاج حیدر نے پریس کانفرنس کرکے الیکشن کمیشن کی ناکامی اور انتخابات میں دھاندلی کا اعلان کیا اور کہا کہ ایک پارٹی کو سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دھاندلی زدہ نتائج قبول نہیں۔ انہوں نے اے پی سی بلا کر لائحہ عمل بنانے کا اعلان کیا، جبکہ ایم ایم اے اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ عوام کے لیے ان نتائج کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ سابقہ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد غیر متعلقہ افراد پولنگ اسٹیشنوں میں داخل ہوگئے تھے۔ تحریک لبیک یارسول اللہ نے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما میاں افتخار حسین نے نتائج کو مسترد کردیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے فیصل سبزواری نے بھی پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے۔ پاک سرزمین پارٹی نے بھی سادہ کاغذ پر رزلٹ دینے کی شکایت کی۔ بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی، پختون خوا میپ اور دیگر جماعتوں نے بھی انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگی کے الزامات لگائے اور ان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ تادم تحریر حافظ سعید کی ملّی مسلم لیگ اور جی ڈی اے کا مؤقف سامنے نہیں آیا۔
پوری قوم کو غور کرنا چاہیے کہ 21 ارب روپے کے اخراجات سے الیکشن کمیشن نے جو انتخابات کرائے اُن کی ساکھ یہ ہے کہ نتائج آتے ہی ملک کی سیاسی جماعتوں نے انہیں مسترد کردیا۔ انتخابات کے نتیجے میں قوموں میں استحکام آتا ہے، لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں نہ صرف انتشار بڑھے گا بلکہ اس انتشار سے دشمن فائدہ بھی اٹھائے گا۔
پولنگ سے تقریباً چار ہفتے قبل پاکستان پریس انسٹی ٹیوٹ کے ایک سیمینار میں راقم نے عرض کیا تھا کہ جولائی 2018ء کے انتخابات اپنے انعقاد سے ڈیڑھ ماہ قبل ہی متنازع ہوچکے ہیں۔ ان کے نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ انتخابات بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے انتخابات ہیں، الیکٹ ایبلز کے انتخابات ہیں، اور کالے دھن کے انتخابات ہیں۔ راقم کے یہ خدشات فرائیڈے اسپیشل میں شائع بھی ہوچکے ہیں۔ اب نتائج نے ثابت کیا ہے کہ ان انتخابات پر اصل گرفت اسٹیبلشمنٹ کی تھی، سیاسی طاقتوں کی نہیں۔ اس اسٹیبلشمنٹ نے الیکٹ ایبلز کے ذریعے اپنی پسند کے نتائج حاصل کرلیے، اور ان الیکٹ ایبلز نے یہ شاندار کام پانی کی طرح پیسہ بہا کر کیا۔ یقینی طور پر یہ پیسہ جائز کمائی کا نہیں تھا، بلکہ یہ کالا دھن تھا جسے استعمال کرکے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ نتائج اٹھاکر دیکھیں تو آپ کو درجنوں ایسے افراد مل جائیں گے جنہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے تھا مگر اب وہ ملک کے مقتدر ایوانوں میں براجمان ہوں گے۔ اور جنہیں اپنی لیاقت، دیانت، تجربے اور خدمت کی بنیاد پر ایوانوں کے اندر کردار اداکرنا چاہیے تھا وہ گلیوں، محلوں میں خوار ہورہے ہوں گے۔
ان انتخابات کے بعد جس انتشار کا خدشہ تھا اُس کا تو آغاز ہوچکا ہے، لیکن اسٹیبلشمنٹ کی ہوشیاری دیکھیے کہ پولنگ سے اگلے دن ہی اسٹاک ایکس چینج کا گراف حیرت انگیز طور پر اونچا ہوگیا ہے۔ یہ مصنوعی بڑھوتری نہ سابقہ حکمرانوں کو راس آئی تھی اور نہ موجودہ کامیاب لوگوں کو راس آئے گی۔ لیکن اس کی قیمت حکمرانوں کو نہیں عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
بہرحال عمران خان مرکز میں آسانی سے حکومت بنا لیں گے، اور اس کے لیے کیا وہ تمام کام کریں گے جس پر وہ سابقہ حکمرانوں کو بدعنوان اور کرپٹ کہتے تھے یہ ان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

عمران خان کی کابینہ کے10 اہم ارکان

انتخاب 2018 میں جیت کے ساتھ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت بنی اور عمران خان وزیراعظم بن گئے تو ان کی وفاقی کابینہ کے 10 اہم ارکان کون، کون ہوںگے جبکہ اس دوڑ میں پی ٹی آئی کے کون سے رہنما اور اتحادی کون ہیں؟ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے حکومت سازی اور کابینہ کے ناموں پر غور شروع کر دیا ، قومی اسمبلی اسپیکر کے لیے عارف علوی اور شفقت محمود کے نام زیر غور ہیں، ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ زرتاج گل وزیر یا کسی اتحادی رہنما کو ملنے کا امکان جبکہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت میں شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ کیلیے مضبوط امیدوار ہیں۔کہ اسد عمر کو وزیر خزانہ بنانے کا اعلان تو عمران خان پہلے سے کر چکے ہیںجبکہ سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو وفاقی وزیر داخلہ بنائے جانے کا امکان تاہم وزارت ریلوے شیخ رشید کو مل سکتی ہیساتھ ہی شیریں مزاری وزیر دفاع اور فواد چوہدری وزیر اطلاعات بن سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق بلین سونامی منصوبے کے سربراہ ملک امین اسلم کو وعدے کے مطابق مشیر ماحولیات بنائے جانے کا امکان بھی سامنے آیاجبکہ عمران خان کی متوقع کابینہ 18 سے20ارکان پر مشتمل ہوگی۔عمران خان کی کابینہ کے لیے دیگر زیر غور ناموں میں مخدوم خسرو بختیار، مراد سعید، سینیٹر چوہدری سرور، سینیٹر اعظم سواتی، غلام سرور خان، رمیش کمار، عامر لیاقت اور شہریار آفریدی بھی شامل ہیں۔ (روزنامہ جنگ)