انتخابی نتائج اور سیاسی استحکام

تمام تر خدشات کے باوجود ملک بھر میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا۔ اول دن سے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات موجود تھے۔ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری نے کھل کر یہ بات کی تھی کہ بعض بیرونی قوتیں پاکستان میں انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ تفصیلات سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو بند کمرے کے اجلاس میں بتا سکتے ہیں، لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر ایسا نہیں ہوا۔ انتخابی مہم کے درمیان دہشت گردی کے ہولناک ترین واقعات بھی پیش آئے، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے دو اہم سیاسی خانوادوں کے امیدواران ہارون بلور اور سراج رئیسانی بھی دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے۔ ان واقعات نے بھی عوام کے ذہنوں میں خدشات پیدا کیے ہوئے تھے کہ انتخابات کا انعقاد ممکن بھی ہے یا نہیں۔ ان شکوک و شبہات کے پس پردہ یہ تصور موجود ہے کہ سیاسی قیادتیں قومی پالیسی کے حوالے سے اچھی طرزِ حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کرسکیں، اس لیے کسی ٹیکنوکریٹ قسم کی حکومت کے بارے میں سیاسی حلقوں میں خدشات موجود تھے۔ انتخابات کے التوا کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے مطالبات بھی آئے تھے، لیکن بعد میں انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے اتفاقِ رائے پیدا ہوگیا تھا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات کے انعقاد کا کوئی سیاسی متبادل بھی موجود نہیں تھا۔ البتہ ہماری سیاسی قوتیں اجتماعی قیادت کی کوئی شکل پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہ ایک عالمی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔ امریکہ پاکستان کے پڑوس میں واقع افغانستان پر قابض ہے۔ پاکستان، امریکی وار آن ٹیرر کا خطِ اوّل کا اتحادی ہے، اس کے باوجود امریکہ نے عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان کو ’’دہشت گردی‘‘ کی معاونت کا ملزم قرار دیا ہوا ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کرکے ہر قسم کی مالی ترسیلات کی نگرانی کی جارہی ہے، جب کہ وار آن ٹیرر کی وجہ سے پورا ملک طویل عرصے سے دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ دہشت گردی سے نجات پانے کے لیے پاکستانی قوم نے انسانی حقوق کی پامالی کو بھی صبر سے برداشت کیا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قبائلی علاقوں، خیبر پختون خوا، بلوچستان اور کراچی سمیت پورے ملک میں آپریشن کیے گئے ہیں جس سے پورا ملک زخمی ہے، لیکن قوم نے ہمت اور جرأت سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور قومی یک جہتی کو برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات پر خاصی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن سانحہ مستونگ پیش آگیا جو ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے اپنی تاریخ کا ہولناک ترین سانحہ تھا، اس سانحے میں رئیسانی خاندان کے سپوت سراج رئیسانی سمیت تقریباً 200 افراد شہید ہوئے تھے۔ انتخابات کا دن بھی پُرامن ثابت نہیں ہوا اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک اور بم دھماکا ہوگیا جس میں 31 افراد شہید ہوگئے۔ اس اعتبار سے انتخابی عمل کو پُرامن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان حادثات کے باوجود بلوچستان سمیت پورے ملک میں انتخابی عمل مکمل ہوگیا ہے۔ یہ انتخابی عمل اس سیاسی بحران کے تناظر میں مکمل ہوا ہے جو پاناما لیکس کے انکشافات کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ پاکستان میں 1990ء سے سابق حکمرانوں کے احتساب کا نعرہ لگایا جارہا ہے۔ پاکستان میں احتساب کے ادارے بھی قائم ہوئے، لیکن شفاف احتساب ایک خواب ہی رہا ہے۔ پاناما لیکس پاکستان کی سیاست میں دھماکا خیز ثابت ہوا اور بھاری مینڈیٹ سے قائم ہونے والی میاں نوازشریف کی حکومت کو کھا گیا۔ آج سب سے مقبول لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے میاں نوازشریف اپنی بیٹی اور داماد سمیت جیل میں ہیں، اور اس مکافاتِ عمل سے ہر سنجیدہ اور حساس دل مضطرب ہے۔ لیکن المناک پہلو یہ ہے کہ جب سیاسی قیادت طاقت میں ہوتی ہے تو اُسے حقائق نظر نہیں آتے۔ پاکستان جن خطرناک حالات میں گھرا ہوا ہے اُن سے براہِ راست واقف ہونے کے باوجود حکمران طبقات حکمرانی سے لطف اندوز ہونے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اُن ذمے داریوں کا احساس نہیں کرتے جن کی جواب دہی انھیں مخلوقِ خدا کے ساتھ ساتھ خالق کو بھی کرنی ہے۔ پروپیگنڈے اور خطابت کے اسلحے سے لیس ہوکر مخلوقِ خدا کو تو دھوکا دیا جاسکتا ہے لیکن خالق کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔ حکمرانی ایک عظیم ذمے داری ہے، جو شخص زمین پر کسی خطے میں حکمران بنایا جاتا ہے تو یہ دراصل خدا کی طرف سے ایک بڑی ذمے داری کا بوجھ ہے۔ جو اس ذمے داری کو محسوس نہیں کرے گا وہ فرعون، نمرود اور ابوجہل میں شمار ہوگا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے حکمران خلفائے راشدینؓ اور حسینؓ بن علیؓ کی روش اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں اور بعد میں اﷲ کی گرفت میں آتے ہیں۔ انتخابی عمل کے نتائج آنے کے بعد نئے حکمرانوں کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ دو بڑی جماعتیں دوسرے اور تیسرے نمبر پر چلی گئی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی پارٹی بھی اُن لوگوں پر ہی مشتمل ہے جو ماضی میں کسی نہ کسی حیثیت سے سابق حکومتوں میں شامل رہے ہیں، البتہ عمران خان پہلی بار کوئی حکومت قائم کریں گے۔ ابھی یہ بھی دیکھنا ہے کہ شکست کھانے والی سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو بے ضابطگیوں کی وجہ سے مسترد کردیا ہے، وہ کوئی احتجاجی تحریک چلاتی ہیں یا نئے نظام کو چلنے دیں گی؟ پاکستان میں انتخابی عمل کی شفافیت پر ہمیشہ کسی نہ کسی حلقے کی جانب سے اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اِس مرتبہ کئی جماعتوں نے اعتراضات کیے ہیں۔ اس لیے سیاسی استحکام کے لیے ان الزامات کا جواب دینا ضروری ہے۔