صدر ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں ہونے والی چوٹی کانفرنس نتیجہ خیز ہو نہ ہو، ہنگامہ خیز ضرور رہی۔ شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جب اتنی اہم ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر سے ایسی سنگین لغزشِ زبان سرزد ہوئی کہ جس سے ملک کے مؤقف میں کلیدی تبدیلی کا تاثر پیدا ہوا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان مختلف عالمی تقریبات کے دوران پہلے بھی بات چیت ہوچکی ہے لیکن ہیلسنکی چوٹی کانفرنس دونوں صدور کے درمیان پہلی باضابطہ سربراہ ملاقات تھی۔ یہ براہِ راست ONE ON ONE بیٹھک تھی جس میں امریکی صدر، ان کے روسی ہم منصب، دونوں کے مترجمین اور ہمارے رب کے سوا اور کوئی موجود نہ تھا۔
فن لینڈ ایک عرصے سے امریکہ و روس سربراہی ملاقاتوں کی میزبانی کرتا رہا ہے۔ 55لاکھ نفوس پر مشتمل جمہوریہ فن لینڈ شمالی یورپ میں بحیرۂ بالٹک کے کنارے واقع ہے، جس کی 800 میل طویل سرحد روس سے ملتی ہے۔ ماسکو سے ہیلسنکی کے درمیان پرواز کا دورانیہ ایک گھنٹہ ہے۔ پڑوسی ہونے کے ناتے فن لینڈ کے روس کے ساتھ تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں۔ فن لینڈ نے نیٹو (NATO)کی رکنیت نہیں حاصل کی اور اسی غیر جانب داری کی بنا پر روس و امریکہ کے سربراہ باہمی ملاقات کے لیے ہیلسنکی کو پسند کرتے ہیں۔
٭امریکی صدر جیرالڈ فورڈ اور سوویت یونین کے سربراہ لیونڈ برژنیف(Leonid Brezhnev) نے جولائی 1975ء میں یہاں تاریخی ملاقات کی، جب سرد جنگ کی تلخی اور کشیدگی کم کرنے کے لیے مشہورِِ زمانہ’ہیلسنکی معاہدے‘ پر دستخط ہوئے۔
٭اس کے بعد جارج (سینئر یا ڈیڈی) بش اور سوویت صدر میخائل گوربا چوف نے ستمبر 1990ء میں یہاں ملاقات کی۔
٭سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن کی روس کے صدر بورس یلسن سے ملاقات بھی ہیلسنکی میں ہی ہوئی تھی۔
ٹرمپ پیوٹن ملاقات کے حوالے سے ہیلسنکی کے رئیسِ شہر (میئر) مسٹر جین واپا ووری (Jan Pellervo Vapaavuori) نے بہت فخر سے کہا کہ دنیا کے مختلف شہر اولمپکس، ورلڈ کپ، کنسرٹس اور عالمی نمائشوں کی میزبانی کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں، لیکن ہم دنیا میں امن و رواداری کے لیے بڑی طاقتوں کی ملاقات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اِس بار ہیلسنکی کا انتخاب اس لیے بھی بڑا منطقی تھا کہ یہ شہر ماسکو کے پڑوس میں ہے تو صدر ٹرمپ نیٹو کانفرنس کی بنا پر اسی علاقے میں موجود تھے، چنانچہ دونوں رہنمائوں نے ملاقات کے لیے فن لینڈ کے صدر سائولی نیینستو(Sauli Niinisto) کی دعوت قبول کرلی۔
اس تعارف کے بعد اب آتے ہیں ملاقات کی طرف۔ پیوٹن سے ملاقات نیٹو سربراہ کانفرنس کے چند ہی دن بعد منعقد ہوئی تھی، اور اپنے اتحادیوں کی مجلس میں صدر ٹرمپ کا جو رویہ رہا اُس پر اُن کی اپنی پارٹی کے رہنمائوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا جسے کسی حد تک مذمت بھی کہا جاسکتا ہے۔ روس امریکہ سربراہ کانفرنس اُس وقت ہوئی ہے جب یوکرائن کے خلاف روس کی محاذ آرائی اور اس سے بڑھ کر 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات ایک بار پھر سرد جنگ کے دور کی سطح پر ہیں۔ اس ملاقات سے دو دن پہلے گزشتہ انتخابات میں مداخلت کے الزام پر امریکی حکومت نے ایک درجن کے قریب روسی افسران کے خلاف باقاعدہ پرچہ کاٹ دیا۔ جبکہ چوٹی کانفرنس سے ایک دن پہلے امریکی دارالحکومت سے ایک 29 سالہ روسی خاتون ماریا بوتینا (Maria Butina) کو گرفتارکیا گیا جو امریکہ کی ایک جامعہ میں زیرتعلیم ہیں۔ ماریا مبینہ طور پر روس کی خفیہ ایجنسی FSBکی ترغیب کار یا Lobbyist ہیں جنھوں نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بہت سرگرمی سے حصہ لیا۔ وہ امریکہ میں اسلحہ ساز اور تقسیم کنندگان کے مفاد کے لیے کام کرنے والے ادارے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن (NRA)کی ایک عہدیدار بھی ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا اس ملاقات میں مترجمین کے سوا کوئی نہ تھا، اس لیے ’اندر‘ کی کہانی کے بارے میں کوئی خبر یا افواہ سامنے نہیں آئی۔ ہمارے قارئین کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ ملاقات کے بعد جب دونوں رہنما مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے آئے تو صدر ٹرمپ نے فیفا ورلڈ کپ کے کامیاب انعقاد پر روس کے صدر کو مبارکباد دی۔ اس موقع پر صدر پیوٹن نے امریکی صدر کو پاکستان کی بنی فٹبال کا تحفہ پیش کیا۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ 2014ء ورلڈ کپ کی طرح اِس بار ماسکو میں بھی پاکستان کی بنی گیندیں استعمال کی گئیں۔
صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت پر تفصیلی بات چیت کی ہے۔ انھوں نے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی طرف سے کسی بھی مداخلت کی غیر مبہم انداز میں تردید کی۔ صدر پیوٹن نے زور دے کر کہا کہ روس کسی بھی انداز میں امریکہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ امریکہ اپنی قیادت کس کو سونپتا ہے یہ فیصلہ کرنا امریکی عوام کا کام ہے اور ہم امریکیوں کے اس حق کا حد درجہ اہتمام کرتے ہیں۔ تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ ذاتی طور پر صدر ٹرمپ کی کامیابی کے خواہش مند تھے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ روس سے اچھے تعلقات کے حق میں ہیں جو دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔
صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا رویہ مدافعانہ سے زیادہ روس کے وکیل کا تھا اور وہ مسلسل روسی صدر کے مؤقف کا دفاع کرتے رہے، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ری پبلکن پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے فوجی خدمات کے سربراہ جان مک کین نے کہا کہ روسی قیادت سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے جو رویہ اختیار کیا وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ میری یادداشت کے مطابق آج تک کسی بھی امریکی صدر نے اس درجہ کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کے گزشتہ صدارتی انتخاب کے حوالے سے کسی بھی قسم کی سازش کے الزامات بے بنیاد ہیں، انہوں نے صدارتی انتخاب اپنی شاندار اور کامیاب انتخابی مہم کی بنیاد پر جیتا تھا اور ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو آسانی سے شکست دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اور روس کے تعلقات میں ہونے والے بگاڑ کے حوالے سے وہ دونوں ملکوں کو قصوروار سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے امریکی پالیسی کو احمقانہ (Stupid) قراردیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ کئی برس سے جاری امریکی بے وقوفی کے باعث تعلقات میں بگاڑ آیا تھا جسے اب درست کیا جارہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے سینیٹ کی جانب سے انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کی تحقیق کرنے کے لیے نامزد کیے گئے خصوصی مشیر رابرٹ مولر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ تحقیقات ملک کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں جس نے امریکہ کو تقسیم کردیا ہے اور دنیا سے باہر امریکہ تماشا بنا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے صدر پیوٹن کے ساتھ تمام اختلافی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ دو طرفہ تعلقات اس وقت اتنے خراب ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں تھے، تاہم اس ملاقات کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوگئی ہے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بات چیت کے دوران صدر پیوٹن نے امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی سختی سے تردید کی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے روسی ہم منصب کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے روس کی جانب سے امریکی انتخابات میں مداخلت کا کوئی جواز نظر نہیں آتا‘‘۔ جناب ٹرمپ کا یہ بیان امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں پر عدم اعتماد کا اعلان تھا، کیونکہ FBI سمیت امریکہ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اس بات پر متفق ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں روس نے مداخلت کی تھی۔ پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے CNNکے نمائندے کے سوال کا جواب دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ جھوٹوں (FAKE MEDIA)سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔
صدر کے اس بیان پر سارے امریکہ میں شدید ردعمل ہوا، چنانچہ دوسرے دن صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے بارے میں ان کا بیان لغزشِ زبان کا شکار ہوگیا تھا۔ صدارتی وضاحت کے مطابق امریکی صدر کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ ’’امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے نہ ہونے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا‘‘۔ لیکن جوشِ خطابت میں وہ would not کو Would کہہ گئے۔ اس غلطی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صدر صاحب نے would not کے بجائے اسے مختصر کرکے Wouldn’t کہا، جس کی وجہ سے ان کے اپنے کانوں کو بھی غلطی کا احساس نہ ہوسکا۔ صدر ٹرمپ کے مخالفین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے وہی کہا جو وہ کہنا چاہتے تھے، لیکن اب شدید ردعمل کے نتیجے میں مدافعت پر مجبور ہوکر عذر تراش رہے ہیں۔ اپنی پوزیشن کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک دوسرے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں نے نیٹو کے ساتھ اچھی ملاقات کی، نیٹو ارکان کو دفاع کے لیے بڑی رقومات مختص کرنے پر راضی کیا۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے میری ملاقات بہت مؤثر رہی۔ افسوس کہ میڈیا نے اسے درست طریقے پر رپورٹ نہیں کیا، تاہم میں Fake Media کی جعلی خبروں پر مشتعل نہیں ہوں گا۔‘‘
وطن واپسی پر صدر ٹرمپ نے حکمران ری پبلکن پارٹی کے رہنمائوں سے ملاقات میں پارٹی کو اعتماد میں لیا۔ بات چیت کے دوران پارٹی رہنمائوں نے امریکی انتخابات میں مداخلت کے علاوہ کریمیا پر قبضے اور شام میں روس کی مداخلت کے مسئلے پر صدر ٹرمپ کے کمزور رویّے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ری پبلکن پارٹی کے رہنما اور امریکی کانگریس کے اسپیکر پال رائن نے کہا کہ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ روس نے ہمارے انتخابات میں مداخلت کی ہے اور پیوٹن کو دوست نہیں کہا جاسکتا۔
دوسری طرف جناب پیوٹن صدر صدر ٹرمپ کے دفاع کے لیے میدان میں کود پڑے اور امریکی صدر کے مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کچھ عناصر ہماری پہلی سربراہ کانفرنس کے مثبت نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملاقات کے نتیجے میں امریکہ و روس کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔19 جولائی کو دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات روسی سفارت کاروں سے خطاب میں صدر پیوٹن نے کہا کہ امریکہ میں کچھ ایسی سیاسی قوتیں ہیں جو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر سربراہ ملاقات کے مثبت ثمرات کا اثر زائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اور یہ لوگ لاکھوں امریکیوں کے روزگار اور کاروبار کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ روسی صدر نے صاف صاف کہا کہ کچھ امریکی سیاست دان امریکہ کے مجموعی مفاد کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایسا کررہے ہیں۔ یہ سیاست دان بہت طاقت ورہیں جو چرب زبانی اور غلط بیانی سے امریکی عوام کو متاثر کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ چند گھنٹوں کی اس ملاقات میں امریکہ اور روس کے مابین برسہا برس پرانے مسائل کا حل ممکن نہ تھا۔ تاہم اس سلسلے میں پیش رفت کا آغاز ہوگیا ہے۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ روس تعلقات سرد جنگ کے زمانے سے بھی زیادہ غیر تسلی بخش ہیں اور ملاقات کے دوران انہیں بہتر بنانے کے لیے نئی شروعات پر اتفاق پایا گیا۔ اس موقع پر انھوں نے ایک لطیف سی دھمکی بھی دے ڈالی کہ روس و امریکہ کے تعلقات بہتر نہ ہونے کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان تخفیفِ اسلحہ کا معاہدہ بھی ختم ہوسکتا ہے۔ 2010ء میں ہونے والے اس معاہدے کی اگر تجدید نہ گئی تو 2020ء میں اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد یہ دستاویز غیر مؤثر ہوجائے گی۔ اس دوران صدر پیوٹن نے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکی صدر سے ان کی ملاقات میں کچھ ’مفید سمجھوتے‘ بھی طے پائے ہیں۔
روسی صدر نے ان سمجھوتوں کی تفصیل بیان نہیں کی، لیکن صدر ٹرمپ نے کابینہ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات کے دوران کریمیا بحران پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاقِ رائے پایا گیا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ دونوں سربراہ دہشت گردی و مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ، اسرائیل کے تحفظ، مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام، شام کے مسئلے کے پُرامن حل، باہمی تجارت، شمالی کوریا کے جوہری تنازعے اور باہمی دلچسپی کے دوسرے امور پر بات چیت جاری رکھنے پر متفق ہیں۔ دوسرے دن امریکہ کی صدارتی ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے روسی ہم منصب کو اہم ملاقات کے لیے اس سال کے آخر میں واشنگٹن آنے کی دعوت دی ہے جس میں ان امور پر مزید بات چیت کی جائے گی۔ ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ روس سے تعلقات کو باہمی مفاد میں بہتر بنانے کے لیے پُرعزم ہیں اور اس سلسلے میں Fake Media کی منفی سرگرمیوں کے باوجود صدر ٹرمپ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے کہ یہ امریکہ کے مفاد میں ہے، اور ملکی مفاد پر کوئی مداہنت یا سودے بازی ممکن نہیں۔
روس سے دوستی کے لیے صدر ٹرمپ کا گرمجوش رویہ ان کے قدامت پسند ساتھیوں کو بہت زیادہ پسند نہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ اس حساس معاملے پر اپنے ساتھیوں اور امریکی سراغ رساں اداروں کے تحفظات کا تدارک کیسے کرتے ہیں۔