ذیشان ظفر
پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج میں جہاں عوام کو طویل انتظار کرنا پڑا وہیں ہارنے والے امیدواروں میں سابق وزیراعظم سے لے کر ایسے نام بھی شامل ہیں جن کے بارے میں تجزیے کیے جا رہے تھے کہ یہ آئندہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔انتخابات سے پہلے ملک میں ’جیپ‘ کے انتخابی نشان پر سوشل میڈیا، مقامی ٹی وی چینلز پر طرح طرح کے تبصرے کیے جا رہے تھے بلکہ محتلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے جیپ کو کسی نہ کسی درپردہ سازش سے جوڑنے کی کوشش کی۔
یہ بحث مسلم لیگ نون سے ناراض ہونے والے سینیئر رہنما چوہدری نثار کے آزاد امیدوار کے طور پر جیپ کے نشان سے حصہ لینے سے شروع ہوئی تاہم چوہدری نثار کو قومی اسمبلی کے حلقہ 59 سے تحریک انصاف کے غلام سرور خان سے تقریباً 24 ہزار ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔انھیں این اے 63 سے بھی شکست کا سامنا ہے جہاں سے وہ سنہ 2013 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتے تھے بلکہ یہاں سے 1988 کے بعد پہلی بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ چوہدری نثار کو اگرچہ قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے شکست ہوئی لیکن صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پی پی 10 سے کامیاب ہو گئے اور پی پی 12 سے شکست ہوئی۔چوہدری نثار علی کے بعد اگر بات کی جائے تو مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں جنھیں اسلام آباد کے حلقہ این اے 53 میں شکست ہوئی تاہم اس حلقے کے بارے میں پہلے سے کہا جا رہا تھا کہ انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے کیونکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تھے۔لیکن مری میں انھیں اپنے آبائی حلقہ این اے57 سے مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا تھا جہاں سے انھیں تحریک انصاف کے صداقت علی عباسی سے شکست ہوئی جہاں سے وہ چھ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔سیاست میں ایک نام جہاں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی زبان پر ہمیشہ رہا تو آصف علی زرداری اور نواز شریف کی سیاسی ضرورت بھی رہا، وہ ہیں جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔بار انھوں نے مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کے بینر تلے انتخابات میں حصل لیا لیکن انھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ این اے 38 اور 39 سے تحریک انصاف کے رہنماؤں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اسی طرح سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایم ایم اے کے بینر تلے این اے 7 سے الیکشن میں حصہ لیا جہاں سے وہ تحریک انصاف کے امیدوار سے ہار گئے۔خیبر پختونخوا میں چارسدہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 24 سے عوامی نیشنل پارٹی کے اسفند یار ولی اور پشاور میں این اے 31 سے غلام بلور کو تحریک انصاف کے امیدواروں سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اسی صوبے میں مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو سوات سے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو ’ منی لاڑکانہ‘ یعنی ملاکنڈ سے شکست ہوئی۔ شہباز شریف کو ڈیرہ غازی خان اور کراچی سے بھی تحریک انصاف کے امیدواروں نے شکست سے دوچار کیا۔ تاہم بلاول لیاری اور لاڑکانہ سے جبکہ شبہاز شریف لاہور کے حلقے سے آخری اطلاعات کے مطابق برتری حاصل کیے ہوئے تھے۔خیبر پختونخوا سے ایک پھر رخ کریں پنجاب کا تو فیصل آباد کو مسلم لیگ نون کا گڑھ کہا جاتا رہا ہے اور یہاں سے ان کے سیاست دان طلال چوہدی اور عابد شیر علی اپنے بیانات اور عہدوں کی وجہ سے خبروں میں رہے ہیں۔فیصل آباد کے بعد لاہور میں اگرچہ مسلم لیگ نون کئی نشستوں کو بچانے میں کامیاب رہی لیکن یہاں سے اس کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق کو عمران خان کے ہاتھوں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ صوبائی حلقہ پی پی 168 سے جیت گئے۔لاہور میں ہی حلقہ این اے 129 میں سخت مقابلے کی توقع تھی جہاں سے تحریک انصاف کے علیم خان کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے لیکن انھوں مسلم لیگ نون کے امیدوار ایاز صادق نے ہرا دیا۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو راولپنڈی کے آبائی حلقے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تو یہاں سے سینکڑوں کلومیٹر دور ملتان میں ایک اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی این اے 158 سے تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔ملتان سے ایک اور سیاسی شخصیت تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی این اے 156 سے کامیاب ہو گئے لیکن انھیں سندھ میں عمر کوٹ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 220 اور تھرپارکر کے حلقہ 221 سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے شکست دی۔عمر کوٹ کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی بات کریں تو ماضی میں وہاں سے الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ سب سے بڑا جماعت ابھر کر سامنے آتی ہے تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے ایم کیو ایم میں دھڑے بندیوں اور خود کو اپنے بانی سے الطاف حسین سے الگ کرنے کے بعد مشکلات کا سامنا تھا جس کے عکس انتخابات کے نتائج میں دکھائی دیتا ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنما فاروق ستار کو این اے 245 سے تحریک انصاف کے عامر لیاقت نے تو این اے 247 سے تحریک انصاف کے عارف علوی نے شکست دی اور یوں پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے فاروق ستار اس بار پارلیمان کے رکن نہیں بن سکے۔کراچی میں پی ایم کیو ایم سے منحرف ہو کر اپنی الگ سیاسی جماعت پاک سرزمین بنانے والے مصطفی کمال کو غیر سرکاری نتائج کے مطابق کراچی کے حلقے 253 سے ایم کیو ایم کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہے۔پیپلز پارٹی کو لیاری میں بری طرح شکست ہوئی ایم ایم اے کے سید عبدالرشید کامیاب ہوئے۔بلوچستان سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کو حلقہ این 263 سے ایم ایم اے کے امیدوار سے شکست کا سامنا ہے۔دیگر ناکام ہونے والے بڑے نام: اب تک کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر الزمان کائرہ، مسلم لیگ نون کے رہنما اویس لغاری، تحریک انصاف کی فردوس عاشق اعوان، جی ڈی اے کے امیدوار ذوالفقار مرزا اور آفتاب شیر پاؤ کو قومی اسمبلی کے حلقوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔