را کے سابق سربراہ اے ایس دولت کی مودی سے ’’مایوسی‘‘

بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت جو گزشتہ دنوں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کے ساتھ مشترکہ کتاب تصنیف کرنے کی وجہ سے خبروں اور تبصروں کا موضوع بنے رہے ہیں، ایک بار پھر دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے اچھوتے خیالات کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے پاک بھارت تعلقات اور مستقبل پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کسی ’’واجپائی‘‘ کا ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے سے مسئلے کے حل کی ایک امید بندھ چلی تھی۔ مسٹر دولت کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا عمل بحال ہوسکتا ہے۔
اے ایس دولت کی طرف سے لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے مذاکراتی عمل کی بحالی کا امکان ظاہر کرنا اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ یا تو بھارت کی موجودہ حکومت انتخابی سیاست کے لیے پاکستان کے نام کے غیر ضروری استعمال سے تھک چکی ہے، یا بھارت کا ووٹر اس نعرے میں کشش محسوس نہیں کرتا، اس لیے انتخابات قریب آتے ہی مودی حکومت بلاجھجک پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کرسکتی ہے۔
مسٹر دولت کی طرف سے مذاکرات کے آغاز کی بات کے ساتھ ہی بھارت کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور وی کے سنگھ نے لوک سبھا میں ایک تحریری سوال کے جواب میں اعتراف کیا کہ بھارت نے پاکستان کو مذاکرات کی سرے سے کوئی پیشکش کی ہی نہیں، البتہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں بھارت کی طرف سے سرحد پار دہشت گردی کو ختم کرنے کی شرط عائد کی جاتی رہی۔ بھارتی وزیر مملکت کی طرف سے یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ مذاکرات سے انکار مسلسل پاکستان کی طرف سے نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے ہوتا رہا ہے۔ وی کے سنگھ نے چین کی طرف سے پاک بھارت مذاکرات میں کردار ادا کرنے کے امکان کو بھی مسترد کیا۔ گویا کہ بھارت مذاکرات میں چین کی اعلانیہ سہولت کاری کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اسی دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کی طرف سے بھی دونوں ملکوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ترجمان نے پاک بھارت کشیدگی کو جنوبی ایشیا کے لیے خطرناک قرار دیا اور کہا کہ دونوں ملک اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کو یقینی بنائیں۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بعض ایسے مسائل ہیں جن کو حل کیے بنا امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ ایک ذومعنی جملہ بھی ہے جس میں کشمیر کی جانب بھی اشارہ ہوسکتا ہے اور دہشت گردی کی جانب بھی، جو بھارت کا مؤقف ہے۔
اے ایس دولت کی طرف سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے ایک اور’’ واجپائی‘‘ کی آمد کی خواہش اس بات کی عکاس ہے کہ بھارت کے خوش گمان عناصر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مودی کی ذات سے مکمل مایوس ہوچکے ہیں، اور ان کے خیال میں مودی میں ایک اور واجپائی کے طور پر اُبھرنے کے جراثیم ہی موجود نہیں۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ بھارت کے خوش گمان عناصر بھارت کے لیے جہاں ایک اور واجپائی کی خواہش ظاہر کرتے ہیں، وہیں وہ پاکستان کے لیے ایک اور ’’نوازشریف‘‘ کی بات نہیں کرتے، کیونکہ واجپائی نوازشریف مذاکراتی عمل اگر چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا تو پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف کے دور میں یہ عمل پَر لگا کر اُڑنے لگا تھا۔ پاکستان میں ہر حکمران مذاکرات اور مفاہمت کے لیے نوازشریف اور پرویزمشرف بنا رہتا ہے، مگر بھارت میں عشروں کے اُلٹ پھیر کے بعد کوئی واجپائی منظر پر اُبھرتا ہے۔ گویا کہ بھارت کے سیاسی نظام میں اتنی جان باقی نہیں کہ اس کی کوکھ سے ایک واجپائی جنم لے جو پاکستان کے حوالے سے ماضی کے کہن زدہ بھارتی تصورات کو بدل کر بڑے فیصلوں پر آمادہ ہوجائے۔
پاکستان کی حالیہ انتخابی مہم میں بھارت کا ذکر برائے نام رہا۔ کئی بین الاقوامی نشریاتی ادارے پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں کے مزاج میں اس تبدیلی کو محسوس کرکے موضوعِ بحث بنا چکے ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹوں میں اس تبدیلی کی بہت سی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ پاکستان کے برعکس بھارت کے ہر انتخاب میں پاکستان ایک اہم موضوع ہوتا ہے، اور بی جے پی نے انتخابات میں پاکستان فیکٹر کا حد سے زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ اب بھارتیوں کی انتخابی مہم اُس وقت تک رنگ جما ہی نہیں سکتی جب تک کہ پاکستان پر دو چار الزامات عائد نہ ہوں، کچھ دھمکیاں نہ دی گئی ہوں۔ یہ ایک قطعی غیر صحت مندانہ رجحان ہے جس کا شکار بھارت ہورہا ہے۔ پاکستان شدید اقتصادی اور توانائی کے بحرانوں کا شکار ہے۔ سیاسی آویزش بھی پورے جوبن پر ہے۔ اس طرح ملک کی انتخابی فضا پر اقتصادی بحران کے سائے زیادہ گہرے رہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ملک کی اقتصادی صورت حال کو موضوع بنائے رہیں، اور اس سے بھی زیادہ ایک دوسرے کی تنقیص سے کام چلایا جاتا رہا۔ اپنے کاموں کو مثبت انداز سے پیش کرنے کے بجائے اُن کا روئے سخن ایک دوسرے کی خامیوں کو نمایاں اور اجاگر کرنے پر ہی مرکوز رہا۔ ایک زمانہ تھا جب سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں کشمیر کو ایک اہم موضوع بنائے رکھتی تھیں اور ’’اب لینا ہے کشمیر… ٹوٹے شملہ کی زنجیر‘‘ جیسے نعروں سے ووٹر کا لہو گرماتی تھیں، مگر اِس بار جوش و خروش مفقود رہا۔ انتخابی بخار کے لیے کشمیر کو استعمال نہ کرکے پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے بھارت کی سیاسی قیادت کو ایک راہ دکھلا دی ہے۔