جدید سندھ کا المیہ، رسول بخش پلیجو

حافظ محمد موسیٰ بھٹ
سندھ میں پچھلے ساٹھ ستّر سال سے اسلامی اعتبار سے تہذیبی اور نظریاتی انحراف اور جدید مادہ پرست نظریات سے ہم آہنگی کی جو علمی، فکری اور عملی تحریک شروع ہوئی وہ ایسی تحریک تھی جس نے سندھ کی تین ذہین نسلوں کو متاثر کرکے اسلام کے بنیادی عقائد سے دور کردیا اور تہذیبی اعتبار سے انہیں مادہ پرست مغرب کا حصہ بنادیاہے۔ہماری تین ذہین نسلوں کا اپنی تہذیب سے انحراف اور مادہ پرست تہذیب سے ذہنی ہم آہنگی بہت بڑا المیہ ہے، جو جدید سندھ کا سب سے تشویش ناک پہلو ہے۔ ہزاروں سے زائد مرد و خواتین کا اللہ، رسول اور آخرت پر اعتقاد کے خاتمے کا ہونا، کردار کے بحران کا ہونا اور مارکسزم اور سیکولر فکر کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کرنا… اسے سندھ کے اس دور کا سب سے بڑا المیہ کہا جاسکتا ہے۔ سندھ کے مذہبی لوگوں کو اس کا ادراک اس لیے نہ ہوسکا کہ وہ جدید سیکولر اور مادہ پرست نظریات کی نوعیت و اصلیت سے آشنا ہی نہ تھے، انہیں یہ اندازہ نہ رہا کہ مسلمان نام کے افرادبھی جدید نظریات کے زیراثر اللہ و رسول اور آخرت کے عقائد کے منکر بھی ہوسکتے ہیں۔
سندھ میں اسلامی تہذیبی اعتبار سے یہ بحران پیدا کرنے میں جن شخصیتوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا اُن میں محمد ابراہیم جویو صاحب، جی ایم سید صاحب، شیخ ایاز صاحب اور رسول بخش پلیجو صاحب کی شخصیتیں شامل ہیں۔ شیخ ایاز آخری دس برسوں میں مادی اور ملحدانہ نظریات سینائب ہو کر اسلامی عقائد کی راہ پر گامزن ہوگئے تھے، تاہم ان کی پرانی کتابوں کو ان کے پرانے ساتھی پوری طرح استعمال کرکے، ان کی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام بھی کرتے رہے۔
جی ایم سید صاحب نے سندھی قوم پرستی کے نظریے کو فروغ دینے میں اپنی توانائیاں خرچ کیں اور مسلم امت کے تصور کو مسترد کرکے اس کے خلاف فضا ہموار کی، اس اعتبار سے انہوں نے کمیونسٹوں کو گویا خام مال فراہم کیا۔ محمد ابراہیم جویو صاحب خاموشی سے علمی و ادبی کام کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی سیکولرزم کی بنیاد پر ذہنی تربیت کا کام کرتے رہے اور قوم پرست اور ترقی پسند تحریکوں کو درونِ خانہ رہ کر حکمت عملی متعین کرکے دیتے رہے۔
اس سلسلے میں رسول بخش پلیجو صاحب کا کردار یہ رہا کہ انہوں نے عوامی تحریک کے نام سے تنظیم قائم کرکے مرد و عورتوں کی ملحدانہ فکر کی بنیاد پر تربیت کی اور انہیں متحرک کرنے کے لیے تنظیم کا پلیٹ فارم فراہم کیا۔ پلیجو صاحب چونکہ تحریر و تقریر اور گفتگو کے ماہر تھے، عربی و فارسی سے بھی آشنا تھے۔ انگریزی کتابوں سے انہوں نے براہِ راست مادی فکر کو اخذ کیا تھا، بلا کے ذہین تھے، سادہ ذہن نوجوانوں کے سامنے جب وہ مغربی فلاسفروں کی فکر اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعار سے انقلابی فکر کی تشریح پیش کرتے تھے، تو نوجوان مبہوت ہوجاتے تھے۔ وہ تنظیمی صلاحیتوں کے بھی حامل تھے، وہ سندھ بھر کے دوروں کے لیے بھی خاصا وقت نکالتے تھے۔ مختلف شہروں میں اپنے کارکنوں کے گھروں پر وہ کئی کئی دن قیام کرکے، خواتین و مردوں کو بڑے پیمانے پر مادی فکر ہضم کرانے کے لیے کوشاں رہتے تھے اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے۔
اب اگرچہ پلیجو صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں رہے، لیکن ان کے تیار کردہ مادی فکر کے حامل ہزاروں نوجوان موجود ہیں، جو اُن کی مادی فکر کو حرفِ آخر سمجھ کر، اپنی پاکیزہ اسلامی تہذیب اور اسلامی عقائد سے دور ہوگئے ہیں۔
پلیجو صاحب غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک شخصیت تھے، حافظہ نہایت تیز تھا، اپنے فکری مقاصد کے لیے شاہ لطیف کے کلام کو استعمال کرنے کی اکثر کوشش کرتے تھے، انہوں نے سندھ میں مرد و خواتین کی قابلِ ذکر ٹیم تیار کی تھی، جو شعوری طور پر مارکسزم کی فکر کی حامل ہے اور جو خدا، وحی، دین و مذہب کو رد کرچکی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے نوجوان وڈیرے (جو دولت پور کے رہنے والے ہیں) اپنی بڑی گاڑی میں ان سے ملنے کے لیے گئے، پلیجو صاحب نے اپنے تئیں خیال کیا کہ ایک بہتر شکار ہاتھ آیا ہے۔ چنانچہ اسے کائنات کے بے خدا ہونے اور ارتقا کے قوانین کی بدولت ساری کائنات کے ازخود وجود میں آنے پر خوب لیکچر دیا۔ دو تین گھنٹے کی گفتگو کے بعد اس نوجوان وڈیرے نے کہا کہ سائیں میں آپ کی فکر کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے چاہتا ہوں کہ میرے ایک دوست جو مذہبی اسکالر ہیں، آپ یہ سارے نکات اُن کے سامنے بیان کریں اور ان موضوعات پر اُن کا نقطہ نگاہ بھی سنیں، تاکہ مجھے آپ دونوں کی باتیں سن کر صحیح رائے قائم کرنے میں مدد ملے۔ پلیجو صاحب نے ہامی بھری اور دو ہفتے کے بعد تبادلہ خیال کے لیے اتوار کا دن رکھا۔ عبدالحفیظ احمدانی صاحب بدین کے تھے اور کالج میں استاد ہیں، ہماری کتابیں ہضم کی ہیں۔ وہ دونوں حیدرآباد پہنچے۔ یہاں پہنچنے کے بعد نوجوان وڈیرے کو محترم پلیجو صاحب کا فون آیا کہ پروگرام ملتوی کرتے ہیں، اس لیے کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
رسول بخش پلیجو صاحب کی فکر، کام اور شخصیت پر ہم نے آٹھ دس سال پہلے ’’بیداری‘‘ سندھی میں مضمون لکھا تھا، جو ہماری سندھی کتاب ’’جدید سندھ کے عالم و دانشور‘‘ میں بھی شامل ہے۔ اس موقع پر ہم ذیل میں قارئین کے ملاحظہ کے لیے وہ مضمون پیش کررہے ہیں تاکہ مادی فکر کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں اور کردار کی ایک جھلک سامنے آئے، اور ملت کے دردمند اصحاب کو یہ فکر دامن گیر ہو کہ ملحدانہ فکر کے تیار کردہ ان ہزاروں خواتین و حضرات کو کس طرح اپنی اصل اور پاکیزہ تہذیب کی طرف واپس لانے کی کاوشیں کی جائیں:
’’رسول بخش پلیجو صاحب سندھ کے ان دو چار سیکولر دانشوروں اور لیڈروں میں شامل ہیں جن کی مسلسل جدوجہد سے سندھ میں لادینی فکر کو فروغ ملا ہے اور کمیونزم کے خالص مادی اور دین و مذہب دشمن نظریے کو عوامی سطح پر لوگ مل گئے ہیں اور ان میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔
پلیجو صاحب دانشور ہونے کے علاوہ سیاسی لیڈر بھی ہیں۔ وہ ایک ادیب بھی ہیں تو ایک تنظیم کے سربراہ بھی۔ وہ تحریر کی اچھی صلاحیت کے حامل ہیں، وہ تقریر اور گفتگو میں بھی جادو اثر رکھتے ہیں۔ سندھی، اردو، انگریزی کے علاوہ ان کو فارسی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔ انہیں شاہ بھٹائی کے سیکڑوں اشعار یاد ہیں۔ حافظ، رومی اور سعدی کے اشعار بھی ازبر ہیں۔
سندھ میں جی ایم سید کے بعد درمیانی طبقے کے ذہین افراد کو متاثر کرکے اُن کو عوامی تحریک کے پلیٹ فارم پر متحرک کرنے اور اسلامی تہذیبی اثرات سے دور کرکے خالص مادہ پرستی کا نظریہ ہضم کرانے میں انہیں اہم کردار حاصل ہے۔
رسول بخش پلیجو صاحب کی ایک بڑی ’’خصوصیت‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے جدید دور کے ملحدانہ نظریات کو براہِ راست اصل کتابوں سے پڑھ کر، اپنے ذہن اور مزاج کی تشکیل اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کارل مارکس کے جدلیاتی مادیت کے نظریے سے صد فیصد متفق ہیں، جس کے مطابق انسان اور کائنات کی تخلیق اور ارتقا جدلیاتی نظریے کے اصول کے تحت ہوا ہے، اس میں کسی مافوق الفطرت ہستی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مارکسزم کے علاوہ وہ فرائیڈ کے نظریۂ جنس کے بھی پیروکار ہیں۔ اس کے مطابق آزاد جنسی خواہشات کو روکنے سے ذہنی اور نفسیاتی عوارض پیدا ہوتے ہیں۔ جنس بھی روٹی، پانی کی طرح ضروری ہے، جنسی خواہشات کی تکمیل کی راہ میں مذہبی پابندیوں کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ نیز انسانی سرگرمیوں کا بڑا محرک جنسی جذبہ ہے۔ یہاں تک کہ پلیجو صاحب کی اپنی زندگی بھی سگمنڈ فرائیڈ کے نظریے سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔
رسول بخش پلیجو صاحب کا یہ بھی اہم ’’کارنامہ‘‘ ہے کہ انہوں نے اپنی تحریک سے وابستہ افراد میں نظریاتی پختگی پیدا کرنے کے لیے مادہ پرستی پر مبنی کتابوں کے مطالعے اور اسٹڈی سرکل کو شروع سے لازمی کررکھا ہے، جس کی وجہ سے ان کے کارکن ایک خاص ذہنی سانچے میں تیار ہوتے ہیں۔ پلیجو صاحب کی شخصیت میں پارٹی کو منظم کرنے اور چلانے کے اوصاف بھی موجود ہیں، لیکن ایک بڑی کمزوری، جس کی وجہ سے اُن کے بڑے قیمتی ساتھی اُن سے الگ ہوتے رہے ہیں، وہ اُن کی دانش ورانہ انانیت ہے، یعنی اپنی رائے کو اٹل سمجھ کر، اجتماعی مفاد کی خاطر اس سے دستکش نہ ہونے کی نفسیات ہے۔ وہ لوگ جن کو پارٹی میں پلیجو ثانی سمجھا جاتا تھا، مثلاً ابرار قاضی، وشنومل اور ڈاکٹر نذیر احمد سومرو وغیرہ… وہ ان سے الگ ہوگئے۔ ایک سندھی کالم نگار جامی چانڈیو جن کے سارے گھرانے کو پلیجو صاحب نے کمیونسٹ فکر کا حامل بنایا تھا، جن کے والد ایک عالم دین تھے، وہ خود پلیجو کی مسلسل صحبت اور گفتگو سے متاثر ہوکر پکے کمیونسٹ بن گئے، وہ جامی چانڈیو بھی آج پلیجو صاحب سے کافی دور ہیں۔ البتہ پلیجو صاحب نے اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی نظریاتی تربیت کرکے، اسے اس قابل بنایا ہے کہ وہ آج ان کی جگہ سنبھال رہا ہے اور وہ اب پارٹی کی قیادت کے منصب پر فائز ہے۔ سندھی تحریکوں میں یہ پلیجو صاحب کی منفرد مثال ہے۔ اس بات سے ان کا اپنے نظریے سے والہانہ لگائو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تحریک کی خاطر اپنے آپ کو فنا کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنے خاندان کے افراد کی صلاحیتوں کو بھی نظریے کے فروغ کے لیے دوسرے کاموں پر ترجیح دیتے ہیں۔
پلیجو صاحب کمیونزم کے سابقہ سوویت یونین کے نمونے کو ماڈل سمجھنے کے بجائے، چین میں مائوزے تنگ کی انقلابی حکمت عملی والے کمیونسٹ ماڈل کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں۔ کمیونزم کے ان ماڈلوں میں فرق صرف طریقہ کار کا ہے، یعنی انقلابی اور غیر انقلابی طریقہ کار، لیکن دونوں کا بنیادی نظریہ ایک ہی ہے جدلیاتی مادیت، جس کے مطابق مادی قوتوں کے ایک دوسرے سے ٹکرانے سے ارتقا کے عمل کا جاری رہنا، کائنات کے بے خدا ہونے کا تصور، اور لوگوں سے پیداواری ذرائع چھین کر ریاست کے سپرد کرنا، اور ریاست کی جانب سے مساوات کی بنیاد پر افراد میں ان مادی وسائل کی تقسیم کا انتظام کرنا، یہ کمیونزم کے بنیادی اصول ہیں۔ مارکسزم چاہے سابقہ سوویت یونین کا ہو یا چین کا، دونوں کمیونزم کے ان بنیادی اصولوں کے بارے میں صد فیصد متفق ہیں۔ دونوں کا اختلاف جزوی نوعیت کا ہے۔ پلیجو صاحب کا کمیونزم کا نظریہ مارکسزم سے کوئی الگ شئے نہیں ہے۔
پلیجو صاحب کے کردار کا یہ پہلو بھی قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے وکالت کو پیشے کے طور پر اختیار کیا۔ وکالت کے ساتھ تنظیم سازی کا کام بھی کیا۔ مضامین لکھنے اور کتابیں مرتب کرنے کا ’’کارنامہ‘‘ بھی سرانجام دیا اور ہنگامی تحریکیں بھی چلائیں۔ ہمارے ہاں ایسی صلاحیتوں کے لوگ بہت کم ہیں، اور اُن کے اِن اوصاف کا اعتراف نہ کرنا بخل ہوگا۔ پلیجو صاحب کی عمر بھر کی جدوجہد کا نتیجہ چند ہزار افراد کی اپنی پاکیزہ اسلامی تہذیب سے دوری اور بے راہ روی کی صورت میں ہی نکلا ہے۔
جہاں تک پلیجو صاحب کے سندھ دشمن طاقتوں کی روک تھام کے لیے کردار کا تعلق ہے تو اس معاملے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ ان کی جدوجہد اکثر سندھی رہنمائوں سے بڑھ کر ہے۔
موصوف آج بھی کارکنان کی ایسی ٹیم رکھتے ہیں جو لوگوں کو سندھ کی سطح پر اکٹھا کرکے مظاہرے بھی کرسکتی ہے اور سندھ دشمن قوتوں کو للکار سکتی ہے۔ جلسے، جلوس اور مظاہرے کرنے کی یہ طاقت ان کو آج بھی میسر ہے، لیکن سندھ و اہلِ سندھ کو سب سے زیادہ ضرورت جس بات کی ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ سندھ تعلیمی اور فنی اعتبار سے آگے بڑھیں اور اتنی ترقی کریں کہ دوسری قومیتوں سے اپنا وجود منوائیں، اور ان کی ماہرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے دوسری قومیتوں کے لوگ ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں، انجینئروں، سائنس دانوں، تاجروں، تعلیمی ماہرین، اساتذہ اور دانشوروں کی ضرورت ہے جو اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ پائے کی صلاحیت کے حامل ہوں اور کوئی بھی حکومت انہیں آسانی سے نظرانداز نہ کرسکے۔ اس باب میں جی ایم سید صاحب اور محمد ابراہیم جویو صاحب سمیت پلیجو صاحب کا کردار بھی ہرگز قابلِ ستائش نہیں ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ درمیانے طبقے کا فرد ہونے کے باوجود پلیجو صاحب کا ذاتی معیارِ زندگی خاصا بلند ہوچکا ہے۔ وہ ایک بڑی کوٹھی میں رہتے ہیں، ایک بڑی اور بہترین گاڑی رکھتے ہیں، ان کی زندگی کی جھلک بڑے سے بڑے وڈیرے اور سرمایہ دار سے مختلف نہیں ہے۔
یہ باتیں ایسی ہیں جو ایک غیر طبقاتی معاشرے اور مساوات کے نظریے پر یقین رکھنے والے لیڈروں کے کردار کو متنازع بناتی ہیں اور کارکنوں میں محبت کے بجائے دوری پیدا کرتی ہیں۔ مادی نظریات پر یقین رکھنے والے لیڈروں یا دانشوروں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی اصل منزل مال و دولت اور جائداد کا حصول ہے، نظریات کے پسِ پردہ یہی مقصد کارفرما ہے۔ سندھ ترقی پسند تحریک کا قائد ہو یا جیئے سندھ کے لیڈر ہوں، یا پلیجو صاحب… ان سب کا اصل ہدف یہی ہے۔ اتنے بڑے تضاد کے ہوتے ہوئے نظریات کے فروغ کے لیے حقیقی کردار ادا کرنا مشکل ہے۔
اگرچہ گاڑی اور کشادہ مکان موجودہ دور میں خاص طور پر کام کے افراد کے لیے اہم ضرورت ہے، لیکن ایسی شاندار گاڑی رکھنا اور شاندار بنگلے میں رہائش اختیار رکھنا جس سے دو وقت کی روٹی کے محتاج کارکن احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں وہ عوامی تحریک کے لیڈر کی شان کے منافی ہے۔
رسول بخش پلیجو صاحب اپنے افراد کی ذہنی تربیت جس فکر کے تحت کررہے ہیں وہ انسان اور کائنات کے بے خدا ہونے کی فکر ہے، انسان کی تخلیق کا اندھی بہری قوتوں کے نتیجے میں ہونا اور پیداواری قوتوں کے ٹکرائو سے انسانی ارتقا کے سلسلے کا جاری رہنا وغیرہ ہے۔ مارکسزم کی یہی فکر ہے۔ اس لیے ان کے اس نظریے کے بارے میں کسی شک شبہ کی ضرورت نہیں ہے۔
مجھے ان کی اِس فکر کا مزید مشاہدہ اُس وقت ہوا جب ایک نوجوان میرے پاس آیا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے اُس نے بتایا کہ ’’میں دو سال تک جناب پلیجو صاحب کا پرائیویٹ سیکرٹری رہ چکا ہوں۔ اب میرا تعلق ماتلی کے ایک نقشبندی سلسلے کے بزرگ سے ہوا ہے۔ میں ابھی تک ذکر فکر باقاعدگی کے ساتھ شروع نہیں کرسکا ہوں‘‘۔ چہرے پر داڑھی بھی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں روحانیت کی دنیا میں داخل ہوا ہوں، لیکن پلیجو صاحب کی صحبت کے اثر سے خدا کے بارے میں جو ذہنی اُلجھنیں پیدا ہوئی تھیں وہ اب تک موجود ہیں۔
یہ صرف ایک سندھی نوجوان کی کہانی نہیں ہے، بلکہ ایسے ہزاروں سندھی نوجوان ہیں جن سے پلیجو صاحب جیسے کمیونسٹ دانشور نے ایسی وارداتیں کی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ میری ذہنی الجھن بلکہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ ظلم اور جبر ہوتا آیا ہے اور ہر دور میں ظالم اور غاصب قوتوں کا غلبہ رہا ہے اور عوام بیچارے ہر دور میں پستے رہے ہیں اور مال داروں کے ہاتھوں ان کی زندگی اجیرن رہی ہے۔ اگر خدا موجود ہوتا اور وہ منصف اور رحیم بھی ہوتا تو آخر انسانیت پر ایسی قہری کارروائیاں ہوتے دیکھ کر وہ خاموش کیوں ہے؟ معلوم ہوا کہ خدا نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ جبری قوتوں کا مددگار ہے؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ دنیا میں جس طرح وڈیرے لوگوں سے سجدے کراتے ہیں اور لوگوں سے اپنی تعظیم کراکر خوش ہوتے ہیں، یہی حال خدا کا بھی ہے، آخر وڈیرے اور خدا کے درمیان فرق ہی کیا ہے؟ اُس کا کہنا تھا کہ ان دو سوالوں نے مجھے بہت پریشان کیا ہے اور فکری انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں نے مارکسزم کی فکر کو ہضم کیا ہے، اس لیے مجھے ایسی کتابیں دیں، جن سے میری الجھنیں دور ہوں اور میں ایمان کی حالت پر قائم رہوں، ورنہ ایسے خیالات کی موجودگی میں کہیں میرا خاتمہ کفر کی حالت میں نہ ہو۔
یہ سوال سن کر مجھے سخت افسوس ہوا، لیکن بالکل تعجب نہ ہوا، کیونکہ مارکسزم پر یقین رکھنے والے افراد کی ذہنی حالت ایسی ہی ہوتی ہے۔ پلیجو کی فکر سے متاثر ہزاروں نوجوان ان الجھنوں میں مبتلا ہیں۔ میں نے نوجوان سے کہا کہ خدا کے وجود پر فلسفیانہ اور سائنسی دلائل آپ کو ہماری سندھی کتابوں ’’مارکسزم کیا ہے؟‘‘، ’’مارکسزم عقل اور تجربے کی روشنی میں‘‘، ’’کیا خدا موجود ہے؟‘‘، ’’علم جدید کا چیلنج‘‘ وغیرہ میں ملیں گے۔ میں آپ کو عام فہم دلائل کے ذریعے غور و فکر کی دعوت دیتا ہوں۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عقل خود مادے کی پیداوار ہے۔ مادی قوت کے ذریعے غیر مادی ہستی کو سمجھنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہے۔ انسان میں وجدان کی صورت میں ایک غیر مادی اور لطیف جوہری قوت رکھی گئی ہے۔ اس جوہری قوت یعنی وجدان میں غوطہ زنی کے ذریعے خالقِ کائنات کے بارے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں، کیونکہ وجدان جو محبت کا مرکز اور ذریعہ ہے اس پر جب کائنات کی اصل محبوب ہستی کے حسن کے جلووں کا منظر ظاہر ہوتا ہے تو سارے اعتراضات اور الجھنیں ازخود ختم ہوجاتی ہیں۔
انسانوں کی نفسیات یہی ہے کہ جب ان میں محبت پیدا ہوتی ہے تو پھر ان کے سارے شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں مادی محبت کے سلسلے میں بھی اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان محبت ہے، اس کی وجہ سے آپس میں شکوک و شبہات اور ہر قسم کی الجھنیں رفع ہوجاتی ہیں۔ محبت کا مرکز عقل نہیں، بلکہ وجدان ہے۔ عقل کے ذریعے محبت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عقل محبت کے فلسفے اور راز کو سمجھ نہیں سکتی، اس کے لیے وجدانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وجدان خود گواہی دے گا ’’ونحن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ اور ’’وھومعکم اینما کنتم‘‘ اور ’’وفی انفسکم افلاتبصرون‘‘۔
دوسرا نکتہ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ کائنات کے اس عظیم الشان نظام میں آخر انسان کی حیثیت ہی کیا ہے؟ سائنس دانوں نے اب تک مشاہدے اور تحقیق سے کائنات کے جس حصے کو تلاش کیا ہے اس میں اربوں کہکشائیں ہیں، ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں، اور ہر ستارہ اتنا بڑا ہے کہ ہماری دھرتی اس کے آگے ایک دانے کے برابر ہے۔ یہ کائنات کی وہ وسعت ہے جس کا سائنس دانوں نے بڑی تحقیق کے بعد مشاہدہ کیا ہے، لیکن کائنات کی عظیم الشان وسعت تک رسائی سے سائنس دان اب تک قاصر ہیں۔ یہ کائنات اس سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ بڑی ہے۔
کائنات کے اتنے بڑے نظام میں انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کسی بڑی حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ مٹی اور نطفے کی پیداوار انسان اگر اتنے بڑے نظام کے خالق کی شانِ عظمت پر اعتراض کرنے لگے تو وہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی نادان آسمان سے ناراض ہوکر اس کی طرف پتھر پھینکنے لگے۔
تیسرا نکتہ جسے سمجھنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے سامنے یہ ساری کائنات بے بس ہے اور کائنات کی ہر شئے اپنی زندگی کے لیے اس کی دست گیری کی محتاج ہے، اس خالق اور بے نیاز ہستی نے یہ دنیا اس لیے سجائی اور تخلیق کی ہے تاکہ وہ انسان کو آزمائے کہ ان میں کون ہیں جو اپنی رائے، مرضی اور خواہش سے دستکش ہوکر اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا کی یہ زندگی عارضی زندگی ہے، جو آزمائش کی خاطر ملی ہے۔ اصل زندگی تو موت کے بعد کی زندگی ہے۔ اس عارضی زندگی میں خدا کو یہ دیکھنا ہے کہ اِس دنیا میں انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے کون ہیں اور حیوانوں اور درندوں کی طرح خدا کی زمین کو پامال کرنے والے کون ہیں۔ اس دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ ان دونوں گروہوں کو الگ الگ کرنا چاہتا ہے تاکہ دوسری زندگی میں ان دونوں گروہوں کو ان کے عمل کے مطابق جزا مل سکے۔ اس عارضی زندگی میں انسان کو جو آزادی ملی ہے، وہ اس سے فائدہ اٹھاکر ظلم و ستم اور جبر کرتا ہے۔ یہ آزادی خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے، اگر دوسری زندگی نہ ہوتی تو پھر تو یہ سمجھنا درست ہوتا کہ اس دنیا میں ظلم اور اندھیر کو برداشت کرنا انصاف کے خلاف ہے۔ لیکن یہاں ہر شخص کو آزمائش کی خاطر مکمل آزادی دی گئی ہے اور آخرت میں ہر ایک کو اپنے کیے کا پھل ملے گا۔ اس لیے قدرت کی اس حکمت کو ظلم اور ناانصافی ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ جبار و قہار بھی ہے، اس نے اپنی حکمت کے تحت یہ دنیا اس مقصد کے لیے بنائی ہے۔ ہم چونکہ اُس کی مخلوق ہیں اس لیے ہمیں اُس کی تخلیق پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔
میں نے اسے ایک مثال یہ دی کہ دنیا میں ایک جاگیردار ایک محدود دائرے میں بڑا اختیار رکھتا ہے۔ وہ اپنی ہزارہا ایکڑ زمین پر جو فصلیں چاہتا ہے کاشت کرتا ہے، گندم اور چاول کاشت کرتا ہے، اگر وہ چاہے تو بڑے باغات کھڑے کردے جن میں ہر قسم کے میوے ہوں، کیا اس جاگیردار پر کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں فصل کیوں کاشت کی، یا باغات کیوں لگوائے؟ وہ ایسا کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کررہا ہے۔ یقینا اس پر ایسا اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ وہ اپنی زمین کے معاملات میں مکمل آزاد اور خودمختار ہے۔ اس پر اعتراض کرنے یا رکاوٹ پیدا کرنے کو مداخلتِ بے جا سمجھا جائے گا۔ اگر دنیا کے اس جاگیردار کو اپنے دائرے میں اتنا اختیار حاصل ہے کہ اس کے کام میں رکاوٹ ڈالنا قابلِ سزا ہے، تو اتنی بڑی کائنات کی خالق ہستی، جس کائنات اور تمام مخلوقات کی زندگی کا دارومدار اس کے رحم و کرم پر ہے، آخر اس ہستی پر کسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مخلوق پر یہ اصول لاگو کرے یا مخلوق کو اس طریقے سے چلائے؟ اس طرح کے اعتراضات کرنے والے لوگ یقینا عقل سے عاری ہیں۔ اگر ایک صنعت کار صنعتی علاقے میں اپنے ایک بڑے پلاٹ پر خاص قسم کا کارخانہ لگاتا ہے تو کیا اس پر کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے؟ اعتراض کرنے والے فرد کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ اپنی حدیں پھلانگ رہا ہے اور اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
یہ عمومی مثالیں ہیں، جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔
ان مثالوں سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ بااختیار ہستی بااختیار ہوتی ہے اور وہ اپنے دائرے میں ایک حد تک آزاد ہوتی ہے۔ جب دنیا کے بااختیار انسانوں کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے تو پھر کائنات کی خالق ہستی کے اختیارات کے متعلق ہمارے اعتراض کا کیا جواز ہے؟ اللہ کے بارے میں اس طرح کی الجھنوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرد کی نفسیات میں ہولناک فساد پیدا ہوچکا ہے اور وہ تکبر اور بڑائی کے ایک ایسے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے کہ اس سے بڑھ کر تکبر کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ تکبر کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر حقیقت پسندی کی دنیا میں آنا چاہیے اور دنیا کی عام مثالوں سے سبق لے کر کائنات کی خالق ہستی کی قدر و قیمت پہچاننی چاہیے۔
اگرچہ عقل و حواسِ خمسہ اور محسوسات کا دائرہ محدود ہے۔ دنیا سے ماورا حقائق کا فہم ان کے ادراک سے بہت بلند ہے۔ تاہم فرد اگر نفسی قوتوں کی یرغمالی سے آزاد ہوکر، دنیاوی مثالوں کے ذریعے خالقِ کائنات اور حقیقتِ کائنات کے بارے میں غور و فکر سے کام لے اور سلیم فطرت کو بیدار کرکے، تفکر کرے تو اس سلسلے میں اس پر اہم حقائق آشکار ہوسکتے ہیں اور انکار اور الجھنوں کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ایسی الجھنوں کے پیدا ہونے کا بنیادی سبب اپنی حدود سے تجاوز کرکے، نفسی قوتوں کو عقل پر غالب کرنا اور تکبر اور بڑائی میں مبتلا ہونا ہے۔ اس مرض سے نجات حاصل کرکے، آزادانہ غور و فکر کرنے سے حقیقت ازخود آشکار ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں مادہ پرست فلسفیوں اور دانشوروں کی فکر ہرگز قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سلیم اور سالم فطرت (جو خدا پرستی کے داعیے سے ابھرتی ہے) کھوچکے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کی وجدانی صلاحیتوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے (وجدان وہ قوت ہے جو خدائی تجلیات کا مرکز ہے)۔
اس کا تیسرا سبب یہ ہے کہ ان خدا پرست سائنس دانوں کی طرف جنہوں نے خدا کے وجود کے متعلق سائنسی، عقلی اور مشاہداتی دلائل کے انبار لگادیے ہیں، مادہ پرست فلسفیوں کا ذہن ان دلائل پر غور و فکر سے بالکل انکاری ہے۔ خدا کے وجود اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں ہمارے ادارے نے سندھی زبان میں متعدد کتابیں چھاپی ہیں جو اردو و انگریزی کی اہم کتابوں کے تراجم پر مشتمل ہیں۔
میں نے اس طرح کے عام فہم دلائل اس سندھی نوجوان کے سامنے رکھے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ رسول بخش پلیجو صاحب اسلامی تہذیب کے حامل مسلمانوں کی نئی نسل کو کون سی فکر دے رہے ہیں، اور اس فکر کے ذریعے وہ انہیں کس طرح ڈپریشن اور خوداعتمادی کے ہولناک بحران میں مبتلا کررہے ہیں۔
کاش، پلیجو صاحب سوچتے کہ وہ کیا کررہے ہیں اور مادہ پرست فلسفیوں کے پیچھے لگ کر شاندار اسلامی تہذیب کے علَم بردار سندھ اور اہلِ سندھ کو کس طرف لے جارہے ہیں۔