نواب ممتاز احمد خان ٹوانہ… قائداعظمؒ کا سپاہی

دانش یار
تقسیم برصغیر سے پہلے پنجاب کے وزیراعظم سر خضر حیات ٹوانہ نواب کالرہ اسٹیٹ ضلع شاہ پور کے ناتے ہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ پنجاب کے دیگر مسلمان، ہندو اور سکھ زمینداروں کی طرح خانوادہ ٹوانگاں سیاست میں یونینسٹ تھے، لیکن اِن کے ہاں ایک ایسا فرد بھی تھا جس نے ایک نازک تاریخی موڑ پر قائداعظمؒ کی ہدایت پر عمل کرکے پنجاب میں تحریکِ پاکستان کے لیے جان و مال نثار کرنے والوں کو بڑی تقویت پہنچائی۔
1937ء میں بھی پنجاب میں الیکشن جیت کر یونینسٹ پارٹی نے اقتدار حاصل کیا۔ اس جماعت کے سربراہ سر سکندر حیات اٹک کی کھٹڑ (کھ ٹ ڑ) برادری کے فرد تھے۔ اس پارٹی کے دوسرے اہم ترین لیڈر سر فضل حسین 1936ء میں فوت ہوگئے تھے۔ جنگِ عظیم دوم میں برطانوی استعمار کو ہندوستان میں 1942ء میں انتخابات کروانے کی فرصت نہ ملی تو پہلے الیکشنوں کے نتیجے میں بننے والی صوبائی حکومتیں اور مرکزی کونسل کام کرتی رہیں۔ پنجاب میں ملک برکت علی واحد نمایاں شخص تھے جو مسلم لیگی رکن اسمبلی منتخب ہوئے، وہ بھی اس لیے کہ انہوں نے شہری حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑا۔ دیہات کے مسلمان کسان تو یونینسٹ لیڈر سرچھوٹو رام کی خدمات کے باعث کسی دوسری جماعت کو ووٹ دینے کا سوچ بھی نہیں رہے تھے، کیونکہ ان کی زمینیں جو کئی کئی عشروں سے ہندوئوں کے پاس رہن تھیں وہ فک ہوئی تھیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 1937ء میں لکھنؤ میں منعقد ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے سر خضر حیات ٹوانہ وزیراعظم پنجاب کو دعوت دی گئی تھی۔ وہاں یہ طے پایا کہ پنجاب کی صوبائی حکومت میں تو یہاں کے مسلمان ارکانِ اسمبلی یونینسٹ پارٹی کی پالیسی پر چل سکتے ہیں لیکن برصغیر کی سطح پر مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا ساتھ دیں گے اور قائداعظمؒ کو مسلمانوں کا متفقہ لیڈر تسلیم کریں گے۔ اس عہد و پیمان کے نتیجے میں 1941ء میں سر خضر حیات نے وائسرائے کی دفاعی کونسل سے استعفیٰ دیا تھا۔
1945-46ء تک حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے میں مکمل کامیابی حاصل ہوئی اور قائداعظمؒ انگریز حکومت اور آل انڈیا کانگریس کو یہ باور کرانے میں بھی کامیاب رہے کہ مسلمانوں کے معاملات اب ملّتِ اسلامیہ نے اپنے واحد غیر متنازع رہنما قائداعظمؒ کے سپرد کردیے ہیں۔ پنجاب میں بھی مسلمانوں کی نشستیں جیت کر مسلم لیگ کو اپنی یہ حیثیت مستحکم کرنا تھی۔ اس لیے قائداعظمؒ یہ چاہتے تھے کہ پنجاب میں یونینسٹ مسلم ارکانِ اسمبلی آئندہ الیکشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر لڑیں۔ اس پر سر خضر حیات ٹوانہ تیار نہ ہوئے۔ الیکشن سے پہلے 1945ء میں قائداعظمؒ لاہور تشریف لاکر حبیب اللہ روڈ پر واقع ممدوٹ وِلا میں کوئی دو ہفتے مقیم رہے، اور اس دوران انہوں نے کوشش کی کہ سر خضر حیات وزیراعظم پنجاب، مسلم لیگ کا ٹکٹ لیں۔ انہوں نے مان کر نہ دیا۔ چنانچہ انہیں اظہارِِ وجوہ کا نوٹس بھجوایا گیا۔ جو وفد یہ نوٹس پہنچانے کے لیے اُن کے گھر گیا اُس سے انہوں نے کہا کہ ’’تحریری جواب سے پہلے مجھے قائداعظمؒ سے ملاقات کا وقت لے دیں۔ کیونکہ سکھوں کو مسلم لیگ کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کے لیے میں ایک تعمیری کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوں، اور اگر مجھے اس کام کے لیے وقت مل جائے تو انہیں کچھ داخلی نوعیت کے اختیارات دے کر اپنے ساتھ ملائیں گے۔ اس طرح سارا پنجاب تقسیم ہوئے بغیر پاکستان میں شامل ہوسکے گا اور ہمارے لیے کشمیر کا حصول ممکن ہوگا‘‘۔
(سر خضر حیات سکھوں کو مناکر پاکستان میں شامل کرنے کے لیے اپنی جس اسکیم کا ذکر کرتے ہیں اُس سے قائداعظمؒ قائل نہیں ہوسکتے تھے۔ 1937ء میں لکھنؤ میں یہ طے ہوا تھا کہ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ارکانِ اسمبلی قومی اور برصغیر کی سطح پر ہونے والے امور میں مسلم لیگ یا قائداعظمؒ کی پالیسی اپنائیں گے، لیکن شملہ کانفرنس کے موقع پر سر خضر حیات کا مسلم لیگ کے حصے کی پانچ میں سے ایک نشست اپنی یونینسٹ پارٹی کے حوالے سے طلب کرنا لکھنؤ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ قائداعظمؒ نے نواب سر محمد یامین خان سے کہا کہ وہ سر خضر حیات کو اس سیٹ کے مطالبے سے باز رہنے کے لیے کہیں، لیکن سر خضر حیات کے ساتھ پنجاب کے گورنر گلینسی (Glancy) موجود تھے، یہ نہیں مانے۔ قائداعظمؒ نے دیکھا کہ سر خضر حیات اس قومی اور ملّی مفاد کو بھی اپنی ضد کے باعث نقصان پہنچانے سے باز نہیں آرہے تو وہ کیسے سر خضر حیات کے اس عذر کو تسلیم کرسکتے تھے!)
وفد کے ارکان کو سر خضر حیات کی مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد پنجاب میں اپنی قیادت کا جھنڈا سربلند کرنے میں ناکامی کا خطرہ تھا۔ انہوں نے قائداعظم کے پاس واپس آکر سر خضر حیات کے متعلق الٹی بات کی کہ نوٹس انہوں نے پھاڑ کر پھینکا اور اسے قدموں میں روندا۔ اس اطلاع پر انہیں مسلم لیگ سے خارج کردیا گیا۔ سر خضر حیات بہ حیثیت وزیراعظم پنجاب سکھ زمینداروں اور سرداروں سے جو روابط استوار کیے ہوئے تھے ان کی صلابت کی بنا پر بہ ظاہر یہ امکان قرین قیاس ہے کہ وہ انہیں کبھی کانگریس کے سحر سے نکال سکتے۔ لیکن اگر وہ اسی خاطر یونینسٹ پارٹی کو مضبوط بنانا اور اپنا وہاں رہنا ضروری سمجھتے تھے کہ اس طرح پنجاب کو تقسیم سے بچالیں گے اور اس خطۂ مکمل پنجاب کو پاکستان میں شامل کراسکیں گے تو اس کے لیے انہیں پہلے ہی کافی وقت مل چکا تھا۔ ان کی یہ سادگی ہوگی اگر وہ واقعی سکھوں کو کانگریس سے الگ کرنا ممکن سمجھتے تھے۔ یہ اب کوئی راز نہیں کہ وزارتِ عظمیٰ ان کو انگریز گورنر نے دلائی۔ ان کے والد عمر حیات ٹوانہ انگریزی فوج میں نمایاں عہدے دار تھے اور ایک وقت وہ ملکہ برطانیہ کے ایڈجوٹنٹ (Adjutant) بن گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو یہ عہدہ دلوایا۔ یہ حقیقت چنداں مستور نہیں کہ انگریز ایک تو پاکستان کی تخلیق کے خلاف تھے، دوسرے ان کی تمنا تھی کہ اگر پاکستان کا قیام روک نہ سکیں تو پھر اسے ترقی کرنے کی ہر صلاحیت سے محروم کردیں۔ قائداعظمؒ کسی بھی قیمت پر قیام پاکستان کو التوا میں نہ ڈالنا چاہتے تھے۔
ایک یہ امر مزید قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظمؒ نے خود بھی سکھوں کو راہِ راست پر لانے کی بہت کوشش کی تھی۔ یہ سردار صاحبان انگریزوں کے اُس سلوک کو بھول گئے جو 21 مئی 1849ء کو انہیں مکمل طور پر کچل کر کیا گیا تھا۔ انہیں یہ یاد نہ رہا کہ ہندو مؤرخین نے ایسے مضامین اور کتابیں لکھیں جن میں سوچ سمجھ کر سکھوں کے گوروئوں پر مسلمان حکمرانوں کے ’’مظالم‘‘ کو بیان کیا گیا تھا۔ قائداعظمؒ تو انہیں ایک سکھ ریاست تک دینے کو تیار تھے، جو فیڈریشن آف پاکستان کے اندر ہوتی۔ مہاراجا پٹیالہ بھی قائداعظمؒ کی اس پیشکش سے آگاہ تھے۔ کانگریسی پھندے میں آکر سکھ تقسیم پنجاب کا مطالبہ لے کر اُٹھے۔ اکالی دل کے صدر ماسٹر تارا سنگھ کو سردار پٹیل کی وساطت سے خاصی رقم فراہم کی گئی۔ انہوں نے ہتھیار خریدے، مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کو نکال دینے یا تہ تیغ کردینے کا کام سکھوں نے خوب کیا۔ کانگریس کو بھلا انہیں الگ ریاست کب دینا تھی! ان سے پنجاب کے بٹوارے کا کام کرواکر انہیں وقت کے ساتھ ایک دفعہ کچل دیا۔ ایسی قوم کو سر خضر حیات کیونکر راہِ راست پر لاسکتے تھے! اس قصے کی دیگر تفصیلات پروفیسر منور مرزا مرحوم کی کتاب Dimension of Pakistan Movement کے صفحات 159 تا 171 پر ملیں گی۔
قائداعظمؒ اور اُن کے دیگر رفقا سر خضر حیات کے مقابلے کے لیے کسی امیدوار کی تلاش میں تھے۔ اگر وہ پنجاب کے وزیراعظم کے مقابلے میں کسی شخص کو امیدوار بنا سکتے تو پنجاب میں دیگر مقامات پر مسلم لیگ کے ہر کارکن کو حوصلہ ملتا۔ اس سے پہلے مسلم لیگ کے ایسے اصحاب جیسے منٹگری (اب ساہیوال) میں میاں عبدالحق بار ایٹ لا، مولانا ظفر علی خان (لاہور)، میاں عبدالباری (لائل پور) وغیرہ، اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نوجوان قائداعظمؒ کا پیغام قریہ قریہ اور بستی بستی پہنچانے میں انتھک محنت کررہے تھے۔ اسی قیام لاہور کے دوران کسی نے قائداعظمؒ سے ذکر کیا کہ ممدوٹ ولا کے قریب ہی نواب محمد ممتاز خان ٹوانہ کی کوٹھی ہے اور وہ مسلم لیگ کے ایک عام ممبر بھی بنے ہوئے تھے۔ یہ صاحب خوشاب کے مشہور قصبہ ہڈالی کے رہنے والے تھے۔ جنگِ عظیم اوّل کے خاتمے پر یہ فوج میں کپتان کے عہدے پر تھے، وہاں سے انہوں نے سبک دوشی (Discharge) حاصل کی، اس لیے کہ ان کی روح اس ملازمت کو جاری رکھنے سے ایک ضیق میں مبتلا تھی۔ انہوں نے ضلع شاہ پور میں اراضی خریدی۔ ان کا یہ رقبہ تقریباً پندرہ ہزار ایکڑ پر مشتمل تھا۔ سر خضر حیات کی کالرہ اسٹیٹ تھی۔ اِن کا فارم ہائوس جہاں آباد اسٹیٹ کے نام سے پہچانا اور جانا جاتا تھا۔ خوشاب کے ایک بلوچ زمیندار اور ایک انگریز مسٹر کیل (keel) سے مل کر دریائے جہلم سے ایک نالہ نکالا جو ’کیل کینال‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ اپنا رقبہ بھی سیراب کرتے تھے اور بچا ہوا پانی ملحقہ زمینداروں کو بامعاوضہ فروخت بھی کردیتے تھے۔ اپنی ایک رہائش گاہ انہوں نے اسی حبیب اللہ روڈ پر ممتاز ولا کے قریب حاصل کررکھی تھی۔
ان کی بات سن کر قائداعظمؒ نے ان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں طلب کرنے کے بجائے خود اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں جانے کے لیے کار حاضر کی گئی، لیکن اتنا کم فاصلہ تھا کہ انہوں نے پیدل جانا پسند فرمایا۔ نواب محمد ممتاز خان ٹوانہ کے لیے قائداعظمؒ کی تشریف آوری بہت بڑا اعزاز تھا۔ قائداعظمؒ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور انہیں سر خضر حیات وزیراعظم پنجاب کے مدمقابل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے کہا۔ ان کے لیے یہ ایک بہت کٹھن کام تھا لیکن قائداعظم کا فرمان ٹال نہیں سکتے تھے، اس لیے ہامی بھرلی۔ یہ خبر پنجاب مسلم لیگ کے لیے نہایت خوشی کا سبب بنی۔ ٹوانہ خاندان کے اتنے مؤثر حصے کا مسلم لیگ کے لیے میدانِ عمل میں اُترنا ایک بہت بڑی نفسیاتی فتح اور جذباتی قوت کا سبب بنی۔
اُس زمانے کے الیکشن آج کے مقابلے میں بہت دشوار ہوتے تھے۔ آبادی کم تھی تو پولنگ اسٹیشن بھی کم تھے، اور ووٹروں کو بعض اوقات آٹھ دس میل سے چل کر جانا ہوتا تھا۔ نواب محمد ممتاز خان ٹوانہ کو ٹرانسپورٹ کے حصول میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مقابلے میں صوبے کا سب سے بڑا شخص کھڑا تھا، یہاں ٹرانسپورٹ کے مالک زیادہ تر ہندو تھے اور وہ سر خضر حیات کے اشارے پر انہیں گاڑیاں دینے سے کنی کترا گئے۔ یوں بھی وہ کانگریس کے مخالف کسی مسلمان کو جیتنے کے لیے کسی بھی قسم کی مدد، خواہ بامعاوضہ ہی سہی، دینے کے روادار نہ تھے۔ نواب محمد ممتاز خان ٹوانہ کو دہلی جاکر کچھ گاڑیاں کرائے پر لانے میں ایک حد تک کامیابی ہوئی۔ وزیراعظم پنجاب سرخضر حیات کا اس مقابلے کی وجہ سے کوئی 9 لاکھ روپیہ خرچ ہوا، جب کہ وہ بلامقابلہ کامیابی کے سرابوں میں گم تھے۔ نواب محمد ممتاز خان ٹوانہ کا اس مہم پر 7 لاکھ روپے خرچ آیا۔ یہ مقابلہ اُس زمانے میں پورے برصغیر میں نہایت اہم اور دلچسپ مقابلہ شمار ہوا۔ یہ دوسرے لحاظ سے بھی ایک انوکھا مقابلہ تھا، خاندانی تعلق داری کے طور پر سر خضر حیات اور نواب محمد ممتاز خان آپس میں قریبی رشتے دار تھے، اس لیے پنجاب کی یہ سب سے بڑی اور واحد برادری تھی جس کی ایک بڑی تعداد نے نظریاتی تفریق کے سبب خاندانی تعلقات کی گرفت سے آزاد ہوکر سرخضر حیات کو ہرانے کی کوشش کی۔
پاکستان بن گیا۔ جب خواجہ ناظم الدین پاکستان کے وزیراعظم تھے، وہ ایک دفعہ مسلم لیگ کے اس خادم اور قائداعظمؒ کے فرمان پر لبیک کہنے والے اس سپاہی یعنی نواب محمد ممتاز خان ٹوانہ سے ملنے کے لیے جہان آباد تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ کار میں فقط ایک دوسرے صاحب تھے، یعنی اُس وقت کے کمانڈر اِن چیف جنرل محمد ایوب خان۔ نواب صاحب نے مسلم لیگ کی اس خدمت کے عوض کبھی کوئی سیاسی عہدہ یا مفاد نہیں لیا۔ وہ ایک اچھے زمیندار تھے۔ پاکستان بننے کے کچھ مدت بعد مسٹر کیل اپنی زمین فروخت کرگئے، اور نہر کو بھی اب اپنے اخراجات سے چالو رکھنا ممکن نہ رہا تھا، چنانچہ وہ نہر محکمہ آب پاشی کی تحویل میں دے دی گئی۔
اس انتخابی معرکے سے متعلق میری معلومات بہت کم ہے۔ شاید کوئی اور صاحب اس مختصر سے ذکر کی دیگر تفصیلات سے آگاہ فرمائیں۔ کیا نواب صاحب کا اب کوئی ایسا عزیز دریافت نہیں ہوسکتا جسے تحریک پاکستان کی اس خدمت پر کارکنانِ تحریکِ پاکستان والا کوئی میڈل دیا جاسکے۔