ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
ادیب، شاعر،محقق اور اقبال شناس ڈاکٹر سعید اختر درانی ۱۶ جولائی ۲۰۱۸ء کو برمنگھم میں انتقال کر گئے۔ یورپ میں اقبالیات کا ایک عہد اختتام کو پہنچا۔ درّانی صاحب نے اقبالیاتی تحقیقات کو جس مرحلے تک چھوڑا، اُسے آگے لے جانے کے لیے شاید طویل عرصے تک کسی دوسرے درّانی کا انتظار کرنا پڑے گا۔
وہ ۸ دسمبر ۱۹۲۹ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، جہاں اُن کے والد عنایت اللہ خان درانی(م:۱۲ دسمبر ۱۹۸۴ء) بطور سول جج مقیم تھے۔ پھر وہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ بعد ازاں کیمبرج یونی ورسٹی اور برمنگھم یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اسناد حاصل کیں۔ وہ کچھ عرصہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے لاہور سینٹر کے چیئرمین بھی رہے۔ پھر انگلستان جاکر برمنگھم یونی ورسٹی سے منسلک ہوگئے اور بقیہ عمر اِسی یونی ورسٹی میں تحقیق و تدریس میں گزاری۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد وہ پاکستان آتے جاتے رہے۔ متعدد سائنسی اور اقبالیاتی کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور اور قائداعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کی دعوت پر انھوں نے بارہا سائنسی ورکشاپوں کا اہتمام کیا۔ جہاں طبیعیات کے طلبہ و طالبات نے درانی صاحب سے اکتساب کیا۔ اس زمانے میں انھوں نے اسلام آباد کے پوش علاقے (ڈپلومیٹک اِن کلیو میں) ایک فلیٹ بھی خرید لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ موسم سرما، وہ ہر سال یہاں گزارا کریں گے۔ اپنی بیگم کے ساتھ دو تین سرما یہاں مقیم رہے، لیکن پھر یہاں کے حالات دیکھ کر فلیٹ بیچ دیا،اور پاکستان آنا بھی چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر سعید اختر درانی بنیادی طور پر سائنس دان تھے۔ وہ عمر بھر طبیعیات (فزکس) کی تدریس اور تحقیقات میں مصروف رہے۔ رائل سوسائٹی آف انگلستان نے انھیں اُن آٹھ سائنس دانوں پر مشتمل ٹیم میں شامل کیا تھا،جس نے چاند سے حاصل کردہ پتھروں کے نمونوں پر تحقیق کی۔ وہ طبیعیات کے ایک بین الاقوامی رسالے کی مجلس ادارت میں بھی شامل تھے، لیکن طبعاً شعرو ادب کا شوق بھی رکھتے تھے۔ ’’غبارِ کہکشاں‘‘ ان کی شاعری کا مجموعہ ہے۔ اُن کا یہ ذوق اقبالیات میں مرتکز ہوگیا۔ چنانچہ انھوں نے شاعری کی، افسانے اور سفرنامے بھی لکھے لیکن علم و ادب کی دنیا میں ان کی سب سے معروف حیثیت اقبال شناس کی ہے۔ یہ اقبال شناسی یا اقبالیات ہی اُن سے راقم کے رابطے کا ذریعہ بنی۔
۷۰-۱۹۶۹ء کی بات ہے، فیاض حسین شیخ انبالہ مسلم کالج سرگودھا میں میرے رفیق ِکار تھے۔ پھر وہ کالج کی ملازمت چھوڑ کر اپنے ماموں محمد طفیل صاحب کے پاس پیرس چلے گئے۔ بعد ازاں لندن جاکر بی سی سی آئی میں ملازمت کرلی۔ فیاض صاحب علامہ اقبال اور اقبالیات سے میری دلچسپی سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ انھوں نے مجھے ’’جنگ‘‘ لندن میں مطبوعہ سعید اختر درانی کے چند مضامین بھیجے۔ یہ مضامین پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ انگلستان میں علامہ اقبال کی یادگاروں سے متعلق بالکل نئی اور قیمتی معلومات ہیں۔ یہ سب مضامین ’’جنگ‘‘ لندن ہی میں چھپے تھے۔ اِدھر پاکستان میں جشنِ اقبال صدی کے موقع پر تقریبات کا سلسلہ جاری تھا اور کتابیں چھپ رہی تھیں۔ پاکستان کے اقبالیاتی قارئین درانی صاحب کے تحقیقی مضامین سے بے خبر تھے۔ چنانچہ میں نے انھیں لکھا کہ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا۔ آپ کو چاہیے کہ مضامین پاکستان میں بھی چھپوائیں۔ اُن کی تحقیق کا سلسلہ جاری تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے اپنے نئے مضامین ’’افکار‘‘ کراچی، ’’فنون‘‘ لاہور اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں چھپوائے۔ اِس طرح پاکستان کے اقبالیاتی حلقوں کو بڑی قیمتی نئی معلومات میسر آئیں۔ ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل مرحوم نے اُن سے نئے مضمون کی فرمائش کی جسے وہ ’’نقوش‘‘ کے تیسرے اقبال نمبر میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ درانی صاحب نے ایک مضمون ’’انگلستان میں علامہ اقبال کی چند دستی تحریریں‘‘ لکھ کر اُنھیں بھیج دیا، مگر ’’نقوش‘‘ کا موعودہ تیسرا اقبال نمبر شائع نہ ہوسکا۔ اب یہ درانی صاحب کی کتاب ’’اقبال یورپ میں‘‘ میں شامل ہے۔
درانی صاحب ۱۹۷۸ء میں پاکستان آئے تو ملاقات ہوئی۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ جب بھی پاکستان آتے تو ملاقات ہوتی۔ اُنھوں نے اپنے مضامین اشاعت کے لیے اقبال اکادمی کو دیے تھے۔ میں نے اُن کے مجموعۂ مضامین کا نام ’’اقبال یورپ میں‘‘ تجویز کیا، جسے اُنھوں نے قبول کرلیا۔ اُن کی ایما پر اکادمی نے کتاب کی تدوین میرے سپرد کی۔ میں نے مضامین کو
قابلِ طباعت(Press-worthy) بنانے کے لیے انھیں مختصر کیا، اور حشو و زوائد نکال دیے۔ درانی صاحب نے کتاب کا مسودہ یکجا نہیں دیا تھا۔ چار پانچ مضامین تو اُنھوں نے اکادمی کو دیے تھے، باقی جوں جوں تیار ہوتے گئے، یہاں بھیجتے گئے۔ اس عمل میں اچھا خاصا وقت گزر گیا اور مجموعہ ۱۹۸۵ء میں شائع ہوسکا۔ خاطر خواہ پذیرائی کے سبب کتاب جلد ختم ہوگئی۔ ناظم اکادمی ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم اسے دوبارہ چھاپنا چاہتے تھے۔ بقول درانی صاحب ’’ان کی خواہش تھی کہ پہلے تانا بانا کس لیں، یعنی اِس کے حشو و زوائد دور کرلیں۔‘‘ جیسا کہ درانی صاحب کی تحریریں پڑھ کر قارئین کو اندازہ ہوگا، وہ خاصے طول گفتار تھے (اگرچہ یہ طول گفتاری لذیذ اور دل چسپ ہوتی تھی مگر) تحقیق اختصار کا مطالبہ کرتی ہے۔ میرے استاد ڈاکٹر وحید قریشی کی تلقین تھی کہ: ’’کاٹ دیں، کاٹ دیں‘‘۔ مگر درانی صاحب کہتے تھے: ’’سب کچھ رہنے دیں، بہت ضروری ہے۔‘‘ میں نے اعتدال میں اس کا حل نکالا۔ قصہ کوتاہ اس کمی بیشی اور تدوین کی مشق میں کئی بر س گزر گئے۔ درانی صاحب نے چند نئے مضامین بھی شامل کردیے۔ یوں نظرثانی اور متعدد نئے مضامین کے ساتھ، کتاب کا دوسرا اور تاحال آخری ایڈیشن چودہ برس بعد ۱۹۹۹ء میں فیروز سنز لاہور سے شائع ہوا۔ دوسرے ایڈیشن میں مضامین کے ساتھ بعض نایاب و نادر دستاویزات کا اضافہ بھی ہوا۔ اور یہ سب کچھ حسبِ سابق ہوا، یعنی درانی صاحب تحریریں اور دستاویزات بھیجتے رہے اور راقم پروف خوانی اور طباعت کی نگرانی کے لیے کئی ماہ تک فیروز سنز کے طباعت خانے (متصل ریڈیو پاکستان لاہور) جاتا رہا اور اس ضمن میں بڑی کھکھیٹر اُٹھائی جس کی تفصیل راقم اور درانی صاحب کے درمیان غیر مطبوعہ خط کتابت اور کتاب کے ’’دیباچہ طبعِ ثانی‘‘ میں موجود ہے۔
طبع اول کے دیباچے میں انھوں نے لکھا تھا: ’’میں جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا سپاس گزار ہوں کہ نہ صرف اس کتاب کی تدوین و ترتیب کا اولین مشورہ انھوں نے ہی دیا تھا بلکہ ۱۹۸۱ء کے بعد تقریباً ہر خط، اور میرے پاکستان کے دوروں کے دوران ہر ملاقات میں اُنھوں نے مجھ پر زور دیا کہ میں کتاب کے باقی ماندہ مضامین کو جلد از جلد مکمل کروں۔ میں نے اُنھیں اپنے مسوّدوں کی کانٹ چھانٹ اور ترتیب و تہذیب کی مختلف ادارتی ذمےداریاں تفویض کر رکھی تھیں، اور یہ انھوں نے مہارت اور جانفشانی کے ساتھ سرانجام دی ہیں۔ اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ ان الفاظ کے ساتھ یہ کتاب بہ کمالِ امتنان و انبساط ان کے نام منسوب کرتا ہوں۔‘‘
ان کی دوسری کتاب’’نوادرِاقبال، یورپ میں ‘‘ (یہ نام بھی راقم نے تجویز کیا تھا) ۱۹۹۵ء میں اقبال اکادمی سے شائع ہوئی۔ اس میں علامہ اقبال کے قیامِ جرمنی سے متعلق ہائیڈل برگ (جہاں اقبال جرمن زبان سیکھنے کے لیے کئی مہینے مقیم رہے)، ہائل برون (جو ایما ویگے ناسٹ کا آبائی شہر ہے)اور میونخ (جس کی یونی ورسٹی سے اقبال نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی) کے متعلق اقبالیاتی معلومات شامل ہیں، اور اس کے ساتھ بہت سی تصویریں اور دستاویزات بھی۔ کیمبرج کے سلسلے میں مزید معلومات بھی اس میں شامل کردی گئی ہیں۔ درانی صاحب کے لیے جرمنی میں اقبالیات کے متعلق معلومات جمع کرنا اس لیے بھی نسبتاً آسان ہوا کہ ان کے بھائی جنرل اسد درانی اس زمانے میں جرمنی میں پاکستان کے سفیر تھے۔ اس دوسری کتاب میں پہلی بار اقبال کی بی اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے حصول کا پورا دستاویزی ریکارڈ جمع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس میں اقبال کی جرمن ٹیوٹر ایما ویگے ناسٹ اور اُس کے خاندان کے مفصل حالات بھی ملتے ہیں۔ ہائیڈل برگ میں اقبال جس مکان میں مقیم رہے، اُس پر یادگاری تختی کی تنصیب کے بارے میں دلچسپ معلومات بھی پہلی بار سامنے آئیں۔ اُن کی تیسری کتاب ’’اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمے(از نکلسن) پر اقبال کی بقلم خود تصریحات کی عکسی اشاعت اور ترجمے میں تبدیلیوں کی تفصیل پر مبنی ہے۔
درانی صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی یا میں اُنھیں خط لکھتا تو اُنھیں یورپ میں مزید تحقیقِ اقبالیات کی طرف متوجہ کرتا، اور جیسا کہ میں نے اپنے سفرنامۂ اندلس (پوشیدہ تری خاک میں) میں ذکر کیا ہے، میں نے ان کی آئندہ تحقیقاتِ اقبالیاتِ یورپ کی کتاب کا نام بھی تجویز کردیا تھا: ’’آثارِ اقبال،یورپ میں۔‘‘
مذکورہ بالا کتابوں کے بعد انھوں نے انگریزی میں چند مضامین لکھے اور کلام اقبال کے انگریزی ترجمے بھی کیے، جن میں اقبال کی نظم ’’شیکسپیر‘‘(بانگ درا) کا ترجمہ بھی شامل ہے جو ’’شیکسپیر کے گاؤں‘‘(سٹرٹ فورڈاپان ایون) کے میوزیم میں نظم کے متن کے ساتھ دھات کے تختے(Plaque) پر کندہ ہے۔
درانی صاحب بیرونِ پاکستان خصوصاً یورپ میں فروغِ اقبال کے لیے بھی سرگرم رہے۔ اُن کی اور جناب توحید احمد کی کاوشوں سے نومبر ۱۹۸۹ء میں اقبال فاونڈیشن یورپ میں قائم ہوئی،جس کے درانی صاحب نائب صدر رہے۔ این میری شمل صدر تھیں۔ یورپ میں فروغِ اقبال کے سلسلے میں قرطبہ کی بین الاقوامی کانفرنس نومبر ۱۹۹۱ء بھی بہت اہم ہے۔ اگرچہ اس کانفرنس کا انعقاد فرانس کے ایک وکیل ڈاکٹر لامان نے کیا تھا، لیکن کانفرنس کی کامیابی میں فعال کردار درانی صاحب کا تھا۔ اس کانفرنس کی تفصیل راقم کے سفرنامے’’پوشیدہ تری خاک میں‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
درانی صاحب نے برمنگھم میں اقبال اکیڈمی یو کے اور انجمن ترقی اردو برمنگھم بھی قائم کی تھی۔ اکیڈمی کے تحت متعدد ملکی اور عالمی سیمی نار منعقد ہوئے اور اکیڈمی نے بعض مطبوعات بھی شائع کیں۔ (درّانی صاحب کی خرابیِ صحت کے سبب اکیڈمی حالت سُکر میں چلی گئی۔ آج کل غالباً مرّوت حسین اکیڈمی کے صدر اور ساجد یوسف سیکریٹری ہیں۔) حکومتِ پاکستان کی مالی معاونت سے اقبال فاؤنڈیشن یورپ نے نومبر ۱۹۹۷ء میں گینٹ(بیلجیم) میں دو روزہ بین الاقوامی اقبال سمپوزیم منعقد کیا جس میں راقم کو بھی شریک ہونے کا موقع ملا۔ اِسی طرح ۲۰۰۸ء میں مرحوم نے اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے لندن اور کیمبرج میں دو سیمی نار منعقد کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اِن سیمی ناروں میں شرکت کے چند روز بعد برمنگھم گیا اور اُن کے خوش نما پائیں باغ والے، ان کے دو منزلہ بنگلے پر اُن سے سیر حاصل ملاقات رہی جس میں میرے داماد خالد محمود اور اُن کے دوست تنویر صاحب بھی شامل تھے۔ (بنگلے کے عقب میں چھوٹا سا پھولوں بھرا باغیچہ بہت مرتب اور خوبصورت تھا۔) آخری بار اُن سے ۲۰۱۴ء کے دورۂ برمنگھم میں ملاقات ہوئی۔ اُس وقت اُن کی صحت اور یادداشت کسی قدر خراب ہوچکی تھی۔ اِس لیے یہ ملاقات مختصر رہی، یعنی تقریباً پون گھنٹے تک محدود رہی۔ اس سے دو سال قبل ۲۰۱۲ء میں درّانی صاحب بیگم کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔ فروری میں مدیر ’’الحمرا‘‘ جناب شاہد علی خاں نے لاہور جم خانے میں اُن کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس میں درّانی صاحب نےجو گفتگو کی، اس سے ان کے ضعفِ حافظہ کا اندازہ ہورہا تھا۔ غالباً پاکستان کا یہ اُن کا آخری دورہ تھا۔ گزشتہ تین چار برسوں میں کبھی کبھی فون پر علیک سلیک ہوجاتی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ زیادہ گفتگو کرنے میں وہ بہت دقت محسوس کرتے تھے۔ اور اب تو کچھ عرصے سے وہ فون پر بھی بات کرنےسے قاصر تھے۔ دسمبر ۲۰۱۶ء میں جب میں کچھ وقت کے لیے برمنگھم گیا، اور انھیں فون کیا تو ان کی بیگم نے کہا: درانی صاحب کی صحت کی کیفیت ایسی ہے کہ ملاقات مشکل ہے۔ افسوس ہوا اور ۱۶ جولائی کو بریڈ فورڈ سے یعقوب نظامی نے اطلاع دی کہ آج صبح اُن کا انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے، آمین۔
محمد عمر میمن کا انتقال
محمد عمر میمن 4جون کے دن امریکہ میں انتقال کر گئے۔ وہ 1939ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئےتھے، چھ بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔1954 میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے اور کراچی میں آباد ہو گئے جہاں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور سچل سرمست یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگے۔1964ء میں فل برائٹ اسکالر شپ پر انہیں امریکا جانا پڑا جس کے بعد سے وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ وہاں ہاروڈ یونیورسٹی سے انہوں نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اور وہیں انہوں نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، لاس اینجلس ، یوسی ایل اے سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی اور 1970ء میں وسکانسن “میڈیسن سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں وہ 38سال تک اردو ادب اور عریبک اسٹڈیز پڑھاتے رہے اور وہاں سے انگریزی مین اینول آف اردو اسٹڈیز” بھی نکالتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ لکھنے پڑھنے کے کام کرتے رہے اور یہ سلسلہ انہوں نے تا حیات جاری رکھا۔ محمد عمر میمن لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں یقین رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو میں بہت سے سارے تراجم کیے۔ محمد عمر میمن خود اچھے افسانہ نگار بھی تھے انہوں نے زیادہ توجہ تراجم کو دی۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ 1986ء میں تاریک گلی کے نام سے شائع ہواتھا۔ انتظار حسین، عبداللہ حسین اور نیر مسعود، ان کے قریبی دوست تھے ایک بار انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا’’ میں نے تینوں کو انگریزی کی دنیا میں متعارف کرایالیکن انہیں کبھی مرا لکھا ہوا ترجمہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے انگریزی سے اردو میں تقریبا! پندرہ ناول ترجمہ کیے۔ ان کے تراجم کا سلسلہ ، تین جلدوں میں شائع ہو چکا ہے جس میں بین الاقومی طورپر مشہور ادیبوں سے کیے گئے انٹرویوز شامل ہیں۔ محمد عمر میمن برصغیر میں عربی زبان کے جید ترین عالم اور علیگڑھ یونیورسٹی شعبہ عربی کے سربراہ ڈاکٹر محمد یوسف میمنی کے صاحبزادے تھے۔(بہ شکریہ اردو دنیا، دہلی)