کھلتی رنگت، درازقد، بھاری بھرکم، ’’شانت مکھ‘‘… اظہارؔ بھائی سے جو بھی ملتا اُن کا گرویدہ ہوجاتا۔ سچی مسکراہٹ اُن کے اندر کے اطمینان کا پتا دیتی، وہ تحمل سے مخاطب کی بات سنتے اور جب بولتے تو شیریں بیانی دل میں اتر جاتی۔
راقم سے اُن کی یاد اللہ 1974ء سے تھی جب وہ ’’سی روزہ‘‘ ’’جواب‘‘ پر ’’پولیس جرنل‘‘ کی لوح لگاکر اسے کراچی سے شائع کرتے رہے۔ وہ زمانہ خوش نویسوں کا زمانہ تھا، ہزاروں خوش نویسوں کے باوجود ہر اشاعتی ادارے کو ان کی تلاش رہتی۔ ہمارے محلے میں سید ابصار حسن زیدی معروف رومیؔ آرٹسٹ کا مکان بھی علمی، ادبی شخصیات کا مرکز تھا۔ اظہارؔ بھائی بھی وہاں مرحوم شمس العارفین مدیر ’’شاہکار‘‘ کے ساتھ تشریف لاتے اور گھنٹوں وہاں تشریف فرما رہتے۔ میں خوش نویسی کی مشق کے ساتھ ساتھ رومیؔ صاحب کو املا بھی کراتا، اس طرح وہ آسانی سے اپنا کام جلد مکمل کرلیتے۔ اظہارؔ بھائی کے ہر شمارے میں خیام الہند جلال الدین حیدرؔ دہلوی، انورؔ دہلوی کا کلام ضرور شامل ہوتا، جسے املا کرانے میں مجھے بہت لطف آتا۔ ایک دفعہ مجھ سے مسودہ پڑھنے میں غلطی ہوگئی اور مصرعے میں لفظ ’’اپنا ہے‘‘ کی جگہ میں نے ’’رہنا ہے‘‘ لکھوا دیا۔ پروف ریڈر نے بھی اسے جانے دیا۔ جب شمارہ شائع ہوکر آیا تو یہ غلطی سامنے آئی، اور اظہارؔ بھائی نے اس کا اظہار رومیؔ صاحب سے یوں کیا ’’بھئی رومیؔ صاحب معاف کرنا میں آج دستار اور پھول لانا بھول گیا، صمد صاحب کی دستار بندی کرنی ہے، اب یہ صاحبِ اصلاح کے مقام پر فائز ہوگئے ہیں‘‘۔ میں بہت شرمندہ ہوا، میں نے عرض کیا ’’اظہارؔ بھائی یقینا مجھ سے کہیں مسودہ پڑھنے میں غلطی ہوئی ہے، آپ میری اصلاح فرما دیں‘‘۔ انہوں نے بڑی محبت سے مجھے گلے لگایا اور فرمایا ’’کام میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے، آپ غم نہ کریں‘‘۔ وہ بڑے آدمی اور عالی ظرف انسان تھے۔
پروفیسر اظہار حیدری 18 مئی 2018ء دو رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک مسکراہٹ چہرے پہ سجائے پھولوں کے دیس جا بسے۔ آپ کی وفات کے بعد قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان نے مقامی ہوٹل میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا۔
پروفیسر منظر ایوبی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ’’اظہار حیدری مرحوم کی ادبی، صحافتی صلاحیتوں سے سبھی واقف ہیں لیکن لوگ اُن کی ایک ایسی خوبی… جو اُن کو ہم سب سے ممتاز کرتی ہے اور جو اُن کا توشۂ آخرت ہے… سے کم لوگ ہی واقف ہیں، وہ خوبی ان کی مستحقین ونادار لوگوں کی مالی امداد کرنا تھی جو وہ ایک NGO کے ذریعے کرتے تھے جس کا انکشاف میری مرحومہ بیٹی حجاب منظر نے کیا تھا جو محکمہ سندھ کے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر تھی، میں اس باوقار تقریب کے انعقاد پر ان کی بیٹی صدف بنتِ اظہار اور صاحبزادہ ناصرالاعظم، اور قائداعظم رائٹرز گلڈ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ ایک یادگار تقریب ہے جو طویل عرصے تک یاد رکھی
جائے گی‘‘۔ قائداعظم اکادمی کے ڈائریکٹر اور گلڈ کے سابق صدر خواجہ رضی حیدر نے کہا: ’’پروفیسر اظہارؔ حیدری سے مجھے تقریباً پچاس سال سے نیاز حاصل رہا ہے۔ وہ نبی باغ کالج کراچی، جمعیت الفلاح، بزم نومصفین، علامہ اقبالؒ لائبریری، حلقہ اربابِ ذوق کی تنقیدی نشستوں میں بہت کھل کر اظہار خیال کرتے تھے۔ افسانے اور شاعری کے حوالے سے ان کی تنقیدی بصیرت باکمال تھی، وہ تنقیدی نشستوں کے آداب سے بھی واقف تھے، کسی تخلیق کے بارے میں ان کی گفتگو میں استہزا اور تحقیر کا عنصر واضح نہیں ہوتا تھا، وہ خوبیوں پر نگاہ رکھتے تھے اور خامیوں کی ایسی دلنشیں انداز میں نشان دہی کرتے کہ تخلیق کار شرمندہ نہ ہوتا، بلکہ گفتگو کی روشنی میں وہ اپنی اصلاح کا دروازہ کھول لیتا، بعد میں 1980ء کی دہائی میں پروفیسر صاحب سے میرا قریبی تعلق برادرم جلیس سلاسل کی ہم نشینی اور قائداعظم رائٹرز گلڈ سے وابستگی کی بنا پر رہا جو آج بھی قائم ہے، پروفیسر اظہار حیدری پاکستان کے دوست تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کے سیاسی اصولوں کے پاسدار تھے، شاید اسی لیے وہ مجھے بہت عزیز رکھتے تھے، ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تحریکِ پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے ضرور گفتگو کرتے، مطالبۂ پاکستان کے پس منظر پر ان کی گہری نگاہ تھی، میں ان کی گفتگو سے استفادہ کرتا رہتا تھا، وہ ہمیشہ میری یادوں میں زندہ رہیں گے۔ وہ میری ہی کیا، اپنے تمام احباب کی یادوں میں زندہ رہیں گے۔ شرافت، اعلیٰ ظرفی، وسعتِ علمی اور اخلاصِ باطنی کی فی زمانہ وہ ایک روشن مثال تھے۔‘‘
قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کے صدر پروفیسر خیال آفاقی نے کہا کہ ’’اظہار حیدری کا چہرہ ’’شانت مکھ‘‘ چہرہ تھا، وہ شاعر تھے مگر شاعرانہ آلائشوں سے پاک تھے، انہوں نے بلاشبہ ادب کی مختلف جہتوں میں طبع آزمائی کی اور گراں قدر خدمات انجام دیں، لیکن ان کی شخصیت میں جس عنصر نے سب سے زیادہ اور بنیادی کردار ادا کیا وہ ان کی دین و ایمان سے ہم آہنگی تھی جو ان کی عمل سے ظاہر تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں پاکیزہ خیالی نمایاں طور پر نظر آتی ہے، وہ گویا ایک ایسے قلم کار تھے جس کا پیکر نیک ذاتی اور نیک صفاتی سے سجا دکھائی دیتا ہے، اس طرح وہ نہ صرف اپنی آلودگی سے پاک تخلیقات دنیا میں استفادہ کرنے والوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں بلکہ اپنی ایمانیات اور عملیات کو رختِ سفر بنا کر منزلِ آخرت کی طرف روانہ ہوگئے ؎
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘
جانشینِ حضرتِ نازشؔ حیدری خلائی سائنس دان ظفر محمد خان ظفرؔ نے خانوادۂ حیدری سے 50 سالہ رفاقت کا تذکرہ فرمایا اور کہا کہ وہ جب بھی ان سے ملنے ان کے گھر آئے انہوں نے ہمیشہ بے تکلفانہ، مخلصانہ اور سودمند گفتگو سے نوازا، کلام سنا اور سنایا اور کبھی طعام کے بغیر رخصت نہ ہونے دیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس راقم کی موجودگی میں پروفیسر اظہار حیدری نے ظفر محمد خان ظفر کو جانشینِ حضرتِ نازش حیدری دہلوی قرار دینے کے لیے مدلل گفتگو فرمائی اور بعدازاں ایک باوقار تقریب میں اس کی تکمیل فرمائی۔ مرحوم کے صاحبزادے ناصرالاعظم نے ان کی محبتوں، شفقتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد کہا کہ میرے چھوٹے بھائی ہاشم اعظم جو آج کل لندن میں مقیم ہیں، انہوں نے فوری طور پر اظہار حیدری اینڈ رئیس فاطمہ ویلفیئرٹرسٹ قائم کردیا ہے اور ٹرسٹ کا دفتر عارضی طور پر مکتبۂ حیدری، سوئٹ نمبر 4 لائف ہوم ٹیرس نارتھ کراچی میں قائم کردیا گیا ہے۔ ٹرسٹ کے تحت اظہار حیدری ریسرچ سیل کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔ ٹرسٹ کے تحت مرحوم کی تمام غیر مطبوعہ اور مطبوعہ نگارشات کو یکجا کرکے جلد ہی کتابی صورتوں میں پیش کیا جائے گا، میں اپنے بھائی اور تمام اہل خانہ کی جانب سے تمام احباب اور رفقا سے ملتمس ہوں کہ پروفیسر اظہار حیدری سے متعلق اپنے تاثرات اور اُن سے متعلق تصاویر جلیس سلاسل کو عنایت فرمائیں۔ معروف کالم نگار عثمان دموہی نے ذاتی تعلق کے حوالے سے جذباتی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بڑے فراخ دل، وضع دار، مخلص انسان تھے۔
جلیس سلاسل سابق صدر قائداعظم رائٹرز گلڈ نے کہا کہ میں اپنے دوست اظہار حیدری کی پچاس سالہ محبتوں کا مقروض ہوں، اس کا احاطہ اس مختصر وقت میں ناممکن ہے۔ میں صرف ایک تجویز دوں گا کہ مرحوم کی شعری اور نثری تخلیقات کو دو علیحدہ علیحدہ کتابوں کی شکل میں شائع کیا جائے اور ان کی نثری نگارشات کے مجموعہ کا نام اپنے والد سے بے انتہا محبت کرنے والی بیٹی آئینہ رخسار صدف بنت ِ اظہار کے ہم قافیہ ’’آئینہ اظہار‘‘ رکھا جائے، جس کی تمام حاضرین نے تائید کی۔
گلڈ کی سیکریٹری جنرل محترمہ نسیم انجم نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ گلڈ کے تحت تیسری بڑی تقریب ہے، اس سے قبل زاہد ملک مرحوم اور آغا شورش کاشمیری کے لیے تعزیتی ریفرنس ہوچکے ہیں۔ پروفیسر اظہار حیدری 3 مئی 1944ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک ہسٹری اور جنرل ہسٹری میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں، درس و تدریس کے علاوہ صحافت کے پیشے سے وابستہ رہے، ان کی نگارشات ملک کے بڑے اخبارات میں 50 سال سے شائع ہوتی رہی ہیں۔ وہ مختلف رسائل وجرائد کے مدیر بھی رہے۔ 1971ء میں کراچی یونیورسٹی سے سالِ رواں کا بہترین ایوارڈ بھی ملا، مرحوم مختلف ادوار میں گلڈ کے نائب صدر اور جنرل سیکریٹری بھی رہے، ان کے والد انور دہلوی بھی معروف شاعر تھے۔‘‘
مرحوم کی بیٹی صدف بنتِ اظہار نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب کی ابتدا حافظ صارم اعظم نے تلاوتِ کلام پاک سے فرمائی، جبکہ کم سن حذیفہ حمادؔ نے حمد اور شاہدہ عروج نے نعت مبارک پیش کی۔ رقت آمیز دعا محترمہ فائزہ احسان نے فرمائی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں احباب کے علاوہ ڈاکٹر معین الدین احمد، ڈاکٹر حسن وقار گل، حلیم انصاری، سید مظفر الحق، نسیم احمد شاہ، پروفیسر شاہین حبیب صدیقی، غزالہ حبیب، یوسف تنویر، بلقیس راحت ایڈووکیٹ، شیخ محمود دائود، ڈاکٹر جویریہ یوسف، حنا یوسف، صدیق راز ایڈووکیٹ، سخاوت علی جوہرؔ، قاسم احمد بیگ نے شرکت کی۔ تقریب کا خوبصورت دعوت نامہ اور اسٹیج پر آویزاں پینا فلیکس کاشف علی ہاشمی نے بلا معاوضہ ڈیزائن کیا۔ تقریب کی خوبصورت نظامت ڈاکٹر رعنا اقبال نے فرمائی۔