انتخابی مہم اور بدزبانی کا کلچر

بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست اخلاقی عمل سے دور ہوتی جارہی ہے۔ لگتا ہے اس میں اخلاقیات کا کوئی اصول بالادست نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست میں کسی بھی سطح پر جوابدہی کا کوئی نظام موجود نہیں۔ سیاست اگر ذاتی مفادات، اقتدار اور طاقت کی حکمرانی کا ذریعہ بن جائے تو پھر یہ سمجھنا ہوگا کہ اس میں اخلاقی اصول بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں سب کچھ ہے، اگر کمی ہے تو وہ اخلاقی اصول اور ان کی پاسداری کی ہے۔ اخلاقی اصول اور اس سے جڑے بنیادی نکات محض کتابوں تک محدود نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ اس کا عملی مظاہرہ اخلاقی زندگی میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے طرزعمل سے نظر بھی آنا چاہیے۔
2018ء کی انتخابی مہم کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہماری جمہوری سیاست میں عملی طور پر ناشائستگی، بدتہذیبی، بداخلاقی، لب ولہجہ میں غصہ، نفرت اور بدزبانی کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’پہلے تولو،پھر بولو‘‘ لیکن ہماری سیاست میں لفظوں کے استعمال سے قبل سوچ بچار اور غوروفکر کا کوئی فہم موجود نہیں۔مسئلہ محض سیاسی کارکنوں تک محدود نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی بڑی قیادتیں جب خود غیر مہذب اور اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں کریں گی تو سیاست کا مجموعی کلچر خراب ہی ہوگا۔ہماری سیاسی قیادت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو کچھ طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے اس سے ہم نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔
مسئلہ کسی ایک جماعت یا قیادت کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو پورے ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہیں۔ کسی ایک طرف سے اگر غلط الفاظ یا کسی کی تضحیک یا کسی کی کردار کشی کرتے ہوئے غیر مہذب الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تو اس کا جوابی ردعمل بھی ویسا ہوتا ہے۔ بالخصوص سیاسی جماعتوں کے ترجمان اپنی ہی قیادت کی طرف سے بدتہذیبی کی جس ڈھٹائی سے حمایت کرتے ہیں، وہ خود بڑا المیہ ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب یہاں سیاسی جماعتیں خود کو جمہوری بنانے کے لیے تیار نہیں تو پھر سیاسی جمہوری طرز عمل کیسے تقویت حاصل کرے گا۔
بنیادی طور پر جب سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے پاس اپنی جماعت کے کارکنوں اور عوام کے لیے کوئی ٹھوس طرز پر پروگرام ہی نہ ہو تو لوگوں کو منفی سیاست میں الجھا کر ان کو سنجیدہ سیاست سے دور رکھا جاتا ہے۔المیہ یہ ہے کی سیاست میں موجود ہماری قیادت سیاسی مخالفین کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔مخالفین کی سیاسی قبولیت کے بجائے ان کو سیاسی دشمن سمیت ان کے بارے میں نفرت کی سیاست کو فروغ دیا جاتا ہے۔حتی تک کہ اس منفی سیاست میں ہماری سیاست خواتین کو بھی معاف کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان کی بھی سیاسی دشمنی میں ایسی کردار کشی کی جاتی ہے جو ان کی سیاسی عمل میں شمولیت کے راستوں کو محدود کرنے کا سبب بنتی ہے۔
ہماری سیاسی قیادت یہ بھول جاتی ہے کہ اگر سیاست میں سے اخلاقیات یا اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پھر سیاست اور جمہوریت سے کسی اچھائی کی توقع رکھنا محض خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج سیاسی جماعتوں کی ساری انتخابی مہم لعن طعن، الزام تراشیوں، مخالفانہ بیان بازی اور اس میں زبان کے پھسلنے کے تواتر سے واقعات کو دیکھ رہے ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ ہماری سیاست جمہوریت کے نام پر نئی نسل کو جو منفی سوچ، فکر اور طرزعمل کو فروغ دے رہی ہے اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بدتہذیبی کا کلچر محض سیاست تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دیگر شعبو ں میں بھی ہمیں اس کی جھلکیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔افسوس یہ ہوتا ہے کہ ہماری بڑی قیادت کی جانب سے سیاسی مخالفین پر تنقید مسائل کی بنیاد پر کم اور ذاتیات پر زیادہ مبنی ہے۔
ایسے سماج میں جہاں بڑی تیزی سے سیاسی تقسیم گہری ہوگئی ہواور لوگوں نے اس تقسیم میں برداشت کے کلچر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہو تو مجموعی طور پر معاشرہ میں سیاسی انتہا پسندی کا کلچر جڑ پکڑتا ہے جس کا نتیجہ ایک سطح پر ہمیں تشدد کے مظاہر ہماری سیاسی قیادت میں ایسے لوگوں کو بالادستی حاصل ہوگئی ہے جو لوگوں کو یکجا کرنے کے بجائے ان میں نفرت کی سیاست کو پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کیونکہ جب یہ منطق بنالی جائے کہ نفرت کا سودا زیادہ بکتا ہے تو ہم اسی کو بنیاد بنا کر اپنی اپنی سیاست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میڈیا کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ ہے کہ وہ لوگوں میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی شعور کو اجاگر کرتے ہوئے رائے عامہ کو تشکیل دینے میں معاونت کا کردا رادا کرتا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیںکہ ہمارے میڈیا میں بھی صحافی، تجزیہ نگار، دانشور، اہل علم، عالم دین، استاد سمیت سیاست دان سب ہی اپنی گفتگو اور تحریر میں شائشتگی کے دامن کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ریٹنگ کی بنیاد پر چلنے والے میڈیا میں اشتعال انگیزی یا بحران پیدا کرنا اور لوگوں میں غصہ دلانا ہماری مجبوری بن کر رہ گیا ہے۔مسئلہ یہ بھی ہوگا، مگر اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم تیزی سے شائشتگی کے کلچر سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ایک و جہ یہ بھی ہے کہ ہماری زندگی میں تربیت کا عمل بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ہماری تعلیم میں ڈگری تو ہے مگر تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور یہی حال ہمارے گھروں کا بھی ہوگیا ہے۔ اس لیے اس مسئلہ کی سنگینی کے پیش نظر ہمیں بہت زیادہ گہرائی سے اس مسئلہ کو سمجھ کر مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی جماعتوں کا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی علمی‘ ذہنی اور اخلاقی تربیت بھی کریں۔ ایک زمانے میں سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی تربیت پر توجہ دی جاتی تھی،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں کمزور ہوتی چلی گئیں۔ نہ صرف سیاسی کارکنوں کی تربیت کا عمل بہت پیچھے چلا گیا ہے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوری سیاست خود بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔بدقسمتی سے یہ بحران سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ مذہبی جماعتیں بھی اس منفی سیاست کا شکار ہوگئی ہیں۔ہمارے بعض علمائے کرام دین کے نام پر جو مخالفین کے خلاف وشنام طرازی کرتے ہیں اس سے وہ خود دین کا بھی مذاق آڑاتے ہیں جو مذہبی راہنماوں کو کسی بھی صورت زیب نہیں دیتا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام کو بنیادی مسائل پر یکجا کرنے کے بجائے ان میں جذباتیت کی سیاست کو پیدا کرکے محض اپنی ذاتی سیاست اور اس سے جڑے مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔کیونکہ سیاسی جماعتوںکی قیادت سمجھتی ہیں کہ عوام کو جذباتیت میں ڈھال کر مقبولیت حاصل کرسکتی ہیں۔بعض اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہماری قیادت تو ایسا نہیں کرتیں بلکہ یہ عمل ہمارے مخالفین کا ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کی قیادت براہ راست منفی سیاست یا بدتہذیبی پرمبنی الفاظ خود استعمال نہیںکرتی تو اس کے لیے وہ اپنی جماعت میں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو منفی سیاست کرکے قیادت کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔
اگرچہ سیاسی جماعتیں سیاست میں بڑھتی ہوئی بدتہذیبی اور ناشائشتگی پر خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پھر اپنی جماعت میں ایسے لوگوں کی بازپرس کیوں نہیں کرتیں‘ ان کا احتساب کیوں نہیں کرتیں جو بدتہذیبی کو فروغ دیتے ہیں۔ یقینی طور پر سیاسی جماعتوں میں کوئی احتساب پر مبنی کلچر موجود نہیں۔ یہاں تو براہ راست الزام ہی سیاسی قیادت پر ہے جو خود اس جرم میں بھی برابر کی شریک ہے۔ سیاسی قیادت کو سمجھنا ہوگااگر و ہ اپنی اپنی سیاست میں اس ناشائشتگی کے کلچر کو فروغ دیں گی تو نئی نسل پر اس کے زیادہ منفی اثرات مرتب ہونگے۔بالخصوص سوشل میڈیا پر جو ہم لعن طعن پر مبنی سیاست کے غلیظ کلچر کو دیکھ رہے ہیں اس پر واقعی سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ یہ عمل ملک میں سیاسی قوتوں کو کمزو ر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتیں اور قیادتیں ماتم تو بہت کرتی ہیں کہ یہاں جمہوریت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا، لیکن اس کا تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں کہ خود ان کا اپنا طرز عمل کیسے جمہوریت کو خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔یہ ہمارے اہل دانش کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی سیاسی تقسیم کا شکار ہونے یااپنے مفادات کے تحت خاموشی اختیار کرنے کے بجائے بلاتفریق سیاسی جماعتوں اور ان کی بڑی سیاسی قیادتوں کے منفی طرز عمل اوربدزبانی کے کلچر کی کھل کر حوصلہ شکنی کریں۔ کیونکہ جب تک ہم اپنی سیاسی قیادتوں پر مثبت سیاست کے تناظر میں دبائو پیدا نہیں کریں گے، سیاست میں اصلاح کا امکان کمزور ہی رہے گا۔