انسان کی زندگی میں اصل فیصلہ کن سوالات یہ ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے یا نہیں؟ ہے تو وہ ایک ہے یا بہت سے ہیں؟ جس کی خدائی مانی جائے اس کی صفات کیا ہیں؟ ہمارے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ اس نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ ہم اس کے سامنے جواب دہ ہیں یا نہیں؟ جواب دہ ہیں تو کس چیز کی جواب دہی ہمیں کرنی ہے؟ اور ہماری زندگی کا مقصد اور انجام کیا ہے جسے پیش نظر رکھ کر ہم کام کریں؟ ان سوالات کا جواب جس نوعیت کا ہوگا اسی کے مطابق نظام زندگی بنے گا، اور اسی کے مناسبِ حال نظام اخلاق ہوگا۔
اسلام کا نظریۂ زندگی و اخلاق
اسلام کا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کا خدا ہے اور وہ ایک ہی خدا ہے، اسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اس کا لاشریک مالک، حاکم اور پروردگار ہے۔ اور اسی کی اطاعت پر یہ سارا نظام چل رہا ہے۔ وہ حکیم ہے، قادرِ مطلق ہے، کھلے اور چھپے کا جاننے والا ہے، سبوح و قدوس ہے (یعنی عیب، خطا، کمزوری اور نقص سے پاک ہے) اور اس کی خدائی ایسے طریقے پر قائم ہے جس میں لاگ لپیٹ اور ٹیڑھ نہیں ہے۔ انسان اس کا پیدائشی بندہ ہے، اس کا کام یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت کرے۔ اس کی زندگی کے لیے کوئی صورت بجز اس کے صحیح نہیں ہے کہ وہ سراسر خدا کی بندگی ہو۔ اس کی بندگی کا طریقہ تجویز کرنا انسان کا اپنا کام نہیں ہے بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کا وہ بندہ ہے۔ خدا نے اس کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے ہیں اور کتابیں نازل کی ہیں۔ انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کا نظام اسی سرچشمۂ ہدایت سے اخذ کرے۔ انسان اپنی زندگی کے پورے کارنامے کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اور یہ جواب دہی اسے اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں کرنی ہے۔ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی مہلت ہے اور یہاں انسان کی تمام سعی و کوشش اس مقصد پر مرکوز ہونی چاہیے کہ وہ آخرت کی جواب دہی میں اپنے خدا کے حضور کامیاب ہو۔ اس امتحان میں انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ شریک ہے۔ اس کی تمام قوتوں اور قابلیتوں کا امتحان ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کا امتحان ہے۔ پوری کائنات میں جس جس چیز سے جیسا کچھ بھی اس کو سابقہ پیش آتا ہے اس کی بے لاگ جانچ ہونی ہے کہ انسان نے اس کے ساتھ کیسا معاملہ کیا، اور یہ جانچ وہ ہستی کرنے والی ہے جس نے زمین کے ذروں پر، ہوا پر اور پانی پر، کائناتی لہروں پر اور خود انسان کے اپنے دل و دماغ اور دست و پا پر اس کی حرکات و سکنات ہی کا نہیں، اس کے خیالات اور ارادوں تک کا ٹھیک ٹھیک ریکارڈ مہیا کررکھا ہے۔
اخلاقی جدوجہد کا مقصود
یہ ہے وہ جواب جو اسلام نے زندگی کے بنیادی سوالات کا دیا ہے۔یہ تصورِ کائنات و انسان اس اصلی اور انتہائی بھلائی کو متعین کرتا ہے جس کو پہنچنا انسانی سعی و عمل کا مقصود ہونا چاہیے، اور وہ ہے خدا کی رضا۔ یہی وہ معیار ہے جس پر اسلام کے اخلاقی نظام میں کسی طرزعمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ خیر ہے یا شر۔ اس کے تعین سے اخلاق کو وہ محور مل جاتا ہے جس کے گرد پوری اخلاقی زندگی گھومتی ہے، اور اس کی حالت بے لنگر کے جہاز کی سی نہیں رہتی کہ ہوا کے جھونکے اور موجوں کے تھپیڑے اسے ہر طرف دوڑاتے پھریں۔ یہ تعین ایک مرکزی مقصد سامنے رکھ دیتا ہے جس کے لحاظ سے زندگی میں تمام اخلاقی صفات کی مناسب حدیں، مناسب جگہیں اور مناسب عملی صورتیں مقرر ہوجاتی ہیں اور ہمیں وہ مستقل اخلاقی قدریں ہاتھ لگ جاتی ہیں جو تمام بدلتے ہوئے حالات میں اپنی جگہ ثابت و قائم رہ سکیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے مقصود قرار پاجانے سے اخلاق کو ایک بلند ترین غایت مل جاتی ہے جس کی بدولت اخلاقی ارتقا کے امکانات لامتناہی ہوسکتے ہیں اور کسی مرحلے پر بھی اغراض پرستیوں کی آلائشیں اس کو ملوث نہیں کرسکتیں۔
معیار دینے کے ساتھ اسلام اپنے تصورِ کائنات و انسان سے ہم کو اخلاقی حسن و قبح کے علم کا ایک مستقل ذریعہ بھی دیتا ہے۔ اس نے ہمارے علمِ اخلاق کو محض عقل یا خواہشات یا تجربے یا علومِ انسانی پر منحصر نہیں کردیا ہے کہ ہمیشہ ان کے بدلتے ہوئے فیصلوں سے ہمارے اخلاقی احکام بھی بدلتے رہیں اور انہیں کوئی پائیداری نصیب نہ ہوسکے۔ بلکہ وہ ہمیں ایک متعین ماخذ دیتا ہے یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت، جس سے ہم کو ہر حال اور ہر زمانے میں اخلاقی ہدایات ملتی ہیں۔ اور یہ ہدایات ایسی ہیں کہ خانگی زندگی کے چھوٹے سے معاملات سے لے کر بین الاقوامی سیاست کے بڑے بڑے مسائل تک زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں وہ ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کے اندر معاملاتِ زندگی پر اخلاق کے اصولوں کا وہ وسیع ترین انطباق (WIDEST APPLICATION) پایا جاتا ہے جو کسی مرحلے پر کسی دوسرے ذریعہ علم کی احتیاج ہمیں محسوس نہیں ہونے دیتا۔
(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… تفہیم احکام القرآن، جلد اوّل)