واصف علی واصف
نیا انسان، نئی بینائی اور نئے عزائم کے ساتھ پرانے مناظر دیکھتا ہے۔ اُس کے سامنے جو جلوہ موجود ہے وہ اُس سے پہلے بھی موجود ہے اور اُس کے بعد بھی موجود رہے گا۔ آزاد اور جدید انسان کو بڑی پابندی سے پرانے نظارے ہی دیکھنے ہیں۔ نگاہ کی آزادی اپنے اندر ایک حد تک آزاد ہے۔ دیکھنے والا ایک حد کے بعد نہیں دیکھ سکتا۔ یہ حد کبھی فاصلوں کی شکل میں ہے، کبھی عمر کے حساب سے ہے۔ آج کی بینائی شاید کل، آج ہی کی طرح نہ آسکے۔ جہاں گلاب کھلتے تھے، وہاں ان آنکھوں میں موتیا کھلے گا۔ آج کا لطف آئندہ نہ مل سکے … آج کا احساس شاید آج تک ہی ہو… محفل کی گرمیاں تنہائیوں میں یخ ہوجاتی ہیں۔
آج کی حقیقت کل کا افسانہ ہوگی۔ انسان آزاد ہے کہ جو چہرہ چاہے پسند کرلے، لیکن اس کو صرف ایک ہی چہرے سے محبت کرنا ہے، اور یہاں آزادی، آزاد نہیں رہتی۔
انسان کے سامنے پھیلی ہوئی کائنات اُس کو بہت ہی وسیع نظر آتی ہے، اور اس کائنات کے اندر اسے اپنے لیے امکانات لامحدود نظر آتے ہیں… امکانات لامحدود ہی رہتے ہیں اور فیصلے بڑے مختصر اور محدود… شادی سے پہلے شادی کے امکانات لامحدود… لیکن فیصلے کے لمحے میں یہ سارے لامحدود امکانات ایک مختصر اور محدود فیصلے میں ختم سے ہوجاتے ہیں۔ انسان سمجھتا نہیں ہے۔
زندگی کی وسیع شاہراہیں، آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی سڑکوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور یہ سڑکیں نہ جانے کیسے بند گلیوں میں بدل جاتی ہیں، اور امکانات کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے اور پھر وہی انسان سمندِ طاغوت سے گزرتا ہوا زمین پر آرہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ سب کیا تھا… کیا کچھ نہیں ہوسکتا تھا…! لیکن بس یہی کچھ ہوا۔ اگر یہی کچھ تھا تو یہی کچھ ہی کیوں نہ تھا… وہ کچھ کیا تھا جو اب نہیں ہے۔
اپنی قوت پر گھمنڈ کرنے والا اپنے عجز پر شرمندہ تو ہوتا ہے لیکن اپنی شرمندگی پر مزید عاجز ہوتا ہے۔ اُس کی قوت اپنے اندر ہی دم توڑ جاتی ہے۔ قویٰ تو مضمحل ہوہی جاتے ہیں، عناصر میں اعتدال تو غالبؔ کو بھی نہ ملا… کسی کو نہیں… سب کے ساتھ ایسے ہی ہوتا آیا ہے۔ اپنے آپ میں مگن رہنے والا خوش باش، بے فکر نوجوان ایک دین اداس ہوجاتا ہے۔ اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی… صرف اس کا کوئی بہت ہی قریبی عزیز فوت ہوگیا۔ وہ سوچتا ہے عجیب بات ہے، مرنے والا رخصت کے وقت عجیب تحفہ دے گیا۔ غم دے گیا خوشی لے گیا۔ اب یہ غم امانت ہے۔ مانگے بغیر ملتی ہے۔ ہماری آزادی کے چار تنکوں پر یہ برقِ آسمانی نازل ضرور ہوتی ہے… ایسے کیوں ہوتا ہے؟ بس یہی تو بے بسی ہے کہ وجوہات و نتائج سے باخبر انسان بھی اس سے بے خبر رہتا ہے کہ آخر آنے والے جاتے کیوں ہیں! اور اگر جانا ہی ہے تو آنا کیوں ہے!
انسان کا علم، جدید علم بھی آج کے اخبارات کی طرح کل کی خبریں دیتا ہے۔ انسان جسے تازہ سمجھ رہا ہے وہ کہنہ ہے… یہ جواں سورج، بہت ہی بوڑھا ہے… یہ ماہتابی چہرہ صرف دور سے دیکھنے والا ہے۔ یہ حسین و جمیل و جسیم ستارے، بس اپنی نظر کا دھوکا ہے… بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آگہی بھی فریبِ آگہی سے زیادہ نہیں… انسان ایک خاص وقت میں، مقرر شدہ لمحے میں پیدا ہوتا ہے اور پھر ایک اور مقرر شدہ لمحے میں رخصت ہوجاتا ہے۔ ان دونقطوں کے درمیان آزادی کا سفر ہے۔ امکانات اور حاصل کا سفر ہے۔ ساٹھ سال کی طویل عمر میں بیس سال نیند کی نذر ہوجاتے ہیں۔ مجبوری ہے۔ بچپن اور بڑھاپا اور بیماری کے ایام نکال دیے جائیں تو انسان کے پاس اپنا کیا رہتا ہے! اس پر مستزاد یہ کہ آدھی زندگی بیچ کر باقی کی زندگی کو پالنا ہے۔ دفتروں کی نذر ہونے والی زندگی بک چکی ہے۔ انسان کے پاس اپنے لیے چند سال رہ جاتے ہیں۔ اسی مختصر عرصے میں انسان کو سب کچھ کرنا ہے۔ بس کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ دیکھتا ہے سفر ختم ہوچلا ہے اور دامنِ مراد خالی ہے۔ وہ پھر دیکھتا ہے… اُسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کا اپنا نہیں تھا۔ وہ خود بھی اپنا نہیں تھا۔ اُسے بھیجنے والے نے اُسے اسی کام کو بھیجا کہ جاؤ اور پھر آجاؤ… وہ اپنے خالی دامن میں رضا کے پھول بھرتا ہے اور پھر پکار اٹھتا ہے
اسی سے فقیری میں ہوں مَیں امیر
(حوالہ: قطرہ قطرہ قلوم، صفحہ 142)
سیاسی پیشوا
امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے
یہ خاکباز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند!
ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی
جہاں میں ہے صفت عنکبوت ان کی کمند!
خوشا وہ قافلہ، جس کے امیر کی ہے متاع
تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند!
عنکبوت: مکڑی۔
-1 یہ آج کل جن لوگوں نے سیاست کی پیشوائی سنبھال رکھی ہے ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟ یہ لوگ تو مٹی سے کھیلنے والے ہیں اور مٹی ہی سے ان کا تعلق ہے۔ گویا ان کے خیالات بھی پست ہیں اور یہ پستی ہی کو پسند کرتے ہیں۔
-2 ان کی نگاہیں ہمیشہ چیونٹیوں اور مکھیوں پر رہتی ہیں اور دنیا میں ان کی کمند مکڑی کے جالے کی سی ہے۔
مکڑی کے جالے کی ایک صفت قرآن مجید میں آئی ہے:
’’جن لوگوں نے اللہ کے سوا حمایتی بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی کی سی ہے۔ اس نے گھر بنایا اور تحقیق تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کا ہے۔ کاش وہ جانتے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ سیاست دانوں کی کمند اتنی کمزور ہوتی ہے کہ اسے مکڑی کے جالے کی طرح بودا سمجھنا چاہیے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس جالے میں مکھی اور چیونٹی جیسی بے حقیقت چیزوں کے سوا کسی کو پھانسا نہیں جاسکتا۔
-3 خوش نصیب ہے وہ قافلہ جس کے سالار کا سرمایہ فرشتوں جیسے خیالات اور بلند جذبے ہوں۔ یعنی حقیقی سیاسی پیشوا وہی ہے جس کے خیالات نہایت پاکیزہ ہوں اور جذبے نہایت بلند۔
(’’مطالب ضربِ کلیم‘‘… مولانا غلام رسول مہرؔ)