امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جان برینن اور اوباما دور کی انتظامیہ میں شامل بعض ناقدین کی سکیورٹی کلیرینس واپس لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔وائٹ ہاؤس نے اس سلسلے میں انٹیلیجنس، قانون فافذ کرنے والے ادارے اور قومی سلامتی کے سابق سربراہان کے نام جاری کیے ہیں۔پریس سیکریٹری سارہ سینڈرز کا کہنا تھا کہ ان افراد نے اپنے ملازمتوں سے سیاسی فائدے اٹھائے اور صدر ٹرپ کے خلاف ’بے بنیاد الزامات‘ عائد کیے۔امریکہ میں سکیورٹی کلیرنس کے حامل افراد کو ملک کے تمام خفیہ دستاویزات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔پریس سیکرٹری کے مطابق صدر ٹرمپ کو یہ بات پسند نہیں کہ لوگ ایسے عہدوں اور محکموں کا سیاسی استمعال کریں جنہیں غیر سیاسی ہونا چاہیے۔مائیکل ہیڈن، سابق ڈائریکٹر قومی سلامتی ایجنسی نے اس فیصلے کے بعد ٹوئٹر پر کہا کہ اگرچہ صدر نے سکیورٹی کلیرنس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے مگر اس سے وہ جو کہتے ہیں اور کرتے ہیں وہ تبدیل نہیں ہوگا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے امدادی ادارے کے لیے امریکی امداد کی بندش کردیے
امریکی حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے ذمہ دار ادارے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی’اونرا‘ کی امداد بند کرنے کے باعث ایجنسی میں کام کرنے والے اڑھائی سو فلسطینی ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی شہریوں نے امریکی پابندیوں اور ’اونروا‘ کی طرف سے ملازمین کو نکالے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف شدید احتجاج شروع کیا ہے۔’یو این‘ ریلیف ایجنسی ’اونروا‘ کے ترجمان کریس غینز نے ایک بیان میں بتایا کہ امریکی امداد کی بندش کے بعد ہمیں فلسطین کے اندر ادارے کے ساتھ کام کرنے والے 250 ملازمین کو نکالنا پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم غرب اردن کے 154 اورغزہ کی پٹی کے 113 ملازمین کے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کررہے ہیں۔ ایجنسی کی جانب سے فارغ کیے گئے ملازمین کو بتا دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ امریکی حکومت نے چند ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین پناہ گزینوں کو دی جانے والی سالانہ 36 کروڑ ڈالر کی امداد کم کرے صرف چھ کروڑتک محدود کردی تھی۔ امریکی امداد کا حجم فلسطینی پناہ گزینوں کو ملنے والی کل امداد کا 30 فی صد تھا۔ کٹوتی کے بعد ایجنسی کو غیرمعمولی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی کو دی جانے والی امداد میں کمی کے نتیجے میں ادارے کو تعلیم، صحت اور ہنگامی امداد سمیت کئی دوسرے شعبوں میں اپنی سروسز کو محدود کرنا پڑا ہے۔’اونروا‘ کی جانب سے فلسطینی ملازمین کو نکالے جانے کے اقدام پر غزہ اور غرب اردن میں ’ایجنسی‘ کے خلاف فلسطینی مظاہرے کررہے ہیں۔ ملازمت میں توسیع نہ ملنے پر ایک شہری نے خود سوزی کی کوشش کی جب کہ خواتین اور بچوں کا احتجاج کے دوران ان رو رو کر برا حال ہوگیا ہے۔یو این ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی[اونروا] کا قیام سنہ 1949ء کو عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ ادارہ کل پچاس لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں میں سے 30 لاکھ پناہ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ سنہ 1948ء کی جنگ میں صہیونی ریاست کے فلسطین پر قبضے کے دوران نکالے گئے فلسطینی اندرون ملک، اردن، لبنان اور شام میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور حسن روحانی میں دھمکیوں کا تبادلہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایران کے صدر حسن روحانی نے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں ایک دوسرے کو ایک مرتبہ پھر سخت الفاظ میں خبردار کیا ہے۔صدر ٹرمپ نے پیر کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اگر ایران نے اب امریکہ کو دھمکی دی تو اسے اس کا وہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا جس کی تاریخ میں نظیر مشکل سے ہی ملتی ہے۔صدر روحانی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ‘امریکہ کو اب کبھی دوبارہ مت دھمکانا ورنہ وہ نتائج بھگتنا پڑیں گے جن کا سامنا تاریخ میں چند ہی کو ہوا ہے۔ ہم اب وہ ملک نہیں جو تمہاری پرتشدد اور موت کی بکواس سنیں۔ خبردار رہو۔’صدر ٹرمپ کے اس حالیہ بیان سے قبل ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ جنگ ’تمام جنگوں کی ماں ثابت ہو گی۔‘انھوں نے امریکی صدر کو خبردار کرتے ہوئے کہا: ‘مسٹر ٹرمپ، آپ شیر کی دم سے نہ کھیلیں، کیونکہ اس سے آپ کو صرف تاسف ہی ہوگا۔’یرانی اخبار تہران ٹائمز کے مطابق روحانی نے ایرانی سفارت کاروں سے اپنے خطاب میں کہا: ‘امریکہ مکمل طور پر یہ سمجھتا ہے کہ ایران کے ساتھ امن ہر قسم کے امن کا ضامن ہے اور اسی طرح ایران کے ساتھ جنگ ہر قسم کی جنگ کی ماں ہے۔ میں کسی کو دھمکی نہیں دے رہا ہوں، لیکن کوئی بھی ہمیں دھمکا نہیں سکتا۔’اتوار کو ایک دوسرے موقعے پر امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیؤ نے کہا کہ ایرانی اقتدار ‘حکومت کے بجائے مافیا سے زیادہ مماثلت رکھتا ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور یہ آئی اے ایی اے کے ساتھ معاہدے کے مطابق ہے جس کی تصدیق ادارے نے کی ہے اور کہا ہے کہ ایران اپنے وعدے کی پاسداری کر رہا ہے۔
نظریاتی، تہذیبی جنگ اور انتخابی جنگ
جمہوریت کے لیے کام کرنا کتنا خوش گوار ہوتا ہے اور ایسے میں حکومت سے خوف کھائے بغیر کام کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس جمہوریت کی لڑائی میں بات نظریاتی لڑائی تک آن پہنچی۔ بھٹو صاحب نے گویا ہمارے ایمان کا امتحان لے ڈالا تھا۔ بازاروں میں مارکسزم کی کتابوں کے ڈھیر لگ گئے۔ روسیوں نے تو شاندار نرم و دبیز کاغذ پر چھپی ہوئی کتابیں کوڑیوں کے مول فراہم کرنا شروع کر دیں۔ درمیان میں چین بھی آن کودا۔ مائو ‘مارکسن‘ لینن کے بیج سینوں پر سجنے لگے اور مائو کی سرخ کتاب تو گویا فیشن بن گئی۔ دوسری طرف سے جماعت اسلامی اور دوسری سیاسی جماعتیں شوکت اسلام کا پرچم لے کر میدان میں آن اتریں۔ پورا ملک ایک نظریاتی جنگ کی لپیٹ میں آگیا ‘جگہ جگہ سٹڈی سرکل کھلنے لگے۔ پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس میں رونق لگتی۔ مال روڈ میں انقلابیوں نے ڈیرے ڈال دیے۔ حلقہ ارباب ذوق میں معرکہ آرائی شروع ہو گئی۔ ایک آگ تھی کہ چاروں طرف سینوں میں لگی ہوئی تھی۔ یونیورسٹی میں بھی طلبہ کے درمیان واضح نظریاتی تقسیم ہو گئی تھی۔ دل تو کرتا ہے کہ ذرا تعلّی سے کام لیتے ہوئے اس زمانے کے اپنے کارنامے گنوائوں۔ ہماری سیاسی جدوجہد نظریاتی معرکہ آرائی بن گئی تھی۔ جمہوریت میرے لیے بھی اب نظریے کی جیت تھی۔ ایسا تصادم تھا کہ گویا کفر و اسلام کی جنگ ہو۔ ہم مذہبی جوش و جذبے سے اس جنگ کا ہر اول دستہ بن چکے تھے۔ میں تفصیل حذف کرتا جا رہا ہوں۔ بتا رہا ہوں کہ ہم کن ادوار سے گزرے‘ حتیٰ کہ بھٹو صاحب کا دور اقتدار آ گیا اب ہم حزب اختلاف میں تھے اور ’’اسلام‘‘ کے علمبردار بھی۔ آپ سمجھ گئے نا میں کیا کہہ رہا ہوں۔ طے کیا کہ دبنا نہیں‘ ڈرنا نہیں۔اپوزیشن کا ساتھ دینا ہے‘چاہے کفر یا طاغوت کی قوتوں کے خلاف صف آرا ہوناپڑے۔ یہ جنگ جاری رہے گی۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ میں نے کہیں یہ کہا تھا کہ آئندہ 20بیس سال میں یہ جنگ لڑوں گا۔ پھر اس کا پرچم آنے والی نسل اٹھائے گی۔ مجھے نہیں یاد یہ بیس سال کا ہندسہ کہاں سے آیا تھا۔ شاید بھٹو نے کہا تھا کہ وہ بیس برس تک اس ملک پر حکومت کریں گے کوئی ہلا نہیں سکے گا۔ شاید میرے ضمیر کی طرف سے یہ اپنے عزم کا اظہار تھا۔ میری نسل ڈٹ گئی اور خوب لڑی۔ جمہوریت کی لڑائی بھی اور نظریاتی معرکہ آرائی بھی۔ سچ پوچھیے خوب مقابلہ کیا۔ ساری دوستیاں‘ سارا علمی شجرہ نسب‘ ساری جنگ انہی ہتھیاروں کے ساتھ لڑتے گئے۔ بے تیغ نہ تھے‘ ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھے۔ مراد طالب علمی‘ تہذیبی اور سماجی اسلحہ سے ہے‘ گولا بارود سے نہیں۔ان معرکہ آرائیوں کا کچھ نہ پوچھیے۔ لڑتے ہی گئے۔ لڑتے ہی گئے۔اس میں خود کی تعمیر بھی ہوتی گئی۔ شخصیت بھی بنتی گئی۔ ہوا یوں کہ جب اس بات کو 20سال گزرے تو برلن کی دیوار گر چکی تھی۔ (باقی صفحہ نمبر41پر)
روس کی سلطنت ڈھے چکی تھی اور ملک سے فوجی حکومت کا دور بھی گزر چکا تھا۔یہ گزشتہ صدی کا آخری عشرہ تھا۔ ہم نے اعلان کر دیا ہم جنگ جیت چکے ہیں نظریاتی اور سیاسی ہر دو محاذوں پر۔ مارکسٹوں پر پھبتیاں کستے کہ سارا لیفٹ امریکہ کو پیارا ہو گیا ہے۔ روس کے خوشہ چیں امریکہ کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ ان بائیں بازو والوں پر بھی پژمردگی چھا گئی تھی۔ اتنے میں یوں لگا کہ ایک نیا معرکہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ پروگریسو کہلانے والے اب سیکولر کہلانے لگے تھے۔ انہوں نے روشن خیالی کا علم اٹھا لیا تھا۔ اب انہیں عالمی قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔ مجھے یاد ہے ایک بار ایک امریکی سفارت کار نے مجھ سے کہا کہ یہ اسلام وغیرہ تو پاکستان میں کہیں نہیں‘ مذہبی جماعتیں مار کھا چکی ہیں۔ عرض کیا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘ جیتنے والی دونوں جماعتیں رائٹ ااف سنٹر اور لیفٹ آف سنٹرہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی جیت کا یہ مطلب نہیں کہ دینی قوتیں ہار چکی ہیں۔ یقین نہ آئے تو اپنے سفارت خانے سے اجازت لے کر میرے ساتھ چلئے۔ ان دنوں میں کراچی میں رہتا تھا اور یہ گفتگو کلفٹن کے کسی گھر میں ہو رہی تھی اس کے لیے اندرون سندھ چلنا چاہو تو بھی بسم اللہ وگرنہ ذرا پل کے اس پار چلئے۔ میں آپ کو پاکستان کا اصل نقشہ دکھاتا ہوں۔ کراچی میں کلفٹن اور ڈیفنس کے پوش علاقے پورے شہر سے جغرافیائی طور پر بھی الگ ہیں اور انہیں باقی شہر سے ملانے والوں پلوں کا حوالہ یوں آتا تھا کہ دونوں دو الگ الگ دنیائیں ہیں۔ ملک میں کوئی جماعت ایسی نہ رہی تھی جو مذہب کے خلاف بات کرتی۔ ویسے تو آج بھی نہیں ہے۔ اس کو زیادہ سخت انداز میں مذہبی اور غیر مذہبی کے خانوں میں نہ بانٹا جائے۔ ایک بار ایاز امیر نے لکھا تھا کہ شہر میں صرف دو طرح کے لوگ ہیں۔ایک وہ جو اردو بولتے ہیں اور ان کی شامیں خشک گزرتی ہیں۔ دوسرے وہ جن کی شامیں مست ہوتی ہے اور جو انگریزی بولتے ہیں ‘یہ بات کہنے کا ایک انداز ہے۔ یہ میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے جو چند برس پہلے لکھی گئی ہے۔ نام ہے جہاد بمقابلہ میک ورلڈ۔ یہ دو دنیائوں کا مقابلہ ہے۔ یہ میک میکڈونلڈ سے لیا گیا ہے۔ اس میں پیپسی‘ کوک کلچر سب شامل ہے۔دونوں دنیائوں کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کو آمنے سامنے رکھا گیا ہے۔ لگتا ہے اگر جہاد کلچر سے مبینہ تشدد نکال دیا جائے تو شاید ہمیں اس خانے میں رکھ لیا جائے۔ ویسے ہمارے مخالف کیوں نکالیں گے۔ یہ تشدد دوسری طرف جنگ والا ہے۔ نام نہاد گلوبل کلچر۔ مجھے لگتا ہے ہم اس جنگ میں جھونک دیے گئے ہیں۔ اب دوبارہ اعلان کر چکا ہوں کہ 20برس کے بعد ہم جو ذرا مطمئن ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ وہ اطمینان ہماری قسمت میں نہیں ہے۔ پاکستان ہمارے خوابوں کی علامت ہے یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں ہونے والے سارے الیکشن اسی جذبے کے تحت دیکھتے ہیں۔ یہ ہماری سیاست نہیں ہماری تہذیبی جنگ ہے۔ اس میں یہ جذبہ بھی کارفرما ہے کہ یہ ملک مضبوط ہو گا خوشحال ہو گا تو ہمارے خواب بھی تعبیر پائیں گے۔ یہ جو انتخابی عمل پر اعتراضات ہیں‘ ان کا یہی پس منظر ہے۔ حالات جس رخ پر جاتے ہیں‘ ہمارے لیے ان کے بارے میں اصل تشویش یہ ہے کہ ہم بھنور میں الجھ رہے یا سمندر کے لہروں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں‘ منزل مراد کی بات کسی پارٹی کا جیتنا یا ہارنا اہم نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس سارے پراسس میں کہیں ہم اپنی تہذیبی جنگ نہ ہار جائیں۔ان انتخابات کے بارے میں جو تشویش ہے‘ وہ بھی یہی ہے لگتا تھا ملک ایک سمت چل پڑا ہے۔ اب احساس ہوتا ہے۔ ہم یہ سمت کھوتے جا رہے ہیں۔ یہ اہم نہیں کون جیتتا ہے‘ کون ہارتا ہے۔ اہم یہ ہے کہ کیسے جیتتا ہے‘ کیسے ہارتا ہے۔ صاف کہے دیتا ہوں کہ یہ انتخاب ہم نے بڑی بدتہذیبی کے ساتھ لڑے ہیں۔ وہ کچھ کیا ہے جس کا کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ امید تھی کہ ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ بہت مہذب ہو گئے ہیں‘ جمہوریت کے اطوار بھی سیکھ چکے ہیں‘ یہاں بسنے والے انسانوں کے سارے مسئلے حل ہونے کی سمت گامزن ہیں۔ کیا کہوں یہ سب خواب و خیال تھا۔ ہم نہ مہذب ہیں‘ نہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔
سجاد میر ،روزنامہ 92نیوز،23جولائی2018
ایک رائے
کی بات ہے جب اچانک دانشوروں اور تعلیم گاہوں میں سوشلزم اور کمیونزم کے حامی کارکن نمایاں ہوئے۔ زیادہ تر نوجوان تھے اور پڑھے لکھے تھے۔ پوری دنیا میں یہ لوگ موجود تھے اور کئی ملکوں میں سوشلزم یا کمیونزم پیش قدمی کر رہا تھا۔ سوویت یونین تو بہت پہلے قائم ہو چکا تھا‘ اب افریقہ ایشیا اور جنوبی افریقہ کے کئی ملکوں میں کمیونسٹ تحریکیں چل رہی تھیں اور کہیں کہیں تو ان کا بہت زور تھا۔ مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں فوجی بغاوت کے ذریعے کمیونسٹ حکومتیں قائم ہو چکی تھیں جن پر پاکستان کے اسلامی حلقے مضطرب تھے، لیکن جیسا کہ بعد میں پتہ چلا کہ یہ محض فوجی آمریتیں تھیں، کمیونزم یا سوشلزم کا محض نام استعمال کر رہی تھیں۔ امر واقعی میں انہیں سوشلزم سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مثلاً عراق اور شام میں بعث پارٹی کی حمایت رکھنے والے فوجی حکمران یا لیبیا میں کرنل قذافی۔ پاکستان میں عوامی سطح پر کسی کو سوشلزم یا کمیونزم سے کوئی واقفیت تھی نہ علاقہ، لیکن جماعت اسلامی نے اس خطرے کو بہت بڑا (Larger-than-Life سمجھ کر اس کے خلاف صف آرائی کی تو سوشلزم کی مشہوری ہو گئی۔ اتنی زیادہ کہ بعض لوگوں کو لگنے لگا کہ پاکستان میں کمیونسٹ انقلاب آنے ہی کو ہے۔ در حقیقت سوشلسٹ دانشور بہت ہی محدود اقلیت تھے اور زیادہ تر اعلیٰ تعلیمی اداروں ہی میں موجود تھے۔ ان کا نعرہ تھا ایشیا سرخ ہے کیونکہ ان کے خیال میں ایشیا کے کئی ممالک کمیونسٹ ہو چکے تھے‘ کچھ ہونے والے تھے، مثلاً شمالی ویت نام ‘ شمالی کوریا‘ بعض عرب ممالک۔ انڈونیشیا میں ایک بہت بڑا انقلاب کچلا جا چکا تھا جس میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ اسے کمیونسٹ انقلاب کا نام دیا گیا۔ درحقیقت یہ چینی نژاداقلیت کی ریاست مخالف جنگ تھی۔ یہ زمانہ بھٹو صاحب کے سیاسی عروج کا تھا، ان کے ساتھ ہر طبقہ زندگی کے لوگ تھے۔ سرمایہ دار تو کم لیکن جاگیردار بہت زیادہ، مزدور کسان اور غریب طبقات کی اکثریت بھی ان کے ساتھ تھی۔ مذہبی اور لا مذہبی ہر دو طبقات میں ان کا اثر تھا۔ ترقی پسند یعنی سوشلسٹ دانشور کچھ تو شروع دن سے ان کے ساتھ تھے، کچھ بعدمیں حامی ہو گئے اور کچھ تو مرکزی عہدوں پر بھی پہنچے۔ جماعت اسلامی نے غلط اندازے سے بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کو کمیونسٹ سمجھ لیا حالانکہ کمیونسٹوں کی اکثریت پیپلز پارٹی میں نہیں‘ نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ میں تھی۔ جماعت اسلامی صورت حال کا گہرا تجزیہ کرتی تو وہ سمجھ جاتی کہ بھٹو صاحب ایک قوم پرست سیاستدان ہیں جن کا سوشلزم اور کمیونزم سے کوئی واسطہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ بھٹو امریکی استعمار کے مخالف تھے اور حکمران بن کر عالمی سطح پر امریکی اثرات سے آزاد بلاک تشکیل دینا چاہتے تھے، جو انہوں نے دیا بھی اور اس کی پاداش میں پھانسی کی سزا بھی پائی۔ وہ امریکی استعمار کے مخالف تھے اور ضروری نہیں کہ ایسا آدمی کمیونسٹ ہو۔ بھٹو کی طرح شاہ فیصل جیسا مذہبی بلکہ تہجد گزار حکمران بھی امریکہ کا مخالف تھا۔ جماعت اسلامی لیکن اپنے غلط اندازے پر پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی۔ اس نے محدود بائیں بازو کو عظیم خطرہ سمجھ کر جنگ کے سارے مورچوں کا رخ اس کی طرف کر دیا اور اس جنگ میں مجید نظامی مرحوم کے ندائے ملت‘ شورش کاشمیری کے چٹان اور پریس ٹرسٹ کے مشرق نے اس کا پورا ساتھ دیا۔ جماعت کے سکالر رہنما پروفیسر خورشید احمد نے اپنے جریدے ’’چراغ راہ‘‘ کا سوشلزم نمبر نکالا جو علمی وقعت کے اعتبار سے معرکتہ الآرا تھا۔ ایک اور سکالر رہنما نعیم صدیقی نے دارالفکر کے نام سے ادارہ قائم کیا جس نے چند ہفتوں کی قلیل مدت میں کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف بے پناہ معلوماتی اور دلچسپ لٹریچر کے انبار لگا دئیے۔ علمی سطح پر ٹھیک بات تھی لیکن سیاسی میدان جنگ میں جماعت اسلامی نے سارا توپ خانہ سوشلزم کی طرف موڑ دیا تو اس کا نتیجہ منفی نکلا۔ جماعت کے ساتھ اس دور کی اکثر مذہبی جماعتیں بھی تھیں۔ ان سب نے سوشلسٹوں اور پیپلز پارٹی والوں کے خلاف کفر کے فتوے دیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عام عوام میں جماعت بلکہ اہل مذہب کے خلاف ردعمل پیدا ہو اور پیپلز پارٹی کی گراس روٹ مقبولیت مزید مستحکم ہو گئی۔ ان دنوں تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا زور ہوا کرتا تھا لیکن بڑے شہروں میں سرخے بھی کم نہیں تھے۔ تعلیمی اداروں میں ایک طرف یہ نعرہ گونجتا ’’سرخ ہے سرخ ہے‘ ایشیا سرخ ہے۔‘‘ دوسری طرف سے جواب آتا۔ ’’سبز ہے سبز ہے ایشیا سبز ہے۔‘‘ ٭٭٭٭٭(عبداللہ طارق سہیل،روزنامہ 92نیوز،26جولائی2018